تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     18-03-2017

غیر اہم معاملات میں ہماری جنون کی سی دلچسپی

گاہے گاہے سابق فوجی حکمران، جنرل پرویز مشرف کے بارے میں کوئی نہ کوئی احمقانہ بیان سامنے آ جاتا ہے کہ اُنہیں قانون کا سامنا کرنا چاہیے۔ ہم اُن کی جان چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ اب وہ قصہ ٔ پارینہ بن چکے ہیں۔کبھی اُنھوں نے قومی سٹیج پر کردار ادا کیا تھا لیکن اب وہ قومی منظرنامے پر موجود نہیں؛ چنانچہ اُن کی کوئی اہمیت نہیں۔ اُنھوں نے اس امید پر ایک سیاسی جماعت بھی بنائی تھی کہ وہ اس کے ذریعے قومی منظرنامے پر ہلچل سی مچا دیں گے۔ آج وہ جماعت ایک لطیفہ بن چکی ہے۔ پرانے اخبارات تلی ہوئی مچھلی اور پکوڑے لپیٹنے کے لیے اچھے ہوتے ہیں (پلاسٹک کے شاپنگ بیگ سے کہیں بہتر)، لیکن نئے نیوز پرنٹ کا ایک اپنا مصرف ہوتا ہے۔ آپ اسے بہت سے اہم کاموں میں استعمال کر سکتے ہیں، تو اسے بے کار اور غیر اہم محنت کی نذر کیوںکیا جائے؟
ہمارے دوست حسین حقانی بھی اب ایّام رفتہ کی ایک بھولی بسری داستان ہیں۔ ہم سب خود کو نمایاں کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، اس میںکوئی بری بات نہیں، تو اسی طرح حسین حقانی بھی راکھ کریدتے ہوئے کچھ شعلگی کا اہتمام کرتے رہتے ہیں۔ یقینا اُنھوں نے بہت سی کامیابیاں سمیٹیں، آگے بڑھنے کے لیے ہر ممکن سہارا تلاش کیا، بلکہ اُن کی اس ضمن میں ذہانت اور کاوش کی داد بنتی ہے۔ موصوف جنرل ضیا سے لے کر نواز شریف، اور بے نظیر بھٹو سے لے کر آصف زرداری تک، سب کے ساتھ یکساں لگن کے ساتھ چلتے دکھائی دیے۔ اور تو اور، وہ نگران وزیر اعظم، غلام مصطفی جتوئی کے بھی مشیر بن گئے۔ اتنے ہنر اور جوہر دکھانا کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔
اُنھوں نے مشرف دور میں بھی کوئی عہدہ تلاش کرنے کی تگ و دو کی لیکن ناکام رہے؛ تاہم آصف زرداری نے اُنہیں واشنگٹن میں سفیر مقرر کر دیا۔ اپنی چال باز فطرت کے سامنے بند باندھنے سے قاصر حقانی نے پٹاری سے میمو گیٹ نکال لیا، جس نے فوج کو تائو دلا دیا۔ اس سے لگنے والے دھکے نے اُنہیں حال سے نکال کر ماضی کے جھروکوں میں دھکیل دیا۔ لیکن اُنہیں نظر انداز کرنے، جس کے وہ مستحق ہیں، کی بجائے ہر طرف سے مختلف آوازیں سنائی دے رہی ہیں کہ اُنہیں تحقیقات کے لیے طلب کیا جائے کیونکہ اُن کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے اُن امریکی افسروں کو پاکستان آنے کی سہولت فراہم کی‘ جنہوں نے اسامہ بن لادن کا سراغ لگایا۔ اسامہ بن لادن بھی اب ماضی کا قصہ ہے، ہم اُن پر وقت کی گرد کیوں نہیں پڑنے دیتے؟ اُن کی ہلاکت نے پاکستان کا نام روشن نہیں کیا تھا۔ شیخ صاحب کی پاکستان میں موجودگی سے پر یشان کن سوالات اٹھے تھے کہ کیا ہم اُس کی موجودگی سے واقف تھے یا نہیں؟ کیا ہم نااہل تھے یا چشم پوش؟ دونوں صورتوں میں ہماری کوئی عزت افزائی نہیں ہوتی۔ اس پر ہم نے حسبِ معمول کمیشن بنایا‘ جس نے اس معاملے کی تحقیقات کیں، اور پھر حسبِ معمول اس کمیشن کی رپورٹ کو سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔ 
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد صدیقی نے توہین آمیز مواد پر ایک حکم نامہ جاری کرتے ہوئے اس مواد کو بلاک کرنے کا کہا ہے۔ جذباتی افراد کے لیے یہ ایک قابلِ تحسین اقدام ہے، اور اُنھوں نے جج صاحب کے اس اقدام کو سراہا ہے؛ تاہم اس معاملے میں ایک چیز میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ سائبر سپیس میں دنیا کی ہر چیز موجود ہے۔ ان میں اچھی چیزیں بھی ہیں اور بری بھی۔ وہاں فحش مواد، حتیٰ کہ بچوں کی فحش فلمیں، بھی موجود ہیں جو انتہائی قابل نفرت ہیں۔ ہر قسم کے جنسی مواد سے بھری ہوئی ویب سائٹس موجود ہیں۔ اس کے علاوہ کئی مذاہب کے بارے میں قابلِ اعتراض چیزیں موجود ہیں۔ لیکن وہاں بہت اچھی چیزیں بھی ہیں، جیسا کہ کتابیں، شاعری، فن، ادب اور موسیقی کا اتنا بڑا ذخیرہ کہ عمر تمام ہو جائے، انسان پورا سن نہ سکے۔ جب اتنے گوہر پارے سامنے ہوں تو کوئی پاگل ہی سنگریزے اٹھائے گا۔ اتنی خوبصورت چیزوں کو چھوڑ کر کوئی توہین آمیز مواد کو کیوں تلاش کرے گا؟
ویب کسی کو کچھ دیکھنے پر مجبور نہیں کرتا۔ ہاں، اشتہارات کی بھرمار ہو سکتی ہے لیکن ایسی کوئی چیز نہیں جو آپ کو کوئی مواد دیکھنے یا سننے پر مجبور کر سکے۔ آپ اپنی مرضی سے ہی ایسی ویب سائٹس پر جاتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی صحیح العقل شخص کسی ایسی ویب سائٹس پر جائے گا جس پر توہین آمیز مواد ہو۔ پارسائی کا دعویٰ نہیں لیکن میرے دل میں کبھی کسی فحش یا توہین آمیز مواد رکھنے والی ویب سائٹ پر جانے کی خواہش پیدا نہیں ہوئی۔ ہاں، میں نے ہٹلر کی تقریریں دیکھی ہیں، سٹالن کی ریڈ اسکوائر پر تقریر کئی مرتبہ سنی ہے جو اُنھوں نے اس وقت کی تھی جب جرمن فورسز ماسکو کے دروازے پر کھڑی تھیں، لیکن نفرت انگیز مواد رکھنے والی ویب سائٹس کے تصور سے ہی طبیعت مکدّر ہونے لگتی ہے؛ چنانچہ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کوئی بھی صحت مند سوچ رکھنے والا شخص کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر ان قابل اعتراض سائٹس پر کیوں جائے گا؟ جب میں کسی چیٹ روم یا ڈیٹنگ سائٹ پر جاتا ہوں تو مقصد واضح ہوتا ہے، میں کسی سے رابطہ کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے ہم خیال افراد کی تلاش ہوتی ہے‘ لیکن میں کسی مذہب کے بارے میں نفرت انگیز مواد رکھنے والی ویب سائٹ پر کیوں جائوں گا؟ ایسا کرتے ہوئے میں اپنا وقت ضائع کیوں کروں؟
یہ بھی درست ہے کہ ایسا مواد نیٹ پر موجود نہیں ہونا چاہیے تھا‘ لیکن پھر وہاں اور بھی بہت کچھ نہیں ہونا چاہیے؛ تاہم جیسا کہ میں نے کہا، سائبر سپیس پر پوری دنیا، بلکہ انسانی ذہانت سے تخلیق کردہ ایک کائنات آباد ہے۔ میں جنس اور جذبات کو سمجھتا ہوں، لیکن توہین آمیز مواد کی نہ مجھے سمجھ ہے اور نہ ہی کوئی سروکار۔ تو پھر کسی کو اسے تلاش کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ چنانچہ میرے خیال میں محترم جج صاحب کو اس کیس میں درخواست گزار سے سب سے پہلے یہ پوچھنا چاہیے تھا کہ اُسے کس چیز نے نفرت انگیز مواد رکھنے والی ویب سائٹس پر جانے کے لیے مجبور کیا؟ یہ سوال پوچھا جانا چاہیے تھا۔ ہمیں وہ وقت یاد ہے جب کیلی فورنیا کے کسی نجی سٹوڈیو میں بنائی گئی تیسرے درجے کی ایک گھٹیا فلم میں توہین کا مواد سامنے آنے پر مسلم ممالک میں فسادات پھوٹ پڑے۔ وہ ایک ایسی فلم تھی جس پر معمول کے حالات میں کوئی توجہ بھی نہ دیتا لیکن دنیائے اسلام کے اشتعال نے اسے اتنی تشہیر دے دی کہ ہالی ووڈ کی پوری انڈسٹری مل کر وہ مقصد حاصل نہیں کر سکتی تھی۔ اسلام آباد میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے اور راجہ پرویز اشرف کی حکومت نے یوٹیوب پر پابندی لگا دی، جو کئی سال تک برقرار رہی۔ اس کے بعد نواز شریف حکومت نے خاموشی سے اس پابندی کو ختم کیا تو لاکھوں افراد نے سکون کا سانس لیا کیونکہ وہ یوٹیوب پر موجود معلومات، علم کے خزانے اور تفریحی مواد سے محروم تھے۔ 
کیا گندگی ہمیں زچ کرتی ہے؟ کیا عوام کو لاحق غربت، بھوک، افلاس اور بیماری سے ہماری رات کی نیند حرام ہوتی ہے؟ ہمیں تو بتایا گیا تھا کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ ہمارے پاس اسلام آباد کے ہر کونے میں مساجد موجود ہیں، الحمدﷲ، لیکن ہم یہاں کوڑے کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کا کوئی نظام بنانے میں کیوں ناکام ہیں؟ دیگر شہروں میں بھی یہی صورتِ حال ہے۔ کیا اسلام عدل اور سماجی انصاف کا نام نہیں؟ تو کیا کوئی یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں یہ قدریں پائی جاتی ہیں؟ دراصل ہم صرف سایوں کے پیچھے بھاگنے اور دکھاوا کرنے والی قوم ہیں۔ ہم ان کی اصل روح تک اتر کر کیوں نہیں دیکھتے؟ ہم اسلام کے بارے میں نہایت فصیح و بلیغ تقریریں کرتے ہیں، رسومات ادا کرتے ہیں، لیکن ایمان کی اصل روح کہاں ہے؟ اسلام کوئی رہبانیت یا جائے فرار نہیں، دیگر عقائد کے برعکس یہ پہلے اس دنیا کے معاملات درست کرنے اور پھر اُخروی نجات کی بات کرتا ہے۔ پہلے دنیا میں منصفانہ معاشرے کا قیام عمل میں آئے گا، پھر آسمانی جنت ملے گی۔ 
دیگر عقائد کے برعکس اسلام میں روحانی اور دنیاوی معاملات کی کوئی تقسیم نہیں۔ یہ ایک دین ہے، جو روحانی اقدار کو دنیاوی امور کے ساتھ ہم آہنگ کرتا ہے۔ یہ دنیاوی معاملات کو احکامِ الٰہی کے مطابق ڈھالنے کی تلقین کرتا ہے؛ چنانچہ جب ہم اسے محض رسومات تک محدود کر لیتے ہیں تو ہم اس کی اس سے زیادہ بے قدری نہیں کر سکتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved