تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     18-03-2017

واپسی

وزیرِ اعظم نے سچ کہا: پاکستان کے درخشاں مستقبل کا سورج بلوچستان سے طلوع ہو گا۔ صدیوں کی فلاکت کے بعد اگلی سویر پہ ان کا حق فائق ہونا چاہیے۔ بجا کہا: کوئی احسان نہیں، یہ ایک قرض کی ادائیگی ہے... واپسی!
اقبالؔ کی نظم مسجدِ قرطبہ کے باب میں کبھی یہ خیال ہوتا ہے کہ وہ اتنا ہی بڑا کارنامہ ہے، جتنی کہ اس نادرِ روزگار عمارت کی تعمیر۔ شاعر کو اس میں ربِ ذوالجلال کی خیرہ کن کبریائی اور قلبِ مومن کا جمال و جلال دکھائی دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ معجزہء فن کی نمود خونِ جگر سے ہوتی ہے۔ 
سبکدوش میجر جنرل فاروق کا گھر دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ حسنِ تعمیر کے نادر زاویے۔ پوچھا تو کہا کہ تعمیر سے پہلے بھی ڈیڑھ برس تک میں اسی گھر میں مقیم تھا، ذہنی طور پر! آرکیٹکٹ نے ریاضت کی مگر خود انہوں نے بھی۔ 
پھر انہوں نے چمالانگ میں 75 ارب ڈالر کے کوئلے کی کانوں کا قصہ سنایا۔ کئی برس کے تکلیف دہ مذاکرات سے ڈیڑھ سو سالہ تنازعے کو سمجھوتے تک پہنچایا۔ سینکڑوں بلوچ کروڑ پتی اور ہزاروں لکھ پتی ہو گئے۔ 74 ہزار ملازمتیں پیدا ہوئیں۔ بے بہا پانی دریافت ہوا۔ ایک نیا شہر آباد ہو گیا۔ منصوبے کی آمدن سے پانچ ہزار بچّے ملک کے بہترین اداروں میں تعلیم پانے لگے۔ خیر بخش مری مرحوم نے کہ بلا کے سخت جان اور انفرادیت پسند تھے، رنج سے یہ کہا تھا: سیاسی ناکامی نے نہیں، چمالانگ نے میری کمر توڑ دی۔ عہدِ جاہلیت کو دفن کرنا ہو تو انسانوں کو آزاد کیا جاتا ہے۔ معاشی، نفسیاتی اور فکری طور پر۔ میرے سرکارؐ نے یہی کیا تھا۔ سیرت مگر کون پڑھتا ہے۔ سیرت کیا، رفتگاں سے، ماضی کے چراغوں سے بھی کوئی نہیں سیکھتا۔ اقبالؔ نے کہا تھا: ؎
توفیقِ عمل مانگ نیاگانِ کہن سے
شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را
وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف نے گوادر میں عام آدمی کے لیے کچھ منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔ اس پر مبارک باد کے وہ مستحق ہیں۔ افتادگانِ خاک کی نجات ہی سے ملک سرخرو ہو سکتا ہے۔ کھربوں ڈالر کے منصوبے ہیں مگر ستائی گئی اور پسماندہ مخلوق ہی کا بھلا نہ ہوا تو کیا ہوا؟ مجید امجد یاد آئے۔ یہ جھونکے جھونکے میں کھلتے گھونگھٹ نئی رتوں کے/ نہ ان کا مقصد نہ ان کا حاصل/ اگر ان کونپلوں کی قسمت میں نازِ بالیدگی نہیں ہے۔ 
دیہی سندھ، سرائیکی پٹی اور بلوچستان نے بہت دکھ سہہ لیے۔ صدیوں سے بلکہ بلوچستان تو اغلباً ایک ہزار برس سے۔ اس شب کی آخر ایک سحر ہونی چاہیے۔ میرے سرکارؐ نے کہا تھا: جس بستی میںکوئی بھوکا سو رہا، اللہ اس کی حفاظت سے بے نیاز ہے۔ سبھی کچھ ہم پڑھتے ہیں، بس عالی جنابؐ کے ارشادات پر غور نہیں کرتے۔ ہماری عقل کے گھوڑے اکثر بے آب و گیاہ صحرائوں کی سمت دوڑتے ہیں۔ ہمارے باطن کی آلودگیاں اور ہماری عقل کے حجاب اس طرف ہمیں جانے نہیں دیتے۔ 
بلوچستان پہ ادراک اوّل مسلح افواج نے کیا۔ جنرل ناصر جنجوعہ ایسا کریم آدمی جنرل کیانی نے بلوچستان بھیجا۔ فنی تربیت کے بہت سے ادارے بنائے۔ ایک عظیم الشان میڈیکل کالج قائم کیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ فوج میں اہلِ بلوچستان کی نمائندگی بڑھا دی۔ قامت میں رعایت کا فیصلہ کیا۔ پھر ایک بہترین فیصلہ وفاقی حکومت نے کیا کہ بجٹ میں صوبے کا حصہ 6 سے 9 فیصد کر دیا۔ جنرل جنجوعہ کے بعد جنرل عامر ریاض بھیجے گئے۔ شگفتہ مزاج، باہمت، طبّاع اور ذکی۔ گندگی پر بیٹھنے والی میڈیا کی بعض مکھیوں کو یہ سب دکھائی نہ دیا، بس عیب ہی۔ بھارت ہی نہیں، بظاہر دوست‘ مشرقِ وسطیٰ کے بعض ممالک، امریکہ اور برطانیہ بھی پاکستان کو کمزور رکھنے کے لیے بلوچستان میں شورش کو زندہ رکھنے کے تمنائی ہیں۔ 
برہمی اور حیرت پائی جاتی تھی کہ گوادر کے شہریوں کا حال کوئی کیوں نہیں پوچھتا۔ طویل فاصلے، گرد و نواح بنجر، تعلیم برائے نام، پانی کم، سڑکیں تباہ حال اور روزگار محدود۔ تاریخ ساز تجارتی راہداری کی بنیاد مگر وہی ہے۔ سمندر اس کا نیلا ہے اور اس قدر خوبصورت کہ دنیا بھر سے سیاح دیکھنے آئیں۔ معمولی متاع یہ نہیں ہے۔ وزیرِ اعظم نے اب ایک یونیورسٹی، بڑے ہسپتال، سڑکوں کے علاوہ چین میں مقامی نوجوانوں کے لیے تدریس کے مواقع اور مالکانِ زمین کے لیے تحفظ کا اعلان کیا ہے۔ اچھا ہے، بہت اچھا۔ کچھ اور چیزیں بھی نگاہ میں رہنی چاہئیں کہ معاملات حساس ہیں۔ سوچ سمجھ کر ''را‘‘ اور اس کے زیرِ اثر لوگوں نے پروپیگنڈا بہت کیا ہے۔ شاعر نے کہا تھا: ؎
اچھی صورت بھی کیا بری شے ہے 
جس نے ڈالی بری نظر ڈالی 
حاسد بہت ہیں اور معلوم ہیں۔ سازشوں کا سلسلہ ایک زمانے سے جاری ہے اور جاری رہے گا۔ شہری آبادی کے مسائل حل کرنے کے لیے جو قدم وزیرِ اعظم نے اٹھایا ہے، آغازِ کار اسی سے ہونا چاہیے۔ ملازمتوں کے مواقع اور مدتوں سے چلے آتے محرومی کے احساس کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے۔ منصوبوں کی بروقت تکمیل کے لیے لائق، مخلص اور قابلِ اعتماد افسروں کا ملک بھر سے انتخاب ہونا چاہیے۔ ایوانِ وزیرِ اعظم میں نگراں سیل بنانا چاہیے۔ 
لافانی ادیب گورکی نے پہاڑ کی تہہ میں راہ گزر تراشنے کی ایک کہانی بیان کی ہے، ایک مزدور کی زبان سے۔ جوش و جذبے سے بھرا محنت کش کہتا ہے '' ہر کام کٹھن ہوتا ہے، جب تک تمہارے ر گ و پے میں سرایت نہ کر جائے۔ جب تک تم اس سے محبت نہ کرنے لگو۔ پھر وہ تمہارے باطن میں ایک جوش کو جنم دیتا ہے... اور بالکل سہل ہو جاتا ہے‘‘۔ بلوچستان محبت بھری توجہ کا طالب ہے۔ Love's Labour is Sweet۔ 
تجارتی شاہراہ بلکہ پورے بلوچستان کی وسعتوں میں حفاظتی انتظامات سب سے بڑا مسئلہ ہیں۔ بہتر ہے کہ گوادر اور گرد و پیش کے اضلاع سے محافظ بھرتی کیے جائیں، بہترین تربیت ہو۔ نچلے اہلکار ہی نہیں، اعلیٰ افسر بھی۔ پاک فوج کے کچھ بلوچ افسر اس عرصے میں قیادت کریں۔ مقامی لوگ اپنا لیں تو علاقے کا امن ان کا فخر ہو گا۔ تجربے سے ثابت ہوا کہ بلوچ بہترین سپاہی ہیں۔ پھر ان کی کچھ کرداری خصوصیات ہیں، خوددار اور کمٹمنٹ رکھنے والے۔ تیس برس ہوتے ہیں، اساطیری بریگیڈیئر سلطان نے وزارتِ زراعت کے لیے جنگل اگایا تو خاردار تار کی بجائے دیہاتیوں کو حفاظت کی ترغیب دی۔ 80 فیصد کی بجائے 90 فیصد درخت محفوظ رہے۔ گوادر کی طرف انتقالِ آبادی کثرت سے ہو گا۔ ٹھیک عرب ممالک کے خطوط پر نہ سہی مگر کسی نہ کسی ڈھنگ سے مقامی لوگوں کے حقوق کی ضمانت دینا ہو گی۔ ان کے ووٹ کی قدر و قیمت بنیادی ہونی چاہیے۔ ان کی غربت کو تحلیل کرنے کا قومی منصوبہ تشکیل پانا چاہیے۔ مہاتیر محمد نے جس طرح ملائیشیا کی مقامی آبادی، دیوارِ برلن کے انہدام پر جس طرح جرمن حکومت نے مشرقی جرمنی کے لیے بنایا۔ تاریخی عوامل سے مقامی ملائی لوگ اور مشرقی جرمن کے باشندے پسماندہ رہ گئے تھے۔ 
غالباً یہ طائف کی تسخیر تھی۔ مالِ غنیمت کا بڑا حصہ نو مسلموں میں آپؐ نے بانٹ دیا۔ ایک ایک آدمی کو سو سو اونٹ۔ انصارِ مدینہ میں اس پر چہ میگوئیاں ہوئیں تو آپؐ نے انہیں جمع کیا۔ فرمایا ''کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ دوسرے لوگ مال و دولتِ دنیا لے جائیں اور تم مجھے اپنے ساتھ لے جائو‘‘۔ تاریخ کہتی ہے کہ روتے روتے انصاریوں کی داڑھیاں بھیگ گئیں۔ بات کو انہوں نے پا لیا۔ آپؐ کا اقدام تالیفِ قلب کے لیے تھا۔ اوّلین مسلمان زیادہ بخت خوش تھے کہ ایمان کی دولت جلد پائی اور پیمبرؐ کی رفاقت نصیب رہی۔ تالیفِ قلب ایک مستقل فلسفہ ہے۔ سیرتِ رسولؐ کا ہر طالبِ علم جس سے آشنا ہے۔ 
وزیرِ اعظم نے سچ کہا: پاکستان کے درخشاں مستقبل کا سورج بلوچستان سے طلوع ہو گا۔ صدیوں کی فلاکت کے بعد اگلی سویر پہ ان کا حق فائق ہونا چاہیے۔ بجا کہا: کوئی احسان نہیں، یہ ایک قرض کی ادائیگی ہے... واپسی!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved