تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     19-03-2017

پاکستان کا جنگل

حکومتِ پاکستان نے اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات شائع کرائے ہیں جن میں عوام الناس، میڈیا ہائوسز اور سوشل میڈیا صارفین کی توجہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین مجریہ 1973ء کی شق19 کی طرف دلائی گئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ہر شہری کو اہم بنیادی حقوق حاصل ہیں جن میں نمایاں آزادیٔ اظہار رائے کا حق ہے، لیکن یہ حق غیر مشروط نہیں۔ شق19، نے اس کی حدود متعین کر رکھی ہیں۔ اس کے مطابق ''یہ آزادی اسلام کی عظمت، یا پاکستان یا اس کے کسی حصے کی سالمیت یا سلامتی، دفاع، غیر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات یا امنِ عامہ، تہذیب یا اخلاقیات کے مفاد کے پیش نظر یا توہینِ عدالت کے کسی جرم (کے ارتکاب) یا اس کی ترغیب سے متعلق قانون کے ذریعے عائد کردہ مناسب پابندیوں کے تابع ہو گی‘‘۔ اس کے ساتھ ہی یاد دلایا گیا ہے کہ آئین پاکستان کی مقرر کردہ حدود کو توڑنا پاکستان کے متعدد قوانین کے تحت جرم ہے۔ یہ اطلاع بھی دی گئی ہے کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ109 کے تحت کسی جرم میں اعانت کرنے کی سزا بھی وہی ہے، جو جرم کی ہے۔ گویا، اگر کوئی شخص کسی ذریعہ ابلاغ کو استعمال کرتے ہوئے ایسے الفاظ نشر (یا تحریر) کرتا ہے جو بغاوت پر اُکسا رہے ہوں تو اس کی مدد کرنے والے تمام حضرات و خواتین بھی اسی سزا کے مستحق قرار پائیں گے، یعنی عمر قید اور جرمانے کے مستحق۔ قانون کی ایک دفعہ ذرائع ابلاغ کے ذمہ داروں کو اس معاملے میں یوں تحفظ فراہم کرتی ہے کہ اگر کوئی ایسے الفاظ کسی بیان یا تبصرے میں شامل ہوں، جن سے قانون شکنی ٹپکتی ہو، اور وہ روزمرہ یا معمول کے مطابق شائع یا نشر ہو جائیں تو اولین فرصت میں ان کی (متعلقہ فریق کی طرف سے) تردید یا وضاحت بھی اسی طرح اپنے قارئین یا ناظرین تک پہنچا دی جائے جس طرح کہ مذکورہ الزام پہنچایا گیا تھا۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو پھر پبلشر/ ایڈیٹر/ منتظم/ مالک بھی برابر کا مجرم ٹھہرایا جائے گا۔
حکومتی اشتہار کے مطابق اظہارِ رائے کی آزادی کے حوالے سے سرزد ہونے والے جرائم کی تفصیل اس طرح ہے۔
٭ ... دفعہ124۔ اے بغاوت (سزا عمر قید اور جرمانہ)
٭...دفعہ153-A مختلف گروہوں کے مابین منافرت پھیلانا، (پانچ سال تک قید اور جرمانہ)
٭... دفعہ295 اے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے والے بدخواہی پر مبنی اعمال (دس سال تک قید یا جرمانہ یا دونوں)
٭... دفعہ295۔ بی اور سی: قرآن پاک، انبیائے کرام/ مقدس ہستیوں کے خلاف توہین آمیز اور گستاخانہ الفاظ (عمر قید یا سزائے موت اور جرمانہ)
٭...دفعہ298 اور 198اے اور بی۔ جذبات مجروح کرنے کی نیت سے مقدس ہستیوں کی توہین و تضحیک۔
٭... دفعہ 500، 501، 504 اور 506 گستاخانہ مواد اور انتشار پھیلانا (دو سے پانچ سال تک قید اور جرمانہ یا دونوں) اس پر دفعہ11۔ ڈبلیو، انسداد دہشت گردی ایکٹ مجریہ1952ء اور سکیورٹی آف پاکستان ایکٹ مجریہ1952ء کی دفعہ11، اور 13 کا اطلاق بھی ہو سکتا ہے۔
آخر میں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تادیبی کارروائی کے دوسرے قوانین بھی موجود ہیں، ان کے تحت قید اور جرمانے کی مزید سزائیں بھی دی جا سکتی ہیں‘ لیکن اِس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ توہین کے خلاف سول عدالت میں بھی کارروائی ہو سکتی ہے۔ کوئی شخص یا ادارہ خود کو پہنچنے والے مالی نقصان کے ازالے کے لیے مقدمہ دائر کر سکتا ہے، یعنی ازالے کے لیے ہرجانہ بھی طلب کر سکتا ہے۔
مذکورہ بالا تفصیل پر ایک نظر ڈالیے اور پھر اردگرد نظر دوڑایے تو آپ بآسانی اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ اگر ان قوانین میں سے دو یا تین ہی پر عمل کیا جائے تو ہزاروں افراد جو دندناتے پھرتے نظر آتے ہیں، جیل خانوں کو آباد کر دیں گے۔ ان کی جگہ اخبار، ٹی وی، فیس بُک، ٹویٹر یا خبر کے بجائے قید خانہ قرار پائے گا۔ لیکن ہم دُنیا میں اس لحاظ سے منفرد قوم ہیں کہ یہاں قوانین عمل درآمد کے لیے نہیں، کتاب قانون میں بند کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔
ایک اخبار نویس کے طور پر (میری) عمر کا بڑا حصہ آزادیٔ اظہار کی لڑائی لڑتے گُزرا ہے۔ اس راستے میں قید و بند کی صعوبتیں اٹھائی ہیں، اور مالی نقصانات بھی برداشت کیے ہیں۔ مختلف نظریات و خیالات کے اَن گنت اہلِ قلم اس کارواں میں شامل رہے ہیں۔ ان میں ایڈیٹر اور پبلشر بھی شامل تھے، اور اخباری کارکن بھی۔ ان سب کی خدمات کا احاطہ کسی ایک کالم میں نہیں کیا جا سکتا، اس کے لئے شاید ایک نہیں کئی کتابیں درکار ہوں۔ پاکستان میں آج جو آزادی میسر ہے وہ کسی حکمران کی طرف سے پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیںکی گئی، یہ خون اور پسینے سے حاصل کی گئی ہے۔ اس ساری جدوجہد کے دوران کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا گیا کہ لکھنے اور بولنے والوں کو مادر پدر آزادی حاصل ہونی چاہئے۔ اپنے کپڑے اتارنے یا دوسروں کے کپڑے نوچنے کا نام آزادیٔ اظہار نہیں ہے۔ پاکستان تو کوئی عام مملکت بھی نہیں۔ یہ اسلامی جمہوریہ ہے، لیکن بدقسمتی سے غیر ملکی حکمرانوں کی رخصتی کے بعد یہاں وہ معمول کی جمہوری اقدار قائم نہیں رکھی جا سکیں، جو ہر جمہوریت کا خاصہ ہوتی ہیں۔ یہاں دستوری نظام کو بار بار تہہ و بالا کیا گیا، اور ہم وطنوں کی زبانوں پر تالے لگانے کو حب الوطنی کی معراج سمجھ لیا گیا۔ وہ لوگ اقتدار پر قابض ہوتے رہے، جنہیں اس کا کوئی قانونی (یا اخلاقی) حق حاصل نہیں تھا۔ پاکستان کی اجتماعی ذہانت نے اجتماعی زندگی کی تشکیل جن اصولوں پر کرنے کا فیصلہ کیا تھا، اُسے ایک مخصوص طبقے نے چیلنج کیا، نتیجتاً ایسی ''خانہ جنگی‘‘ کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں توازن اور تعقل کو شدید صدمہ پہنچ گیا۔ یہ آج جو عزیزم حسین حقانی امریکہ میں اپنے کارنامے بیان کر رہے ہیں، اور پاکستان کے منتخب حکمرانوں کو چوری چھپے وہ کچھ کرنے کا مرتکب گردان رہے ہیں، جو اہلِ طاقت کو مطلوب نہیںتھے، تو یہ سب دستوری زندگی کے تہہ و بالا ہونے ہی کا نتیجہ ہے۔ پاکستان میں اگر اختیارات کی آئینی تقسیم کو سبوتاژ نہ کیا جاتا رہا ہوتا، اور ہر طبقہ اپنے اپنے حصے کا کام کر رہا ہوتا تو خارجہ دبائو کے ذریعے داخلی نظم و نسق کو ہموار کرنے کی ضرورت کسی سر میں کیوں سماتی؟ پاکستان کے اندر آج جو الزام و دشنام کا بازار گرم ہے، اور میڈیا کے مختلف عناصر پُرزور اور پُرشور ہو گئے ہیں، لفظوں کے چنائو کا سلیقہ بھول بیٹھے ہیں، اور اہلِ سیاست ایک دوسرے سے جس طرح نبرد آزما ہو رہے ہیں‘ اس سب کے پیچھے ہماری تاریخ کے وہ اقدامات ہیں، جنہوں نے پاکستان کو ایک منظم اور مربوط معاشرے سے زیادہ ایک جنگل بنا دیا ہے۔
پاکستان کی عدالتیں ازالہ ٔ حیثیتِ عرفی کے مقدمات کو اہمیت نہیں دیتیں۔ گزشتہ 70 برس میں ایسے بہت کم مقدمے فیصلہ ہوئے ہیں۔ نہ صرف پگڑیاں، بلکہ کیچڑ اچھالنے والوں کو بھی عملی چھوٹ ملی رہی ہے۔ نتیجتاً آج حکومتِ پاکستان کو اشتہارات کے ذریعے مختلف قوانین کی موجودگی کا احساس دِلانا پڑ رہا ہے۔ کئی احباب اِس میں خطرے کی بُو سونگھ رہے ہیں، لیکن انتظامیہ اس قدر کمزور اور عدالتی نظام اِس قدر غیر موثر ہو چکا ہے کہ اب یہاں قلم اور زبان پر پہروں سے زیادہ سماج کے زیر و زبر ہونے کا شدید خطرہ لاحق ہو رہا ہے۔ تمام ریاستی اداروں... بشمول عدلیہ اور فوج... کو اس صورتِ حال کا ادراک کرنا ہو گا، آئین کا تحکم قائم کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنا پڑے گا کہ جنگل اُگانے اور جنگل بسانے والے جنگل میں منگل منانے کا شوق جاری نہیں رکھ سکتے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved