تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     18-03-2017

ہمارے رشتے....(1)

بیوی
ٹی وی کی ہم قافیہ ہے‘ اس لیے ہر وقت آن رہتی ہے۔ ایک عورت نے اپنے خاوند کے خلاف طلاق کا دعویٰ کر دیا اور اس میں لکھا کہ ہماری شادی کو پانچ سال ہو گئے ہیں لیکن میرے خاوند نے آج تک مجھ سے بات نہیں کی۔ عدالت نے خاوند کو طلب کیا اور اس سے پوچھا کہ تمہاری بیوی نے تمہارے خلاف جو الزام لگایا ہے کیا یہ صحیح ہے؟ تو خاوند بولا۔'جی ہاں‘بالکل صحیح ہے‘‘'اس کی وجہ؟‘‘جج نے پوچھا۔''جناب یہ کبھی بولنا بند کرتی تو میں اس سے بات کرتا‘‘ خاوند نے جواب دیا۔
خاوند بیوی سے محبت کرتا ہے اور بیوی اس پر رُعب جھاڑتی ہے کیونکہ اُس کا طرزِ محبت یہی ہے۔
ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہوتی ہے اور بیوی کے قدموں کے نیچے اس کا میاں۔ تاہم‘ بچوں کی وساطت سے والد صاحب بھی تھوڑا بہت جنت کا مزہ لے سکتے ہیں۔ بیویاں بیشک بولتی بہت ہیں لیکن واضح رہے کہ ان کے بارے میں جُملہ لطیفے چھڑوں نے بنا رکھے ہیں‘ ایک شادی شدہ مرد یہ جرأت کیونکر کر سکتا ہے۔ منقول ہے کہ ایک صاحب کو رات کو نیند نہیں آتی تھی۔ ان کی بیوی ایک دن اُنہیں ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔ بیوی نے اس کی شکایت کا تذکرہ اس قدر طوالت سے کیا کہ ڈاکٹر بھی سٹپٹا اُٹھا۔ آخر اس نے انہیں ایک گولی دی اور کہا کہ رات کو سونے سے پہلے کھانی ہے، بیوی نے پوچھا ڈاکٹر صاحب گولی انہیں کس چیز کے ساتھ کھلائوں؟ تو ڈاکٹر بولا‘
''گولی انہوں نے نہیں آپ نے کھانی ہے تاکہ وہ آرام سے سو سکیں!‘‘
بیوی کے ساتھ میاں کی محبت مثالی ہے کیونکہ اُسے اپنی جان اور عزت مطلوب رہتی ہے۔ تاہم کسی نابکار چھڑے کے بقول بیوی بیمار پڑ گئی اور جب بہت لاچار ہو گئی تو اپنے خاوند سے بولی‘
''میں یہ سوچتی ہوں کہ اگر میں مر گئی تو تمہارا کیا بنے گا‘‘
''اور میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر تم نہ مریں تو پھر میرا کیا بنے گا‘‘ خاوند نے جواب دیا۔ زندگی میں تو بیوی خاوند کا سرمایۂ حیات ہوتی ہی ہے، بیوی کے مرنے کے بعد اُسے پتا چلتا ہے کہ کس بھائو بکتی ہے۔ یہ اندوہناک صورت حال اس طرح بیان کی گئی ہے کہ ایک شخص کی بیوی کا انتقال ہو گیا۔ جب اُسے قبرستان کی طرف لے جا رہے تھے تو اس کی چار پائی گلی کی نکڑ میں لگے کھمبے سے ٹکرائی اور وہ اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ کچھ عرصے کے بعد وہ پھر فوت ہو گئی۔ جب اس کا جنازہ لے جا رہے تھے اور گلی کی نکڑ پر پہنچے ہی تھے کہ خاوند بآواز بلند پُکارا۔''کھمبے سے ذرا بچا کے!‘‘
بیوی روٹھ جائے تو اسے میاں مناتا ہے لیکن میاں روٹھ جائے تو بیوی اطمینان کا سانس لیتی ہے۔ میاں بیوی کا جھگڑا بھی مشہور ہے حالانکہ اسے بیوی میاں کا جھگڑا کہنا چاہیے۔ تاہم قصور اکثر اوقات میاں ہی کا ہوتا ہے اور میاں کی مظلومیت کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک عورت سے اس کی سہیلی نے پوچھا کہ تم ہر روز شاپنگ کرتی نظر آتی ہو‘ تمہارے پاس اتنے پیسے کہاں سے آ جاتے ہیں تو خاتون نے جواب دیا‘''ہم دونوں میں اکثر لڑائی جھگڑا رہتا ہے اور جب بھی ایسا ہوتا ہے تو میں کہتی ہوں کہ میں اپنی ماں کے پاس جا رہی ہوں۔ مجھے کرایہ دو۔ وہ کرایہ دے دیتا ہے لیکن میں جاتی 
نہیں اور اس طرح میرے پاس پیسے جمع ہوتے رہتے ہیں!‘‘
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے‘ ہر جھگڑے میں قصور میاں ہی کا ہوتا ہے اور اگر اس دوران کوئی نقصان وغیرہ ہو جائے تو اس کا ذمہ دار بھی میاں ہی ٹھہرتا ہے۔ اسی طرح میاں بیوی میں جب لڑائی اپنے عروج کو پہنچی تو بیوی نے میاں کی طرف اپنا سینڈل چلایا۔ میاں تو سینڈل آتے دیکھ کر نیچے بیٹھ گیا اور سینڈل سیدھا کھڑکی میں جا کر لگا۔ اور اس کا شیشہ ٹوٹ گیا۔ اب میاں کو موقع مل گیا اور وہ بولا‘''شیشہ ٹوٹنے کی ذمہ دار تم ہو!‘‘'تم ہو‘‘ میاں بولے۔''اگر تم بیٹھ نہ جاتے تو سینڈل کبھی کھڑکی کو نہ جا لگتا‘ اس لیے اس کے ذمے دار تم ہو‘ ظاہر ہے کہ میاں لاجواب ہو کر چُپ ہو گیا۔
اگرچہ ہمارے علم میں کئی واقعات ایسے بھی ہیں جہاں ایسے نقصان کی ذمہ دار سراسر بیوی ہوتی ہے‘ جو ہم پھر کسی نشست میں عرض کریں گے۔
فی الحال تو کسی چھڑے کا بیان کردہ یہ واقعہ ہمیں یاد آ رہا ہے کہ ایک شخص کہیں جا رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ ایک جنازہ جا رہا ہے اور سب لوگوں نے قطار باندھی ہوئی ہے اور ساتھ ہی ایک کتا جا رہا ہے جس کے گلے میں پھولوں کے ہار ہیں۔ اس شخص نے جنازے میں شامل ایک آدمی سے پوچھا کہ یہ کس کا جنازہ ہے‘ تو اسے بتایا کہ جو آدمی سب سے آگے جا رہا ہے جنازہ اس کی بیوی کا ہے۔
''اس کی بیوی کا انتقال کیسے ہوا؟‘‘ اس نے پوچھا۔''اس کی وفات کُتے کے کاٹنے سے ہوئی‘‘ اسے بتایا گیا۔''اور یہ کتا اور اس کے گلے میں ہار؟‘‘ اس نے پھر پوچھا،''یہی وہ کتا ہے جس کے کاٹنے سے وہ مری تھی‘‘ اسے بتایا گیا'توکیا یہ کتا ایک دن کے لیے مجھے نہیں مل سکتا؟‘‘ اس نے سوال کیا ۔''مل سکتا ہے‘‘ اسے بتایا گیا‘‘ لیکن یہ جو لمبی قطار تم دیکھ رہے ہو یہ اس کتے کے امیدواروں ہی کی ہے ۔ ان سے فارغ ہو گا تو تم لے جانا‘‘۔
بیوی کہیں کھو جائے تو میاں پر کیا گزرتی ہے‘ اس کا اندازہ شاید زیادہ لوگوں کو نہ ہو ۔ منقول ہے کہ میاں بیوی شاپنگ کرنے کے لیے نکلے تو بازار میں بھیڑ اتنی تھی کہ اس کی بیوی نظروں سے اوجھل ہو گئی ۔ وہ کافی دیر اسے تلاش کرتا رہا لیکن بے سود۔ اتنے میں اسے ایک شناسا نظر آیا تو اس نے پوچھا کہ کدھر پھر رہے ہو؟ اس نے اسے بتایا کہ میں اور میری بیوی شاپنگ کے لیے آئے تھے لیکن میری بیوی کہیں کھو گئی ہے‘ اس نے بتایا کہ میری بیوی بھی کہیں کھو گئی ہے اور میں بھی اسے ڈھونڈ رہا ہوں۔ اس کے شناسا نے پوچھا‘
''تمہاری بیوی کا حلیہ کیا ہے؟‘‘
''سیاہ رنگ کی بھدّی سی اورٹھگنی ہے‘ اور تمہاری بیوی؟‘‘
''اس کا تو رنگ سفید و سُرخ ہے‘ دراز قد اور اتنہائی خوبصورت ‘‘ اس پر اس شخص نے کہا ''میری بیوی پر لعنت بھیجو‘ 
''چلو دونوں مل کے تمہاری بیوی کو ہی ڈھونڈتے ہیں‘‘
آج کا مطلع
بندھی ہے بھینس کھونٹے سے نہ کوئی گائے رکھتے ہیں
مگر ہم دودھ کے بارے میں اپنی رائے رکھتے ہیں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved