تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     20-03-2017

پارلیمانی لطیفے

پارلیمنٹ، پارلیمنٹ ہوتی ہے عوام کی خدمت کرے یا اپنے لیڈروں کے غیر آئینی احکامات کو آئینی بنانے کی فیکٹری بن جائے۔ پارلیمنٹ سپریم ہوتی ہے۔ اس لئے وہ پارلیمانی کام کرے یا غیر پارلیمانی حرکتیں اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ پارلیمنٹ جب چاہے کام کرتی ہے۔ جب چاہے بغیر کام کے تنخواہ، ٹی اے، ڈی اے، جہازوں کے مفت ٹکٹس اور مفت کی گاڑیوں میں سیر کے مزے لے لیتی ہے۔ پارلیمنٹ کا اجلاس "کورم " )ارکانِ اسمبلی کی کل تعداد کا 25فی صد( پورا ہونے پر منعقد ہو سکتا ہے۔ جو کبھی پورا نہیں ہوتا۔ اسی لئے وُزراء اعلیٰ اور وزیر اعظم پارلیمنٹ میں جا کر بیٹھنے کی تکلیف نہیں کرتے۔ پارلیمنٹ لطیفہ سازی بھی کرتی ہے۔ ویسے لطیفے تو عدالتوں میں بھی ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر جج اپنے ساتھیوں کو " Learned Brother "My یعنی میرے فاضل بھائی کہہ کر بلاتے ہیں۔ لیکن جب بھی مارشل لاء لگے آدھے فاضل بھائی LFOپر حلف اُٹھا لیتے ہیں جبکہ آدھے فاضل بھائی عہدوں سے محروم ہو کر گھر واپس جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ آپ خود ہی سوچ لیجئے ایسے میں کون کس کے لئے فاضل ہے اور کون کس کا بھائی۔ وکیل ایک دوسرے کو "My Learned Friend"کہہ کر بلایا کرتے تھے۔ یہ اچھے دنوں کی بات ہے۔ اب یہ فاضل دوست ایک دوسرے کی ٹائی پکڑے اور ایک دوسرے کی ٹھکائی لگاتے ویڈیو بنوا لیتے ہیں۔ ٹائی اور ٹھکائی والی پریکٹس فاضل دوستوں تک ہی محدود نہیں رہی۔ بلکہ فاضل برادرز بھی اس سہولت سے آزادانہ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ بھلا ہو سمارٹ فون کا جس نے ہر شہری کو رپورٹر، بلکہ کیمرہ مین بنا دیا ہے۔ پرانے زمانے میںایک وکیل صاحب نے مخالف وکیل کے ہتھوڑا نما دلائل اور مخالفانہ باڈی لینگوئج سے تنگ آکر کہہ دیا میرے فاضل دوست جس طرح کی بحث کرتے ہیں اس پر میں صرف اتنا کہوں گا۔ نہ تو یہ فاضل ہیں، اور نہ ہی میرے دوست۔ پچھلے ہفتے پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن ارکان کو ان کے فاضل دوست جناب سپیکر نے شَٹ اَپ کال پلا دی۔ ممبران نے احتجاج کیا تو اسی فاضل دوست نے اپوزیشن کو میٹھی چائے پلائی اور یہ کہہ کر راضی کر لیا میرے فاضل دوستو " آئی ۔ایم ۔سوری"۔
وفاقی پارلیمنٹ میں بھی کئی لطیفے جنم لے چکے ہیں۔ سب سے پہلا ایم ۔ این ۔اے لطیف صاحب والا" معافی نامہ" جسے جرگے نے قبول کر لیا۔ آپ سوچ رہے ہونگے پارلیمنٹ کے اندر فنکشنل اور سلیکٹ کمیٹیاں کس مرض کی دوا ہیں۔ آپ یہ بھی سوچ سکتے ہیں پارلیمانی روایت میں جرگہ کہاں سے آگیا۔ اطلاعاً عرض ہے کہ آج کل پارلیمانی کمیٹیاں پلاٹوں کے فیصلے، استحقاق کا رونا دھونا، مغربی NGOsکے بنائے ہوئے بِلوں کے مَسودے منظور کرانے اور حکومت کی خوشنودی والی کارروائیـ" بھگتانیـ" میںسخت مصروف ہیں۔ سرکار کے فاضل دوست خوب جانتے ہیں کہ فاضل جمہوریت کی عمر محض 1 سال باقی رہ گئی ہے۔ یہ ایک سال کا خوف پارلیمنٹ میں مگر مچھ بھی لے آیا۔ اگلے روز قومی اسمبلی کے فلور پر نقطئہ اعتراض کے جواب میں، وزیر ریلوے نے فاضل مگرمچھوں کا ذکر کر دیا۔انکشاف دھرایا، ریلوے کی زمینوں پر مگرمچھوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ تجاوزات ختم نہ ہوئیں تو مگر مچھ"پھڑکاء"دئیے جائیں گے۔ پنجابی زبان میں پنجاب پولیس "پُلس مقابلے" کو پھڑکا دینا کہتی ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے پنجابی سپیکر ایاز صادق نے پھڑکا دینے کو اسمبلی کی کاروائی سے حذف نہ کر کے پارلیمانی ڈکشنری کو مزید فاضل اور دوستا نہ بنا دیا۔
دوستانے سے پھر یاد آیا قومی اسمبلی اور سینیٹ میں حکومت اور فرینڈلی اپوزیشن کے درمیان زبردست دوستانہ میچ ہوا۔ رواں سیشن کے دوران فوجی عدالتوں کی توسیع پر اس فرینڈلی میچ میں کھلاڑیوں نے وکٹ کے دونوں طرف چھکے لگائے۔ سب سے لطف کی بات یہ ہے کہ امپائر نے بار بار آئوٹ ہونے والے مفاہمت کار ہیروز کے خلاف انگلی کھڑی کرنے میں دوستانہ احتیاط برتی۔آخر کار جُمعے کے روز یہ پُھس پُھسا اور پِھیکا میچ ڈرا ہو گیا ۔ اس دوستانہ میچ کے دوران کیمرہ بردار صحافیوں نے مجھ سے کئی بار ایک ہی سوال پوچھا کہ میچ کا نتیجہ کیا ہو گا۔ میرا جواب ایک ہی رہا ۔ نتیجہ وہی ہو گاجو ریفری چاہے گا۔ اب یہ وکالت نامہ اور فرینڈلی میچ کا نتیجہ سوموار کے دن دونوں آپ کے سامنے ہوں گے۔ 
جماعت اسلامی کے سابق امیر جناب منور حسن صاحب سے میرے اکثر مکالماتی میچ رہے۔ 2013کے عام انتخابات کا آغاز ہو رہا تھا ۔ ایک بڑی عرب ایمبیسی کے سفیر صاحب نے ون آن ون ڈنر کی دعوت دی ۔ون آن ون سفارتی ، صدارتی اور وزارتی ڈنر کے آداب کے مطابق کھانے کی درمیانی میز کے دو کناروں پر ایک ایک کرسی لگائی جاتی ہے۔ ڈائننگ ٹیبل کے وسط میں تازہ پھولوں کا کنگ سائز بُوکے رکھا جاتا ہے۔ آپ اسے دو کھانے والوں کے درمیان لائن آف کنٹرول بھی کہہ سکتے ہیں۔کھانے کے آغاز میں ہی سفیر محترم نے ملک کی 6عدد سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کے نام لیے۔ اور فرمایا کہ یہ معزز مہمان اسی کرسی پر بیٹھ کر ڈنر نُوش کر چکے ہیں۔ ایمبیسی سے باہر نکل کر میں نے مُنور حسن صاحب کا موبائل فون ملایا اور کہا آپ شہادت کی انگلی بلند کر کے اس سیاسی سوراخ سے ڈسے جانے کی طرف دوڑ رہے ہیں ۔ جس نے آئی جے آئی سے لیکر 2008 کے الیکشن تک انتخابی مفاہمت کا چکمہ دے کر آپ کو 5بار ڈسا ہے۔ مُنور حسن نے ن لیگ سے مجوزہ مفاہمت کا فارمولا لیک ہونے پر صرف یہ سوال پوچھا ، آپ کو کس نے بتایا ؟ جواب عرض کیا اس ڈائنگ ٹیبل نے جس پر آپ نے بھی عربی کھانے کھائے تھے۔ 
سوراخ سیاسی ہو یا غیر سیاسی اگر اس میں سانپ بیٹھ جائے تو اسے "بِل"کہا جاتا ہے۔ پتہ نہیں کیوں سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر دوسری بار ایک ہی "بِل"میں ڈس جانے کے دعوے کر رہے ہیں۔ بِل کے موضوع پر میں نے چیئر مین سینیٹ کامریڈ رضا ربانی صاحب سے ٹیلی فون پر بات کی۔ رضا صاحب نے یاد دلوایا پچھلے سال 27جنور ی کے دن سینیٹ نے گواہوں کی حفاظت اور انسدادِدہشت گردی ایکٹ مجریہ 1997ء میں ترامیم تجویز کرکے متفقہ قانون منظور کیا تھا ۔ یہ قانون پاس ہونے کے باوجود جمہوریت 2 سال تک اقتدار کے بل میں گُھس کر سوتی رہی۔ مجھے یاد ہے تب کامریڈ رضا ربانی نے یہ بھی کہا تھا 21ویں ترمیم کی سن سیٹ کلاز آ رہی ہے ۔ مگر اقتدار کے کان پر کہاں جوں رینگتی ہے۔ خاص کر وہ اقتدار جو میگا پراجیکٹس اور میگا کمیشن کے کِک بیک لگاتے لگاتے تاتارستان تک جا پہنچے ۔ شہرِ اقتدار کا وائرل لطیفہ یہ ہے۔ حکومت نے صدرصاحب کو دھوپ لگوانے کی اجازت دے دی ۔ داد دینے کے شوقین 23مارچ کو شکرپڑیاں آجائیں ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved