کم از کم میں یہ عہدہ نہیں چاہتا۔ میں نے اپنے ذہن میں اُن عہدوںکی فہرست بنائی ہوئی ہے جو مجھے انتہائی ناپسند ہیں، اور ان میں پاکستانی وزیر ِاعظم، یا کسی طاقتور آمر کا منصب سر ِ فہرست ہے ۔ذرا سوچیں، دو سو ملین کی آبادی کا ایک ملک جہالت اور غربت کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے ، اس کے انفراسٹرکچر پر شدید دبائو ہے ، ہمیں داخلی اور خارجی مسائل نے گھیرا ہوا ہے (جو زیادہ تر ہمارے اپنے ہی پیدا کردہ ہیں)اور ہم اپنی پہچان پاکستانی کی بجائے نسلی اور مسلکی شناختوں سے زیادہ کراتے ہیں۔ تو پھر اس ملک کو کون چلانا چاہے گا؟ہوسکتا ہے کہ بہت سے لوگ اس عہدے کے امیدوار ہوں، لیکن اپنے ذہنی سکون کو ترجیح دینے والا اس عہدے سے دور ہی رہنا چاہے گا۔
جیسا کہ ہمارے ہاں پائی جانے والی عصبیت اور تقسیم کی لکیر پہلے کچھ کم گہری تھی، عوامی نیشنل پارٹی کے لیڈر، اسفند یار ولی خان نے وزیر ِاعلیٰ پنجاب کو خط لکھتے ہوئے پنجاب میں رہنے والے پختونوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کی شکایت کی ہے ۔سندھ، پنجاب اور اسلام آباد میں پختونوں کی نسلی بنیادوں پر جانچ پڑتال حالیہ خود کش حملوں، جنہوں نے ملک کو ہلا کررکھ دیا، کے بعد کی گئی۔ مختلف اداروں کے مطابق ان حملوں میں پاکستان اور افغان نسل کے پختون ملوث تھے ، جبکہ افغانستان میں موجود انتہا پسند تنظیم ، جماعت الحرار نے اس کی ذمہ داری قبول کی۔ ان حملوں کے جواب میں پاکستان نے افغان سرحد بند کردی اور کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں مقیم پختونوں کی رہائشی کالونیوں کی تلاشی شروع کردی ۔ اس سے پہلے 2014ء میں آرمی پبلک سکول پر خوفناک حملے کے بعد بہت سے پختونوں کو ملک سے نکال دیا گیا۔
کچھ عرصہ خاموش رہنے کے بعد اب ایک بار پھر قوتیں متحرک ہورہی ہیں۔ اُنہیں کافی تاخیر کے بعد ہونے والی مردم شماری کے نتائج سے خطرہ محسوس ہورہا ہے۔ ان کے خدشات کی وجہ یہ ہے کہ 2017 کی موجودہ مردم شماری آبادی کے خدوخال کے بہت سے مفروضوں کو الٹ کررکھ سکتی ہے ۔ اس کے مضمرات کا ذرا سندھ کے حوالے سے جائزہ لیں۔ 1981ء اور 1998ء کے درمیان صوبے میں اردوبولنے والے افراد کی آبادی 24 فیصد سے کم ہوکر 21 فیصد رہ گئی ، جبکہ سندھی بولنے والے افراد 55.7 سے بڑھ کر 59 فیصد ہوگئے ۔ گزشتہ انیس برسوں کے دوران بہت سے پختونوں، پنجابیوں اور بلوچوں نے روزگار اور سکیورٹی کی وجہ سے سندھ کے شہری علاقے کی طرف ہجرت کی ہے ۔اس ہجرت اور اردو بولنے والے مہاجر گروہوں میں شرح پیدائش کم ہونے کی وجہ سے ایم کی ایم کی پارلیمانی نشستوں کی تعداد کم ہوتی جائے گی جس سے صوبے کے سیاسی خدوخال تبدیل ہوجائیں گے ۔ بلوچستان کے شمالی حصوں میں افغانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے ۔ ان میں سے بہت سوں نے پاکستانی شناختی کارڈ حاصل کرلیے ہیں، اس طرح وہ بھی دیگر شہریوں کی طرف اس مردم شمار میںگنے جائیں گے ۔ اس صورت ِحال نے بلوچوں کے کان کھڑے کردیے ہیںکیونکہ آبادی کے نئے اعدادوشمار صوبے کے انتخابی نقشے کو تبدیل کرسکتے ہیں۔
ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہونے کے باوجود پنجاب کے پا س بھی مردم شمار ی کے نتائج سے فکر مند رہنے کی ضرورت ہے ۔ شہروں میں آ بادہونے کا فزوں تر رجحان دیہی علاقوں کی نشستوں کو کم کرتے ہوئے جاگیردار خاندانوں کا زور توڑسکتا ہے ۔ اسی طرح چھوٹے صوبوں شرح پیدائش میں اضافہ پنجاب سے سول سروسز اور وسائل پر اختیار کو چھین سکتا ہے ۔ جنوبی پنجاب سے آنے والے نتائج ہوسکتا ہے کہ ایک بار پھر سرائیکی صوبے کی آواز کو توانا کردیں۔ اس طرح یہ مردم شماری وسائل مختص کرنے کے فارمولے کے علاوہ پارلیمانی نشستوں کی تعداد پر بھی اثر انداز ہوسکتی ہے ۔ اور ہم جانتے ہیں کہ جب رقم اور اختیار کا معاملہ ہو تو کوئی بھی خندہ پیشانی سے شکست تسلیم نہیں کرتا۔ پہلے ہی بلوچستان نے افغانوں کی واپسی تک مردم شماری ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ لیکن اگر ہم اس کا (افغانوں کی واپسی )انتظار کرتے رہیں تو ہوسکتا ہے کہ اگلی صدی تک مردم شماری نہ ہوسکے ۔ روایتی طور پر بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں افغانوں کی ہمیشہ سے ہی بھاری موجودگی رہی ہے اور نائن الیون کے بعداس میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔
زیادہ تر ممالک میں مردم شماری انتظامیہ کی ایک معمول کی سرگرمی ہوتی ہے اوراسے باقاعدگی سے انجام دیا جاتا ہے ۔ تاہم پاکستان میں اسے طاقتور حلقوں کے مخصوص مفادات کو آگے بڑھانے کی سرگرمی کے طور پر دیکھا جاتا ہے ، خاص طور پر اُن کی طرف سے جو اس کے نتائج سے متاثر ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ اس عمل کے لیے فوج کی مدد طلب کی گئی ہے ۔ ایم کیو ایم کی طرف سے اس سرگرمی کو اس کی طاقت کم کرنے کے ایک حربے کے طور پر دیکھا جارہا ہے ، تو بلوچ خود کو اپنے ہی صوبے میں ایک اقلیت بنائے جانے کے منصوبے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ جاگیر دار طبقہ اس کے نتیجے میں اپنی روایتی طاقت چھنتے دیکھ رہا ہے ۔ ان تحفظات کے ہوتے ہوئے ہم اس کے نتائج پر شوروغل دیکھیںگے ۔ جو سیاست دان انتخابی نتائج تک کو تسلیم نہیں کرتے ، وہ مردم شماری کے نتائج کس طرح تسلیم کریں گے ؟ یہی وجہ ہے کہ میں پاکستان کا وزیر ِاعظم بننا پسند نہیں کرتا۔