کیا اہلِ صحافت کی کوئی ذمہ داری نہیں؟ کیا ہم خلیل جبران کا قول درست ثابت کرنے پر تلے ہیں؟ اس نے کہا تھا: اخبار نویس زخموں کی تجارت کرتے ہیں۔
اتفاق سے اس وقت بیدار تھا، ڈاکٹر فاروق ستار والا ڈرامہ جب شروع ہوا۔ حیرت ہوئی کہ کون سے کولمبس کی آمد ہے۔ خبر تھی، سو نشر کر دی جاتی۔ بریکنگ نیوز کے طور پر ہی سہی۔ پورے ایک پہر تک اس غلغلے کے مضمرات کا کیا ان کو اندازہ ہے؟ کیا ان کی واحد ترجیح ناظرین کو مبتلا رکھنا ہے؟
اتفاق سے اس وقت بھی جاگ رہا تھا، جب شرجیل میمن والا کھیل شروع ہوا اور اتنی دیر تک برپا رہا کہ اخبارات کی کاپیاں پریس چلی گئیں۔ آدمی زچ ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار کی گرفتاری پر سامنے کی یہ بات اخبار نویسوں کو کیوں نہ سوجھ سکی کہ عدالت نے اس کا حکم دیا ہے۔ اس پر وزیرِ اعلیٰ سندھ کے دفتر کی بوکھلاہٹ کہ وہ پکڑے نہیں جا سکے، فرار ہو گئے۔ کہاں فرار ہو گئے؟ ٹی وی کیمروں کے سامنے تھے، وہ خطاب فرما رہے تھے، معصومیت کا دعویٰ کر رہے تھے۔
22 اگست کو کیا ہوا تھا؟ پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگا تھا۔ ملک توڑنے کا فرمان نشر ہوا تھا۔ ٹی وی چینلوں پر حملے کا حکم دیا گیا تھا اور اس کی تعمیل ہوئی تھی۔ اگلے چند دنوں میں اس نعرے سے لاتعلقی کا اعلان کرنے والوں کی مذمت کی گئی تھی۔ شدید عوامی ردّعمل پہ پھر وضاحتوں کا سلسلہ شروع ہوا اور معافی مانگ لی گئی۔ کہا گیا کہ ریا ست ماں کی طرح ہوتی ہے۔ بچّوں سے قصور سرزد ہو جائے تو اسے بھلا دینا چاہیے۔ کسی نے یہ نہ پوچھا کہ پھر سب غنڈوں، قاتلوں، چوروں اور ڈاکوئوں کو کیوں نہ چھوڑ دیا جائے؟ کیا ان کے کندھوں پر ویسے ہی سر نہیں رکھّے؟ ان کے سینوں میں ویسے ہی دل نہیں دھڑکتے؟ ان کے لہو کا رنگ اتنا ہی سرخ نہیں؟
الطاف حسین کے بارے میں ہرگز کوئی شبہ نہیں کہ وہ پاکستان توڑنے کے ایک تباہ کن منصوبے کا حصہ ہیں۔ ''را‘‘ کے ساتھ ان کے تعلقات کی گواہی جون 2015ء میں بی بی سی نے دی۔ ثابت ہے کہ پونا سے ممبئی تک پھیلے تخریب کار کیمپوں میں کراچی کے قاتلوں کو تربیت دی گئی۔ بھارت سے سرمایہ انہیں فراہم کیا جاتا رہا۔ ہزاروں معصوم شہریوں کو قتل کر دیا گیا۔ ملک کی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا گیا۔ دہلی کی طرف سے، یہ 1947ء سے چلی آتی پاکستان کو توڑنے کی منصوبہ بندی کا حصہ تھا۔ کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی کا جواب بھی۔ ایک طرح سے بلیک میلنگ کی کوشش کہ پاکستان اگر خون میں نہائے کشمیریوں کو غلامی پہ رضامند نہیں کرتا تو بے رحمانہ تخریب کاری کا سلسلہ جاری رہے گا۔
بھارتی یہ بات چھپاتے تو نہیں۔ قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول نے بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک کو سینچنے کا اعتراف کیا اور طالبان کی سرپرستی کا بھی، جو اللہ کے نام پر اس کے بندوں کی گردنیں کاٹتے ہیں۔ اس قدر یہ صاحب نریندر مودی کو عزیز ہیں کہ ان کا دفتر، وزیرِ اعظم کے دفتر سے متصل ہے۔ متصل ہی نہیں، دونوں کمروں کے بیچ میں دروازہ ہے۔ یعنی پاکستان سے انتقام بھارتی وزیرِ اعظم کی اولین ترجیح ہے؛ چنانچہ وہ کسی بھی سرکاری عہدیدار سے زیادہ عزیز ہیں۔ وزیرِ خارجہ اور وزیرِ دفاع سے بھی زیادہ۔
ان تمام برسوں میں جب پاکستان کے ہاتھ پائوں کاٹے جا رہے تھے، ڈاکٹر فاروق ستار کیا کر رہے تھے؟ جب 1995ء میں دہشت گردوں کے خلاف لڑنے والے پولیس افسر چن چن کر قتل کیے جا رہے تھے۔ جی ہاں! قاتلوں کی وہ وکالت کر رہے تھے اور مجھ ایسے ہر اس شخص کی کردار کشی، جو ایم کیو ایم پر تنقید کا مرتکب ہوتا۔ کیا بی بی سی کی طرف سے ''را‘‘ سے روابط کا انکشاف ہونے سے قبل، فاروق ستار سمیت کسی کا ضمیر جاگا؟ کیا کسی بھی اعتبار سے وہ آرمی پبلک سکول کے بچّوں کا قتلِ عام کرنے والوں سے مختلف تھے؟ اس سانحہ کے بعد اگر کوئی مولوی فضل اللہ کی وکالت کرتا تو پاکستانی صحافت کا ردّعمل کیا ہوتا؟ کل کلاں مولوی فضل اللہ بھیس بدل کر اگر پاکستان آئے۔ اگر اسے گرفتار کر لیا جائے تو کیا ایسی ہی ہمدردی کا جواز ہو گا؟ کبھی کبھی حیدر عباس رضوی یاد آتے ہیں، 22 اگست 2016ء کے بعد مغرب میں جو پناہ گزین ہیں۔ کراچی میں قتل و غارت کی لہر اٹھتی تو دلائل کے دریا بہا دیا کرتے۔ فرماتے: یہ لینڈ مافیا کا کیا دھرا ہے، یہ منشیات مافیا کی کارستانی ہے۔ کم از کم ڈاکٹر فاروق ستار سے وہ اچھے ہیں کہ اس گھٹیا مقدمے کی وکالت سے تنگ آ کر روپوش ہو گئے۔
ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کا ٹولہ ہماری سیاست اور صحافت کی کمزوریوں سے خوب واقف ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ وزیرِ اعظم نواز شریف ان کے سر پہ شفقت کا ہاتھ رکھیں گے۔ اخبارات اور چینل انہیں گوارا کریں گے کہ دو بڑے شہروں میں اب وہ بھی ایک سیاسی قوت ہیں۔ نفع و نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ غیرت و حمیت سے کیا حاصل؟ حب وطن کا علم بلند کرنے کا کیا فائدہ؟ اس سے گاڑی نہیں خریدی جا سکتی۔ مکان بنایا نہیں جا سکتا۔ کاروبار کو فروغ نہیں دیا جا سکتا۔ سیاست ہو یا صحافت، کیا انہوں نے فرض کر لیا کہ قومی سلامتی فقط مسلح افواج کی ذمہ داری ہے؟ کیا ان کا کام محض خور و نوش ہے؟
عدالتی حکم پر فاروق ستار کی گرفتاری عمل میں آئی۔ کہا جاتا ہے کہ جناب اسحٰق ڈار اس پہ پریشان ہوئے۔ آدھی رات کو صوبائی حکومت سے رابطہ کیا اور کیوں نہ کرتے۔ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی سے نمٹنے کے لیے کسی وقت بھی ان کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ قومی اسمبلی میں ان کے دو درجن سے زیادہ ارکان ہیں۔ آئندہ الیکشن کے بعد حکومت سازی میں مددگار ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ غدّاری اور بغاوت کے سنگین معاملات میں وہ مددگار تھے، عدالت نے انہیں موقعہ دیا کہ اپنی ضمانت کرا لیں۔ بار بار کی یاد دہانیوں کے باوجود، رتّی برابر انہوں نے پروا نہ کی۔ خوش فہمی ان کی یہ تھی کہ کراچی پولیس کیا بیچتی ہے۔ سرپرستی کرنے والے ان کی مدد کو آئیں گے اور مقدمہ داخلِ دفتر ہو جائے گا۔
یہی ٹولہ تھا، 22 اگست کو رینجرز کے دفتر میں جنہوں نے سجدہء سہو کیا تھا۔ وڈیو فلمیں دیکھ کر ایم کیو ایم کی خواتین کارکنوں کو گرفتار کرایا تھا۔ الطاف حسین سے الگ ہو جانے کا پیمان کیا تھا۔ اس وقت وہ خوف زدہ تھے۔ حکومت اور صحافت کے ردّ عمل نے انہیں حوصلہ بخشا۔ آج اپنے حامیوں کو وہ بتاتے ہیں کہ لندن اور کراچی والے ایک ہیں۔
قیدِ حیات و بندِ غم، اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
کیا جناب شرجیل میمن کے کارناموں پہ روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے؟ کیا واقعی وہ بیمار تھے؟ کس مرض میں مبتلا ہیں؟ کس ہسپتال میں تھے؟ کون معالج ان کا علاج کرتا رہا؟ پونے دو برس کی علالت کے باوجود وہ آدمی خوش باش اور ہٹا کٹا کیسے ہے، جس پر الزام تھا کہ اس کی حیثیت تحصیل دار کی ہے۔ سب وزارتوں سے روپیہ جمع کر کے آقائوں تک پہنچاتا ہے۔ کس ٹھاٹ سے وہ کہتا ہے کہ پہلے میرا قصور ثابت کرو۔ کیا اس ملک کے عدالتی نظام میں کبھی کسی ارب پتی کا کوئی جرم ثابت ہو سکا؟
حکمران طبقہ تو الگ کہ ہمیشہ سے وہ ایسا ہی کرتا آیا ہے۔ شاید اسی لیے اقبال ؔ نے انہیں ابلیس کے فرزند کہا تھا۔ کیا اہلِ صحافت کی بھی کوئی ذمہ داری نہیں؟ کیا ہم خلیل جبران کا قول درست ثابت کر نے پر تلے ہیں؟ اس نے کہا تھا: اخبار نویس زخموں کی تجارت کرتے ہیں۔