ایک چیز ہوتی ہے سانسوں کی آمد و رفت۔ یہ فطری عمل ہے۔ ہم چاہیں کہ نہ چاہیں، سانسوں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔ مگر کیا اِس عمل کو ہم زندگی کہہ سکتے ہیں؟ کہنے کو تو کچھ بھی کہا جا سکتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ سانسوں کے ربط کا برقرار رہنا زندگی نہیں۔ زندگی اِس سے بہت آگے کی منزل ہے۔ جب ہم اِس دنیا میں ملنے والے وقت کو دانش مندی سے استعمال کرتے ہوئے کارآمد بنانے کی کوشش کرتے ہیں تب آتی جاتی سانس کو زندگی بننے کا موقع ملتا ہے۔
اور زندگی کے بھی درجے ہیں۔ بہترین درجہ یہ ہے کہ صرف اپنے ہو کر نہ رہ جائیے بلکہ دوسروں کے بھی کام آئیے۔ اور اِس سے بھی ایک قدم آگے ... دوسروں کے لیے وقف ہو کر رہ جائیے۔ غیر معمولی بات یہی ہے۔ ؎
اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اِس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
بھارت کی ریاست اتر پردیش کے ضلع فیض آباد (ایودھیا) کے 80 سالہ محمد شریف نے اپنے افکار و اعمال سے ثابت کیا ہے کہ دوسروں کے لیے بسر کی جانے والی زندگی ہی زندگی ہے۔ 1992ء سے وہ ایک ایسی زندگی بسر کر رہے ہیں جو اُن کی نہیں۔ لوگ زندگی سے موت کی طرف جاتے ہیں وہ موت کی راہ سے ہوتے ہوئے زندگی کی طرف آئے ہیں۔ زندگی سے بے حد پیار کرنے والوں کو اُنہوں نے عملاً یہ دکھایا ہے کہ موت سے پیار کرنا ہی زندگی سے محبت کی حقیقی صورت ہے۔
فروری 1992ء میں محمد شریف نے انسانی مزاج سے بغاوت کی۔ انسانی مزاج کی عمومی خاصیت یہ ہے کہ نا انصافی کا سامنا کرنا پڑے تو چڑچڑا پن پیدا ہوتا ہے، دنیا بُری لگنے لگتی ہے، ناانصافی کرنے والے ہی نہیں بلکہ سب سے نفرت سی ہو جاتی ہے اور جی چاہتا ہے کہ کسی کے ساتھ بھی انصاف نہ ہو! محمد شریف کے معاملے میں جو کچھ ہوا وہ اِس کے برعکس تھا۔
1992ء کے اوائل میں جب ایودھیا کی بابری مسجد کے خلاف اور رام جنم بھومی مندر کے حق میں تحریک جوبن پر تھی تب محمد شریف کا 25 سالہ بیٹا محمد رئیس کیمسٹ کی حیثیت سے ملازمت کے لیے سلطان پور روانہ ہوا۔ ایک ماہ لاپتا رہا اور فروری کے آخر میں ایک تھیلے میں بند اُس کی مسخ، ٹکڑوں میں بٹی ہوئی لاش پولیس کو ملی۔ لاش کو لاوارث قرار دے کر آخری سفر پر روانہ کر دیا گیا۔ پولیس نے محمد رئیس کے شرٹ پر لگے ہوئے لیبل سے درزی کا سراغ لگایا اور پھر درزی کی مدد سے محمد رئیس کے گھر تک پہنچی۔ پولیس نے محمد شریف اور ان کے اہل خانہ کو شرٹ کے ساتھ لاش کی تصویر بھی پہنچائی۔ یہ اس بات کا صداقت نامہ تھا کہ رئیس اب اس دنیا میں نہیں۔
جواں بیٹے کی موت محمد شریف اور ان کے اہل خانہ کے لیے قیامت کی سی گھڑی تھی۔ ایسے میں دل و دماغ میں پتا نہیں کیسے کیسے طوفان امنڈتے ہیں۔ جس کا جوان بیٹا مر مارا جائے وہ بھلا کسی کا بھلا کیوں چاہے؟ محمد شریف کو اللہ نے عقلِ سلیم سے نوازا تھا۔ جوان بیٹے سے ہمیشہ کے لیے بچھڑنے کا صدمہ جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا تھا مگر اللہ نے اعصاب و حواس کو ریزہ ریزہ کر دینے والے صدمے کے پہلو بہ پہلو محمد شریف کو نئی زندگی بھی عطا کی۔ یہ نئی زندگی اُن کی نہیں تھی، لاوارث لاشوں کے لیے تھی۔ محمد شریف نے اپنے بیٹے کی موت کا خندہ پیشانی سے سامنا کرتے ہوئے یہ عہد کیا کہ وہ کسی بھی لاوارث لاش کو کہیں بھی آوارہ جانوروں کے رحم و کرم پر پڑی نہیں رہنے دیں گے۔ تب سے اب تک محمد شریف کی زندگی اُن کے لیے وقف ہے جن کی لاش پر کوئی رونے والا نہ ہو۔
محمد شریف کو فیض آباد کے لوگ ''لاوارث لاشوں والے چاچا‘‘ کہتے ہیں۔ وہ تنگ دستی کے باوجود لاوارث لاشوں کی تدفین یا آخری رسوم میں مصروف رہتے ہیں۔ سنتوش، محمد اسماعیل اور شیام وشو کرما اُن کے مددگار ہیں۔ لاش ہندو کی ہو تو تیار کرکے، کفن میں لپیٹ کر محمد شریف اُسے شمشان بھجواتے ہیں جہاں سنتوش اُسے سپردِ آتش کرتا ہے۔ لاش مسلمان کی ہو تو محمد شریف خود یا پھر اسماعیل اور شیام کی مدد سے قبر کھود کر دفناتے ہیں۔ محمد شریف اور اُن کے رفقاء اب تک ڈھائی ہزار سے زائد لاوارث لاشوں کو متعلقہ مذہبی طریقے کے مطابق آخرت کے سفر پر روانہ کر چکے ہیں۔
فیض آباد فرقہ وارانہ کشیدگی کے لحاظ سے بھارت کا خطرناک ترین ضلع رہا ہے۔ ایسے میں محمد شریف جیسے انسان کا یوں منظر عام پر آنا شہر کے لوگوں کے لیے فخر اور طمانیت کا معاملہ ہے۔ ہندو اور مسلم ان کی مساوی تکریم کرتے ہیں۔ وسائل کی شدید کمی کا سامنا کرنے والے محمد شریف اور ان کے معاونین کو مقامی آبادی عطیات دیتی ہے۔ کسی غیر سرکاری تنظیم یا حکومتی ادارے کو اب تک اُن کی بھرپور معاونت کا خیال نہیں آیا۔ رہے سیاست دان تو اُنہیں آگ لگانے اور لوگوں کو آپس میں لڑوانے سے فرصت نہیں۔
محمد شریف کہتے ہیں کہ ہم تو دلوں کو جوڑنے کی بات کر رہے ہیں مگر پردھان منتری جی تقسیم کرنے کی باتیں کر رہے ہیں! محمد شریف نے اپنی زندگی لاوارث لاشوں کے نام کر دی ہے خواہ اُن کا تعلق کسی بھی مذہب، رنگ یا نسل سے ہو۔ لاوارث لاشوں کو آوارہ جانوروں سے بچانے کے مشن میں وہ اب تک بھرپور کامیابی سے ہم کنار رہے ہیں۔
مگر کیا یہ سفر ایسا ہی آسان ہے جیسا دکھائی دے رہا ہے؟ جی نہیں۔ انسانیت کی ایسی بے لوث خدمت کرنے والے کو بھی اب تک بھرپور صلہ نہیں ملا۔ اُنہیں گھر کا چولھا جلتا رکھنے کے لیے آج بھی سائیکل کی دکان چلانا پڑ رہی ہے! ایک بیٹا بُری عادتوں میں پڑ گیا ہے اور کسی حد تک نفسیاتی مریض بھی ہے۔ وہ موٹر سائیکل میکینک ہے اور ماہانہ پانچ روپے تک کماتا ہے مگر اِس سے گھر نہیں چلتا۔ گھر میں ایک جوان بیٹی ہے مگر محمد شریف کے پاس اتنی رقم نہیں کہ ڈھنگ سے اُس کی شادی کر سکیں۔ دو شادی شدہ بیٹوں نے باپ کی خدمتِ خلق پر ناگواری ظاہر کرتے ہوئے الگ تھلگ رہنے کو ترجیح دی ہے!
محمد شریف چاہتے ہیں کہ قبرستان کے جس کمرے میں وہ لاوارث لاشوں کو غسل دے کر تکفین کرتے ہیں اُس میں چند ایک سہولتیں فراہم کر دی جائیں مگر انتظامیہ ایسا کرنے میں ذرا بھی دلچسپی لیتی دکھائی نہیں دیتی۔ سرکاری اسپتال اور تھانے لاوارث لاشیں محمد شریف کے حوالے کر دیتے ہیں مگر تدفین یا آخری رسوم کے لیے اُنہیں سرکاری سطح پر ایک پیسہ بھی نہیں دیا جاتا۔ وہ سب کچھ اپنے طور پر کرتے ہیں۔ اقلیتی برادری کا ایک فرد اپنی زندگی لاوارث لاشوں کو درست طریقے سے آخرت کے سفر پر روانہ کرنے کا سرکاری فریضہ اپنا فرض سمجھ کر گلے لگا چکا ہے مگر پھر بھی سرکاری اداروں کو اُس کی معاونت کا خیال تک نہیں آتا۔ انہوں نے سیاست دانوں سے بھی اپیل کی ہے کہ قبرستان میں لاوارث لاشوں کے غسل اور تکفین کے لیے مختص کمرے میں روشنی کا بہتر انتظام کر دیا جائے اور پنکھے وغیرہ لگوا دیئے جائیں مگر اب تک کسی کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگی!
خیر، یہ قدرت کے کھیل ہیں۔ وہ جس سے جو کام لینا چاہتی ہے، لے ہی لیتی ہے۔
جامعہ ملیہ، نئی دہلی کے ماس کمیونی کیشن ریسرچ سینٹر کے طالب علم سید علی اختر نے شاہ عالم، غفران خان اور شارق حیدر نقوی کی معاونت سے ''رائزنگ فرام دی ایشز‘‘ کے زیر عنوان محمد شریف پر 17 منٹ کی دستاویزی فلم بنائی ہے۔
محمد شریف کی زندگی میں ہم سب کے لیے بہت بڑا پیغام ہے... یہ کہ اپنے غم بھول کر دوسروں کا درد اپناؤ۔ کسی کی جان بچانا بھی بڑی بات ہے مگر جن کی جان جا چکی ہے اُنہیں ڈھنگ سے آخرت کے سفر پر بھیجنا بھی کوئی گئی گزری خدمت نہیں۔