تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     21-03-2017

یوپی میں مسلمانوں کی پسپائی

بھارت کا صوبہ اتر پردیش تیزرفتار تبدیلیوں کے معاملے میں، حیرت انگیز رفتار سے ہندوسامراج کا لقمہ بن رہا ہے۔ یہ تبدیلی مودی کے حالیہ دور اقتدار میں صرف 3سال کے اندر ظاہر ہوئی۔ 20کروڑ آبادی کی اس ریاست میں مسلمانوں کی آبادی18سے 20فیصد کے لگ بھگ ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ آزادی کے بعد بی جے پی کے قلیل عرصہ اقتدار میں اتنی بڑی تبدیلی رونما ہو گئی۔ ایسا ممکن نہیں ہوتا کہ صرف 3سال کے عرصے میں سارا سیاسی ڈھانچہ ہی بدل کے رکھ دیا جائے۔لیکن یو پی کے اندر رونما ہونے والی تبدیلی نہ تو اچانک ہوئی کہ ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش پر ہندو قبضہ بغیر کسی منصوبہ بندی کے کر لیا گیا۔ راشٹریہ سیوک سنگھ، ہندو مہاسبھا میں خالص سے بڑھ کر ،زیادہ خالص کی حد تک اچانک نہیں چلا گیا۔
آزادی سے بہت پہلے متعصب ہندوئوں کی تقسیم ٹھوس نظریاتی بنیادوں پر کی گئی۔ ایک طرف ہندو ذہنیت کی ترجمان آر ایس ایس ،خاموشی سے مہاسبھائی ذہنیت کو پھیلاتی رہی اور اس کے منظم دستے، ہندو قوم پرستی کی بنیاد پر ،تنظیم در تنظیم بناتے چلے گئے اور 20کروڑ سے زیادہ آبادی والی ریاست کے سیاسی اور سماجی منظر پرِ انتہاپسند ہندو قیادت کا غلبہ ہوتا گیا اور حالیہ انتخابات میں اچانک آر ایس ایس پوری ریاست میں، اقتدار پر قابض ہونے میں کامیاب ہو گئی۔ آر ایس ایس نے معرض وجود میں آنے کے تھوڑے ہی عرصے بعد ،ہندو سماج کے اندر ایک خفیہ تنظیمی طاقت حاصل کر لی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی یعنی بی جے پی کے بڑے رہنما ،وہ ہندو لیڈر بنے، جو سیکولر قیادت میں جانے پہچانے تھے۔ 
متعصب ہندو لیڈر ،آہستہ آہستہ بی جے پی کی قیادت میں ،غلبہ حاصل کرنے لگے۔ تنگ نظر اور متعصب ہندو قیادت ،آہستہ آہستہ آگے بڑھتی رہی اور 3 سال پہلے ہونے والے عام انتخابات میں ،اپنے اصلی روپ کے ساتھ منظر عام پر آ گئی۔ نریندر مودی کو پہلے کوئی نہیں جانتا تھا۔ وہ ایک گمنام شخص کی طرح بی جے پی کی انتہائی منظم شاخ میں دھیمے سروں کے ساتھ ،اپنی ایک زیرزمین تنظیم تیار کرنے میں کامیاب ہو گیا اور پھرگجرات میں سرکردہ لیڈر بن کر منظر عام پر آیا اور گجرات کا وزیراعلیٰ بن کر اس نے آر ایس ایس کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دے کر، دیدہ دلیری سے مسلم دشمن پالیسیاں اختیار کرنا شروع کر دیںاور پھر ہندو مسلم فسادات برپا کرکے مسلمانوں کے وحشیانہ قتل عام کا اہتمام کیا اور متعصب ہندوئوں کے ایک بہت بڑے اور موثر طبقے کی تائید حاصل کر کے، انتخابی طاقت حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ گزشتہ انتخابات میں ہندو سرمایہ کاروں کی درپردہ طاقت کا اعتماد حاصل کر کے، دیکھتے ہی دیکھتے ایک قومی لیڈر کا مقام حاصل کرتا گیا اور جب انتخابات کا عمل شروع ہوا، تو آر ایس ایس نے دیکھتے ہی دیکھتے ،مودی کو ایک قومی لیڈر بنا دیا۔ یوں لگتا تھا کہ ہندو میڈیا شدت سے اس صورتحال کے انتظار میں تھا۔ بھارت کا سارا میڈیا، بی جے پی کا کھلم کھلا ترجمان بن کر سامنے آ گیا۔ مودی کو یوںنمایاں کیا گیا کہ وہ سارے بھارت کے ساتھ ایک قومی لیڈر کی حیثیت میں بی جے پی کا واحد لیڈر بن گیا۔ سارے سینئر ہندو لیڈر ،جن کی زندگیاں سیاست میں گزری تھیں، پس منظر میں چلے گئے اور انتخابات کے موقع پر بڑی عیاری سے یو پی میں ہندو لیڈروں کو سامنے لایا جاتا رہا۔جب انتخابی نتائج سامنے آئے تو پتہ چلا کہ ایک بھی مسلمان امیدوار کو ٹکٹ ہی نہیں دیا گیا تھا۔بی جے پی کے ٹکٹ پر 300سے زیادہ ہندو امیدوار کامیاب ہو گئے اور انتخابی نتائج سے بڑا سرپرائز اس وقت سامنے آیا ِ ، جب ایک برہمن یوگی، ریاست کے وزیراعلیٰ کی حیثیت میں سامنے لایا گیا۔ اب کوئی گنجائش باقی نہیں رہ گئی۔ وہ بلامقابلہ منتخب ہو گیا۔ آنے والے 2سال میں منصوبے کے 
عین مطابق ،بی جے پی پورے بھارت پر قبضہ جمانے کی پوزیشن میں آ سکتی ہے۔ ملک کی سب سے بڑی پارٹی ،بی جے پی کا متعصب حصہ اب یوپی پر براجمان ہو گا۔ آنے والے 2سال کے عرصے میں مسلمانوں کو سبک رفتاری سے ،دوسرے درجے کا شہری بنا کر اچھوتوں کی صفوں میں دھکیلنے کے پروگرام پر عملدرآمد شروع ہو گا۔ جس آسانی سے یوپی کے سیاسی منظر پر، بی جے پی نے غلبہ حاصل کیا ہے، یہی مشق آئندہ کے انتخابی مراحل میں دہرائی جائے گی۔ آر ایس ایس نے جس رازداری کے ساتھ یو پی میں فیصلہ کن اکثریت حاصل کر کے، اپنے ایک انتہاپسند کارکن کو، صوبے کی وزارت اعلیٰ پر قابض کیا، اس کی تفصیل آنے والے کالموں میں پیش کروں گا۔ فی الحال یوگی آدتیہ ناتھ کے وزیراعلیٰ بننے کا پس منظر بیان کروں گا۔ بی جے پی نے، 325 سیٹیں حاصل کر کے ،ریاست اترپردیش میں ایک تاریخ ساز کامیابی حاصل کی۔ اس سے تو یہی اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ وزیراعظم نریندر مودی اپنی ساری توجہ ملک کی ترقی پر ہی مرکوز کریںگے۔ یو پی الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد مودی نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی جائیں گی اور ایک نیا ہندوستان وجود میں آئے گا۔ لیکن جس طرح یوگی آدتیہ ناتھ کو اترپردیش کی کمان سونپی گئی، اس سے یہی اندازہ لگایا جا سکا ہے کہ انہوں نے ہندوستان کو نئی ترقی کی راہ پر لے جانے کی جگہ ہندو ہردے سمراٹ بنانے کا فیصلہ کیا۔ الیکشن کے نتائج آنے کے کئی دن بعد تک اتر پردیش کی کمان کسے سونپی جائے؟ اس سلسلے میں بی جے پی کے اندر تذبذب برقرار رہا ۔ آر ایس ایس کے کچھ سینئر لیڈروں نے امیت شاہ کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ اس سلسلے میں یوگی آدتیہ ناتھ کا نام مناسب رہے گا۔ امیت شاہ نے فوری طور پر تو کوئی جواب نہیں دیا اور یہی کہا کہ وہ صبح نریندر مودی سے بات چیت کریں گے۔ ہفتہ کی صبح موہن بھاگوت کا فون نریندر مودی کے پاس آتا ہے اور وہ یوگی آدتیہ ناتھ کو، اتر پردیش کا وزیراعلیٰ بنانے کے لئے کہتے ہیں۔ موہن بھاگوت کا فون آتے ہی مودی نے یہ واضح کر دیا کہ یوگی کو ہی وزیراعلیٰ بنانا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یوگی کو ہی وزیراعلیٰ بنانا تھا تو اتنے دن تاخیر کیوں کی گئی؟ اس کے لئے پہلے نئی دہلی میں بی جے پی کی میٹنگ ہوئی ،جس میں وزیراعلیٰ کے نام پر غور و خوض ہوا ،پھر اس کے بعد لکھنو میں بی جے پی لیجسلیچر پارٹی کی میٹنگ میں ،یہ اعلان کر دیا گیا کہ یوگی وزیراعلیٰ ہوں گے۔ اس اعلان کے بعد اس پر سوال اٹھنے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ پھر جس طرح سے دو نائب وزرائے اعلیٰ کا اعلان کیا گیا ،وہ بھی ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کہی جا سکتی ہے۔ ایسا سمجھا جاتا ہے کہ یوگی کچھ گڑ بڑ کریں ،تو امیت شاہ کے یہ دونوں قریبی لوگ ان پر قابو رکھ سکیں۔ بی جے پی نے حالیہ یو پی اسمبلی الیکشن میں ایک بھی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا۔ اس کے لئے بی جے پی نے یہ دلیل دی کہ مسلمان جب بی جے پی کو ووٹ دیتا ہی نہیں تو پھر انہیں الیکشن میں ٹکٹ دینے کی کیا ضرورت ہے؟ واضح رہے کہ 2012ء کی یو پی اسمبلی میں، مسلم ممبروں کی نمائندگی 17فیصد سے زائد تھی جو 2017ء کے الیکشن میں گھٹ کر 10 فیصد سے بھی کم رہ گئی۔ 
صورتحال یہ ہے کہ یو پی میں 18فیصد مسلم آبادی میں سے اب اسمبلی کی 433 سیٹوں میں صرف 24 مسلمان ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ یو پی کے صرف 2 فیصد لوگوں نے ،بی جے پی کو ووٹ دیا۔ اس طرح سے ریاست کے تازہ انتخابی نتائج کے بعد مسلمانوں کی آواز ایک طرح سے خاموش ہو کر رہ گئی ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ کی تقرری کا مقصد،ایک طرح گجرات کے بعد ،اتر پردیش کو ایک تجربہ گاہ بنانا ہے۔ کافی عرصہ سے یہ پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ اترپردیش کے ہندوئوں کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ تین چار سال قبل کیرانہ سے ہندوئوں کی نقل مکانی کو ایک ایشو بنا کر پیش کیا گیا اور اس کے لئے وشواہندوپریشد اور بجرنگ دل کی جانب سے جگہ جگہ کیمپ لگا کر لوگوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ اگر ان کے ساتھ کوئی زیادتی ہوتی ہے تو اس کے لئے وشواہندو پریشد اور بجرنگ دل کی ٹیمیں تیار ہیں۔ اس سلسلے میں گائوں گائوں آر ایس ایس کی شاخیں بنناشروع ہو گئیں اور ایک خاص قسم کا ذہن تیار کیا جانے لگا۔ اس کے نتیجے میں برسہا برس سے جاٹ اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی جو مضبوط کڑی تھی وہ ٹوٹ گئی اور صف بندی کا جو سلسلہ شروع ہوا، اس نے مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو مختلف خانوں میں تقسیم کر دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ یوگی کے عہدہ سنبھالنے کے بعد ،کیا صورتحال پیدا ہو گی؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مغربی اتر پردیش میں، بی جے پی کے الیکشن جیتنے کے بعد، ماحول کو گرمانے کی کوشش شروع کر دی گئی ہے۔ بریلی کے کچھ علاقوں کے دیہات میں ایسے پرچے تقسیم کئے جا رہے ہیں جن میں مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنا گھربار چھوڑ کر نکل جائیں۔ دوسری جانب بلند شہر کی مسجد میں، بی جے پی کا جھنڈا لگانے کی کوشش کی گئی۔ اگر اس سلسلے پر سرکار اور انتظامیہ کی جانب سے قابو پانے کی کوشش نہیں کی گئی تو ایک بڑے ٹکرائوکے خدشہ سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved