تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     22-03-2017

گھیرا ڈالنے کا فن

سوموار کو ایک قریبی اور بے تکلف دوست نے شام کو ایک کیفے پر کافی پر بلا لیا۔ اتوار کو رات گئے لیہ سے ایک دفعہ پھر دس گھنٹے کا طویل اور تکلیف دہ سفر کے بعد اسلام آباد پہنچا تھا ۔ تھکاوٹ تھی لیکن دوست کو انکار نہ کرسکا۔ ان سے ملنے کی ایک لالچ یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ ہر دفعہ میرے لیے کوئی نہ کوئی اچھی کلاسک کتاب ضرور لے آتے ہیں۔
ملتے ہی بولے مشورہ کرنا ہے۔ میں نے کہا میں تو اس قوم سے ہوں جو ہر وقت مشورہ دینے کوتیار رہتی ہے چاہے اپنا گھر نہ چل رہا ہو لیکن دوسرے کو ایک ہزار مشورے دیتے ہیں کہ ان کی ترقی کیسے ممکن ہے۔ 
ایک انٹرنیشنل گروپ کا بتانے لگے کہ انہوں نے انہیں میڈیا ایڈوائزر بنانے کی پیشکش ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں کنسلٹنسی کرنی ہوگی۔ میں نے دوست کو غور سے دیکھا اور کہا آپ اچھا کالم لکھتے ہو، بولتے بھی اچھا ہیں۔ سوشل ایکٹویسٹ ہیں ۔ ٹوئیٹر پر اپ ایکٹو ہیں۔ آپ کن چکروں میں پڑ رہے ہیں۔ آپ کو اب صحافیوں کو فون کر کے اس گروپ کے لیے کچھ بندوبست کرانا ہوگا۔ کئی لوگوں کے احسانات اٹھانے ہوں گے۔ جو نہیں کرسکے گا اس سے آپ ناراض ہو جائیں گے۔ اس گروپ کا کئی اور گروپس کے ساتھ ایک کیس سپریم کورٹ میں لگا ہوا ہے لہٰذا وہ میڈیا کو استعمال کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے خلاف جو پبلک رائے بن رہی ہے اس کا کائونٹر کیا جائے۔مان لیتے ہیں وہ حق پر ہوں گے لیکن اگر اپ یہ کام کریں گے تو عزت کھو بیٹھیں گے۔ 
وہ مجھے سمجھانے لگے کہ چند ضروریات ہیں۔ تنخواہ سے کہاں کام چلتا ہے۔ 
میں نے کہا پھر تو آپ فیصلہ کرچکے ہیں، مجھے تو بس آپ انفارم کر رہے ہیں۔ کہنے لگے آپ اس سلسلے میں میرے لیے کیا کرسکتے ہیں۔ میں نے کہا جو حکم سرکار ۔ میں نے کہا ویسے ہم دوسروں پر تنقید کرتے رہتے ہیں لیکن جب خود کسی امتحان سے گزرنے کا وقت آتا ہے تو اس وقت ہم کئی جواز ڈھونڈ لیتے ہیں۔ میں نے کہا ایک آپ کو واقعہ سناتا ہوں ہمارے سیاستدان ہمارے جیسے صحافیوں اور کالم نگاروں کو کیسے پھنساتے ہیں یا کالم نگار اور صحافی خود پھنسنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں ۔ 
دو ہزار سات کی بات ہے میں لندن میں دی نیوز کے لیے رپورٹنگ کررہا تھا۔ لندن ان دنوں نواز شریف اور بینظیر بھٹو کی وجہ سے سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ بنا ہوا تھا۔ جنرل مشرف کے کئی نمائندے لندن میں کسی نئی ڈیل کے لیے وہاں پھر رہے تھے۔ بینظیر بھٹو ان دنوں جنرل مشرف سے خفیہ ملاقاتیں کر کے نئی ڈیل کررہی تھیں۔ نواز شریف اگرچہ بینظیر بھٹو کے ساتھ چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کر چکی تھیں کہ سرونگ جنرل سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ تاہم دوسری طرف وہ ان سے دوبئی میں خفیہ ملاقاتیں بھی کررہی تھیں۔ نواز شریف کو سب پتہ تھا لیکن وہ خاموش تھے کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ بنظیر بھٹو کی ڈیل کی وجہ سے ان کا بھی پاکستان واپسی کا راستہ کھل جائے گا اور بعد میں وہی کچھ ہوا۔ جب بینظیر بھٹو ڈیل کرکے وطن لوٹیں تو انہوں نے نواز شریف کی وطن واپسی پر بھی زور دیا اور بعد میں سعودیوں نے جنرل مشرف پر زور ڈالا کہ اگر بینظیر بھٹو وطن لوٹ سکتی تھیں تو پھر نواز شریف کیوں نہیں حالانکہ ان کا وطن واپس نہ لوٹنے کا دس سال تک معاہدہ نہ تھا۔ لہٰذا نواز شریف کی وطن واپس میں بینظیر بھٹو کا بڑا رول تھا۔ 
خیر میں ان دنوں لندن سے بینظیر بھٹو اور جنرل مشرف کی ممکنہ ڈیل پر خبریں فائل کررہا تھا ۔ بینظیر بھٹو چاہتی تھیں کہ جنرل مشرف کے ساتھ ان کی نئی ڈیل کی ضمانت کسی سرونگ آرمی جنرل کو دینی چاہیے۔ اس پر جنرل مشرف نے جنرل کیانی جو اس وقت ڈی جی آئی ایس آئی تھے کو لندن بھیجا اور بینظیر بھٹو کوضمانت دی گئی۔ 
خیر میری خبروں کی وجہ سے پیپلز پارٹی اور بے نظیر بھٹو ڈسٹرب تھیں ۔ وہ جنرل مشرف سے خفیہ ملاقاتیں بھی کررہی تھیں، این آر او بھی کررہی تھیں لیکن جمہوریت پسند ی کا ٹائٹل بھی رکھنا چاہ رہی تھیں۔ ہر طرف سے ان پر تنقید ہورہی تھی۔ اس پر ایک اجلاس میں سوچا گیا کیا کیا جائے۔ میڈیا کو کیسے قابو کیا جائے۔ لندن اجلاس میں مختلف پارٹی لیڈروں نے مختلف صحافیوں کی ذمہ داری سنبھال لی۔ ایک بڑے صاحب نے میری ذمہ داری لے لی کہ رئوف کی فکر نہ کریں میں اسے سنبھال لوں گا۔ 
ایک دن مجھے ان صاحب کا فون آیا ۔ بولے آپ کے لیے بینظیر بھٹو کا ایک پیغام ہے‘ آپ سے ملنا ہے۔ میں نے کہا ملتے ہیں۔ ایجوائے روڈپر ایک ریسٹورنٹ پر ملاقات ہوئی۔ انہوں نے بڑی سنجیدگی کی ادکاری کی اور کچھ دیر تعریف کرنے کے بعد بولے بینظیر کا کہنا ہے کہ رئوف سے کہیں ہمیں گائیڈ کریں کہ میڈیا کو کیسے ہینڈل کریں۔ میں مسکرا پڑا اور بولا یہ میرا کام نہیں ہے کہ آپ کو بتائوں کہ میڈیا کو کیسے ہینڈل کرنا ہے۔ آپ جانیں اور میڈیا جانے۔ دوسرے لفظوں میں آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ میں آپ کو بتائوں کہ مجھے کیسے ہینڈل کیا جائے۔ بولے نہیں آپ بتائیں پاکستان میں کالم نگاروں اور دیگر میڈیا کے لوگوں کو کیسے ہینڈل کیا جائے۔ میں نے کہا ہینڈل کا مطلب ہوتا ہے آپ صحافیوں اور کالم نگاروں کو اپنی بات بتائیں اور آپ کا موقف چھپنا چاہیے۔میں نے انہیں ایک آدھ مشورہ بھی دیا کہ پیپلز پارٹی میں فلاں فلاں لوگوں کی پاکستان میں ابھی بھی کچھ عزت میڈیا میں بچی ہوئی ہے۔ ان کے ذریعے اپنا موقف دیں تو شاید لوگ کچھ غور سے سنیں۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ میری بات پر زیادہ توجہ نہیں دے رہے۔ان کے ذہن میں کچھ اور تھا۔پھر بولے اگر کسی دوست کے لیے لندن ویزے کے لیے کوئی ریفرنس لیٹر چاہیے تو بھی وہ اپنی کمپنی سے دے دیں گے۔ میں چپ رہا تو بولے جب چاہوں ان کی مرسڈیز گاڑی جس پر وہ بینظیر بھٹو کو ائرپورٹ سے لینے اور ڈراپ کرنے جاتے تھے وہ بھی لے سکتا ہوں۔ 
میں نے کہا مجھے ریفرنس لیٹرز کی بھی ضرورت نہیں اور نہ ہی مرسیڈیز میں سفر کا شوق ہے۔ لندن کا ٹریفک سسٹم اتنا اچھا ہے۔ 
ڈرامے میں رنگ بھرنے کے لیے وہ ہاتھ میں ایک کاپی لے کر اس میں کچھ نوٹس بھی لے رہے تھے۔ کچھ دیر بعد بولے اچانک بولے آپ کیوں ہمیں ایڈوائس نہیں کرتے۔
میں نے کہا کیا مطلب۔بولے آپ دوسرے لوگوں کے نام ہمیں بتارہے ہیں۔ آپ خود ایک میڈیا کنسلٹنسی فرم بنا لیں۔ ہم آپ کو پیپلز پارٹی کی میڈیا پبلسٹی کا کنٹریکٹ دے دیتے ہیں۔ آپ سے بہتر اور کون ہوگا۔میں مسکرا پڑا اور سب کھیل سمجھ گیا کہ کیا پیغام تھا اور کس طرح موصوف مجھے ہینڈل کر رہے تھے۔ 
میں نے کہا آئیڈیا تو آپ کا بہت اچھا ہے لیکن غلط بندے کو پیش کررہے ہیں۔ میرا زندگی میں ترقی کا اتنا تصور ہے کہ میں ایک اچھا صحافی بنوں۔ امیر بننے کا شوق ہوتا تو کوئی اور کام کرتا۔
بولے آپ کے انکار سے بینظیر بھٹو کو مایوسی ہوگی۔ میں نے کہا اگر میں نے آپ کی بات مان لی تو میں اپنے آپ کو مایوس کروں گا۔ کسی ایک کو تو مایوس ہونا پڑے گا۔ آپ کے پاس تو ویسے ہی میرے جیسے کئی کالم نگار اور صحافیوں کی لمبی قطار ہے کسی اور کو اس نیک کام کے لیے چن لیں۔ 
اب میں نے اپنے اس دوست کو اسلام آباد میں بتایا دراصل یہ سیاستدان اور بڑے کاروباری گروپس جانتے ہیں کہ سب لوگوں کی ایک پرائس ہوتی ہے۔ کچھ نقد نہیں لیتے اور انڈرہینڈ ڈیل کرتے ہیں۔ بعض کنسلٹینسی فرم بنا کر مال بناتے ہیں۔ ہر ایک کے لیے ان کے پاس علیحدہ علیحدہ ڈیل ہے۔ علیحدہ علیحدہ پیکیج ہے۔ جو جس کو چاہیے وہ مل جائے گا ۔ میں دوست کو سمجھاتا رہا اور وہ مجھے سمجھاتا رہا۔ ہم ایک دوسرے کو سمجھاتے رہے اور دونوں ایک دوسرے کی بات نہ سمجھ سکے اور نہ ہی سمجھا سکے۔۔۔!میں بے بسی سے اپنے دوست کو دیکھ کر دکھی دل کے ساتھ سوچتا رہا کیسے کیسے چالاک شکاری جال اٹھا کر شکار پھنساتے ہیں۔ ایک اور اچھا خاصا دوست شکار ہوگیا تھا ۔! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved