تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     22-03-2017

حامد سعید کاظمی کی بریت کے بعد

جب حج کرپشن کیس قومی اسمبلی اور پھر میڈیا میں آیا تو ان دنوں افتخار محمد چودھری چیف جسٹس آف پاکستان ،تھے ، انہوں نے ازخود نوٹس لے کر یہ معاملہ عدالت منگوا لیا اور اس کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔اس کے بعد ایک سعودی شہزادے نے خط کے ذریعے چیف جسٹس کو بتایا کہ پاکستانی حجاج کی رہائش کے لیے جو عمارتیں حکومت ِ پاکستان نے کرائے پر لی تھیں وہ حرم سے ساڑھے تین کلومیٹر دور تھیں جبکہ شہزادہ کہیں کم کرائے پر ایسی عمارتیں فراہم کرنے کے لیے تیار تھا جو حرم سے نسبتاََ قریب تھیں۔ پاکستان کے عدالتی نظام میں غیر ملکی شہری کے بھیجے گئے خط کی قانونی حیثیت کا سوال اپنی جگہ، لیکن اس سے یہ ضرورلگا کہ حج کے معاملے میں بڑے پیمانے پر کرپشن ہوئی ہے۔ میڈیا اس کیس کی تپش سے دہکنے لگاتو وزیراعظم نے حامد سعید کاظمی اور اعظم سواتی کو کابینہ سے نکال دیا۔ مگر اب دیر ہوچکی تھی، چند دن بعد وزیراعظم کے بیٹے کا نام بھی اس کیس کے ساتھ جڑ گیااور یہ خبر آگئی کہ ان کے بیٹے عبدالقادر گیلانی نے پیسے لے کر راؤ شکیل کوڈائریکٹر جنرل حج لگوایا جس نے مکہ مکرمہ میں عمارتوں کے کرائے میں خردبرد کی۔ وزیراعظم کے بیٹے کا نام آنے کے بعد سپریم کورٹ نے اس کیس کی تحقیقات پر اپنی نگرانی مزید سخت کردی اور روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ عدالت میں پیش ہونے لگی۔ عدالتی کارروائی اور اس کی میڈیا رپورٹنگ سے یوں لگا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت میں شامل کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں جس نے حاجیوں کے پیسے سے جیبیں نہ بھری ہوں۔ دن بھر سپریم کورٹ میں یہ کیس چلتا اور رات گئے تک پیپلزپارٹی کو میڈیا اس کی سزا سناتا۔ آخر دوہزار تیرہ میں عدالت سے پہلے اس کیس کی بنیاد پر عوام نے انتخابات میںپیپلزپارٹی کا فیصلہ کردیا۔ حج کرپشن کیس میں دوسراعدالتی فیصلہ دوہزار سولہ میں آیا جس کے مطابق ٹرائل کورٹ نے حامد سعید کاظمی کو سولہ سال، راؤ شکیل کو چالیس سال اور وزارت مذہبی امور کے جوائنٹ سیکرٹری آفتاب اسلم کو سولہ سال کی سزا دے کر جیل بھیج دیا۔ اس کیس کا تیسرا فیصلہ دو د ن پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ نے دیا جہاں ان تینوں سزا یافتہ مجرموں نے اپیل کی تھی۔ عدالت نے ایف آئی اے کا ریکارڈ منگوایا، مجرموں کو سنا اور انہیں الزامات سے باعزت بری کردیا۔
تین برس تک پاکستانی سیاست پر چھائے رہنے والے حج کرپشن سکینڈل کے اس انجام سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ پاکستان میں کرپشن اتنا بڑا مسئلہ نہیں بلکہ اصل مسئلہ کرپشن کے مفروضے ہیں جنہیں ہماری سیاست میں مستقل حیثیت مل چکی ہے۔ کرپشن کے ہر مفروضے پر اس ہیچ مدان کالم نگار سے لے کرٹی وی کے جیّد ترین اینکر تک ردے پر ردا چڑھاتا چلا جاتا ہے اور پھر کسی دوسرے مفروضے کے تعاقب میں پہلے کے انجام سے بے پروا ہوجاتا ہے۔یہ مسئلہ اس وقت بدقسمتی کی شکل اختیار کرلیتا ہے جب ہمارا قانونی نظام بھی ان مفروضوں پر اپنا وقت ضائع کرنے لگتا ہے۔ اگرچہ یہ بات کسی حد تک قابل اطمینان ہے کہ کچھ تاخیر سے ہی سہی قانون دان میڈیا کی آنکھیں چندھیا دینے والی روشنی سے نکل کر اپنی منصفانہ بصیرت کی مدد سے صحیح راستہ تلاش کرلیتے ہیں لیکن ان کا وقتی طور پر ان مفروضوں کی رو میں بہہ جانابھی بڑے مسائل پیدا کردیتا ہے جس کی کلاسیکل مثال یہی کیس ہے۔ جب یہ کیس شروع ہوا تو پیپلزپارٹی کو اقتدار سنبھالے ڈھائی برس ہوئے تھے ، مسلم لیگ ن نے قابلِ داد مہارت سے اس کیس کو عدالت اور میڈیا تک پہنچا کر یہ ثابت کردیا کہ پیپلزپارٹی ایسی ناقابل اصلاح سیاسی پارٹی بن چکی ہے جس سے تعلق رکھنے والا خواہ کتنا ہی اجلا ہو ، پیسے بنانے کے لیے اللہ کے مہمانوں (حاجیوں) کو بھی نہیں چھوڑتا۔ یہ تاثر پنجاب اور خیبرپختونخوا کے مذہب پسند معاشرے میں پیپلزپارٹی کی سیاست کے تابوت میں آخری کیل کی طرح ٹھونک دیا گیا اور نتیجہ وہی نکلا جو حج کرپشن کا مفروضہ قائم کرنے والے نکالنا چاہتے تھے۔ اس کیس کے بعدمیمو گیٹ اسکینڈل، آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی میں توقیر صادق کی اسی ارب روپے کی کرپشن کا مفروضہ اورراجہ پرویز اشرف کی رینٹل پاور جنریشن میں اربوں روپے کی کرپشن کا مفروضہ اس چھوٹی سی اقلیت کو لبھانے کے لیے استعمال ہوئے جو مذہب کے تو زیادہ قریب نہیں مگر طاقت کے مراکز کے اردگرد ہی پائی جاتی ہے۔ 
طاقت و حکومت کی خواہش ہر سیاسی جماعت کا ابدی حق ہے جسے کبھی ساقط نہیں کیا جاسکتا۔سیاسی جماعتوں کو یہ بھی حق ہے کہ خود کو دوسروںسے بہتر ثابت کرنے کے لیے میڈیا کا بے دریغ استعمال کریں، لیکن عدالتوں میں قانونی پیچیدگیوں کو استعمال کرکے اپنے حریفوں کو ایک خاص وقت اور خاص معاملے میں کچھ عرصے کے لیے الجھا کر بے اثر کردینا سیاست نہیں بے ایمانی ہے۔ ناپسندیدہ سہی مگر حقیقت یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اس طرح کی بے ایمانی کو عین سیاست سمجھ کر روا رکھتی ہیں اس ماحول میں عدالتوں سے بجا طور پر یہ توقع رکھنی چاہیے کہ وہ اس طرح کی کوششوں کو شائستگی سے ایک آدھ پیشی میں ہی ناکام بنا دیں گی۔اگر کوئی منصف بلا وجہ چند بڑے لوگوں کو اپنے سامنے کھڑا کرکے تقریر کرنے کے نشے میں مبتلا ہوجائے تو اس سے اوپر والی کرسی پر بیٹھنے والے کا فرض بنتا ہے کہ اس کو سمجھا بجھا کر راہِ راست پر رکھنے کی کوشش کرے۔ بے شک ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ پاکستان کی نچلی ترین عدالت ملک کے طاقتور ترین شخص کو سزا دے دے اور پورا معاشرہ عدالت کی طاقت بن جائے، مگر یہ کام کہیں سے تو شروع ہونا ہے ، کسی نہ کسی کو تو کرنا ہے ، اگر ایسا ہے تو پھر حج کرپشن کیس سے اچھا آغاز کبھی نہیں مل سکتا۔ 
حامد سعید کاظمی کی بریت کے فیصلے کے بعد جو سوال قانون پسند شہریوں کے دل ودماغ میں اٹھتے ہیں ان کے جواب کہیں اور سے نہیں صرف عدالت سے ہی مل سکتے ہیں۔ مثلاًپہلا سوال یہ کہ اگر سابق وفاقی وزیر اور ان کے ماتحت افسران نے کچھ نہیں کیا تھا تو پھر دوہزار دس میں حاجیوں کی مشکلات کا باعث کون تھا؟ دوسراسوال یہ کہ کیا حاجی واقعی مشکلات کا شکار ہوئے بھی تھے یا مسلم لیگ ن کے رکنِ قومی اسمبلی بلال یٰسین اوراس وقت جمعیت علماء اسلام ف سے تعلق رکھنے والے سینیٹر اعظم سواتی نے اپنی پارلیمانی حیثیت استعمال کرتے ہوئے جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے ایک سیاسی حریف کو قانون کی ٹکٹکی پر باندھ دیا تھا؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ غزالی دوراں کہلانے والے احمد سعید کاظمی ؒ کا بیٹا ہونے کے ناتے حامد سعید کی سب سے بڑی سزا تو یہی تھی کہ ان پر مالی بدعنوانی کا الزام لگا ا س کے علاوہ وزارت کا منصب چھینا گیا اور ایک مجرم کے طور پر جیل بھیجا گیا تو کیا اب ان کی بریت کے بعد ہمارا نظامِ انصاف کسی ازخود نوٹس کے ذریعے بلال یٰسین اور اعظم سواتی کو کٹہرے میں کھڑا کرکے ان کے خلاف کوئی کارروائی کرے گا؟ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک رجائیت پسند شہری ہونے کے ناتے مجھے سو فیصد یقین ہے کہ آج نہیں تو کل ہماری عدالتیں ان سوالات کا جواب تلاش کریں گی۔ مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اکثر شہری میرے جتنے رجائیت پسند نہیں ، وہ یہی سمجھتے ہیں کہ حج کرپشن کیس ایک بھولی بسری داستان بن جائے گی، حامد سعید کاظمی ساری عمر وضاحتیں دیتے رہیں گے ، بلال یٰسین اور اعظم سواتی ایسے اس معاشرے میں سیاسی ضروریات کے مطابق مذہب اور قانون کو اپنے استعمال میں لاتے رہیں گے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ عرب شہزادوں کے خط بھی ہمارے قانونی نظام میں کوئی مستقل اہمیت اختیار کرجائیں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved