تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     23-03-2017

ایثار

مگر وہ لوگ ، جو حجاب کا شکار ہیں ۔ کہا یہ گیا ہے کہ علم حجابِ اکبر ہے ۔ عقل راہ دکھاتی ہے مگر گمراہ بھی وہی کرتی ہے ۔
ڈاکٹر امجد ثاقب سے میں نے نذیر وٹو کے بارے میں پوچھا: کیا اس سے ملاقات ممکن ہے ؟ ''کیوں نہیں ،جس دن آپ لاہور آئیں گے ، یہاں انہیں مدعو کریں گے ۔‘‘انہوں نے کہا۔ فیصل آباد میں عوامی بہبود کا بیڑا اٹھانے والے آدمی کی تعلیم کے بارے میں سوال کیا توبولے: ان پڑھ ہے ، میٹرک بھی پاس نہ کر سکا۔ جیساکہ منگل کو چھپنے والے اپنے کالم میں انہوں نے لکھا تھا: زندگی کا بھید اس نے پا لیاہے ۔ ڈاکٹر صاحب بھی غضب کرتے ہیں ۔ آٹھ نو سال کی تعلیم کو وہ تعلیم ہی نہیں گردانتے ۔ حرف شناسی اگر ہو چکے تو پھر یہ آدمی پر ہوتاہے ۔ چاہے تو سیکھتا رہے ۔ کتنے ہی گریجویٹ ہیں ، کتنے ہی اساتذہ ہیں ، کتاب سے جو لا تعلق ہو جاتے ہیں ۔ کتنے ہی کم تعلیم یافتہ ہیں ، جو علم کی محبت پاتے اور غور و فکر کو شعار کرتے ہیں ۔ اہلِ علم کی صحبت اختیار کرتے ہیں ؛حتیٰ کہ معمور ہونے لگتے ہیں ۔ علم کی اگرچہ کوئی حد نہیں ۔ وقت گزرنے کے ساتھ پیاس بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ علم و عقل وہ خزانے ہیں کہ صرف کرو تو بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔ ''سیکھ لینے کی مسرت‘‘ درویش نے کہاتھا '' عظیم ترین مسرت ہے ‘‘ ۔ پھر انہیں مطلع کیا کہ باقاعدہ طور پر یہ ناچیز بھی صرف میٹرک پاس ہے ۔ 
خیر یہ ایک الگ موضوع ہے ۔ حصولِ علم، اس کے قرینے، انداز اور ترجیحات۔ الگ سے یہ ریاضت چاہتا ہے ۔ کالم لکھنے کا ارادہ آج نہیں تھا۔ سات دن سے پیہم لکھ رہا
ہوں۔ دل اوب جاتا ہے ۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کی تحریر پڑھی تو چنگاری سی بھڑک اٹھی ۔ ''اداس نسلیں ‘‘ کے مصنف عبد اللہ حسین نے لکھا ہے: صبح سویرے ، نم آلود دھرتی میں ہل کی نوک اترنے کا دل گداز منظر۔ کوئی جملہ، کوئی منظر، کوئی خیال ذہن کو تحریک دیتا ہے ۔ ایک عشرہ ہوتاہے ، نسبتاً ایک جواں سال کالم نگار نے مشورہ دیا: انٹر نیٹ برتنے کی عادت ڈالیے ۔ ایک وقت آئے گا کہ یادداشت کے بل پہ آپ لکھ نہ سکیں گے ۔ جہاں ضروری ہو ، انٹر نیٹ یقینا استعمال کرنا چاہیے۔ ایک لمحے کو مگر میں نے سوچا : قدیم لوگ کیسے لکھا کرتے ؟میرؔ ، غالبؔ ، اقبالؔ ، محمد حسین آزاد، منشی پریم چند، کرشن چندر ، منٹو، غلام عباس اور فیض احمد فیض ؔ ۔ اللہ انہیں زندگی دے ،احمد مشتاق ۔ ذہن کی جس طرح تربیت کر لی جائے، اسی کا وہ عادی ہو جاتاہے ۔ بہت پہلے یہ نکتہ ایک صاحبِ ادراک کے ساتھ گفتگو میں روشن ہوا تھا، جن کی غیر معمولی یادداشت حیرت زدہ کر تی ہے ۔ 
آدمی اپنی راہ کیسے چنتے اور اپنی ترجیحات کیسے طے کرتے ہیں ؟ جتنا یہ سوال اہم ہے ، اتنا ہی کم اس پہ غور کیا جاتاہے ۔ حکیم سعید اور ڈاکٹر حمید ایسے بے لوث کس طرح ابھرتے ہیں ، نذیر وٹو جن سے متاثر ہوا ۔ عبد الستار ایدھی ، ادیب رضوی اور ڈاکٹر امجد ایسے لوگ ایثار کی زندگی اختیار کرتے اور ایک آسودگی کے ساتھ عمر بھر اس پہ چلتے چلے جاتے ہیں ۔ اس انبوہ کے درمیان ، بچّوں کی طرح جوکھلونوں میں بسر کرتاہے ، مکان ، گاڑی ، عہدہ ، اقتدار، شہرت، لباس، کھانا ، پذیرائی اور سہولت۔ ''ما الحیاۃ الدنیا الا متاع الغرور‘‘ قرآنِ کریم کہتاہے ۔ دنیا کی زندگی محض ایک فریب ہے ، فریبِ نفس۔ عجیب بات یہ ہے کہ واعظ اس نکتے پہ زور نہیں دیتے ۔ زور کیا دیں ، اکثر ان میں سے ادراک ہی نہیں رکھتے ۔ عبادات پر، فقہی مسائل پر اور جہاں تک ہو سکے ، اپنے مسلک کی بالاتری پہ اصرار کرتے ہیں ۔ سیدنا علی ابن ابی طالبؓ، جن کے د ور میں خطیبوں کے ٹولے اوّل اوّل نمودار ہوئے ، خطرے کو سمجھتے تھے کہ منبر پہ کم علم اگر سوار ہوئے تو کیا ہوگا۔ پھر امت علم کی عظمت سے نا آشنا ، اقتدار کے بھوکوں کی زد میں آگئی۔ پھر کبھی کبھی کوئی استثنیٰ 
ابھرا۔ عمر بن عبد العزیز ، صحابی نہ ہونے کے باوجود ، جنہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہاجاتاہے ، صلاح الدین ایوبی اور ٹیپو سلطان۔ ان تینوں عظیم ہستیوں کا مشترکہ وصف یہ ہے کہ حصولِ علم میں لگے رہتے ، کاروبارِ حکومت کی کچل دینے والی مصروفیات کے باوجود۔ ٹیپو نے تخت سنبھالا اور تقریب کے لیے تلاوت کی گئی تو آنسو اس کے چہرے سے گرتے ہوئے جبّے میں جذب ہو رہے تھے ۔ 
علم سے محبت کے ساتھ ایثار اہلِ ایمان کی دوسری مشترک خصوصیت ہے ۔ ایثا رکی لذت سے جو بیگانہ رہا، ایمان کی لذت سے بھی آشنا نہ ہوا ۔ آدمی کی سب سے طاقتور جبلت بقا ہے ۔ قرآنِ کریم میں ہے : تمام زندگیوں کو ہم نے بخلِ جان پر جمع کیا۔ ایمان اور بالیدگی کا تقاضا یہ ہے کہ جبلتوں کے سامنے سپر ڈالنے کی بجائے، آدمی ان سے برسرِ جنگ ہو ۔ ایک مہذب اور غیر مہذب آدمی کا امتیاز یہی ہوتاہے ۔ ایک صوفی اور عالم کا بھی؛اگرچہ ایسے دانا موجود ہیں ، جو کہتے ہیں کہ تصوف ایک الگ مذہب ہے ۔ اختلاف کا حق بجا،خواجہ حسن بصریؒ، جنیدِ بغدادؒ، امام شاذلیؒ، داتا گنج بخشؒ ، شیخ عبد القادر جیلانیؒ ، خواجہ معین الدین چشتیؒ ، خواجہ نظام الدین اولیاؒ او رخواجہ مہر علی شاہؒ کیا کسی الگ مذہب کے پیروکار تھے ؟ فقر انہوں نے اختیار کیا ، ایثار کو شیوہ کر لیا اور فروغِ علم کو ۔ انہی کے ہاتھ پر قبائلی ایمان لائے ، مولویوں کے نہیں ۔ 
قرآنِ کریم کی پہلی آیت ایثا رکو ہدایت پانے کی شرط قرار دیتی ہے : یہ ہے وہ کتاب ، جس میں کوئی شک نہیں ۔ ہدایت ہے ان اہلِ تقویٰ کے لیے ، جو غیب پر ایمان لاتے ، نماز پڑھتے اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے ، اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ مومن کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے، کتاب کہتی ہے ، غصہ پی جانے والے ، نرم خو اور وہ ، تنگ دستی میں بھی جو ایثار کرتے ہیں ۔ جاہلوں سے کبھی الجھتے نہیں ، پہلو بچا کر نکل جاتے ہیں ۔
نذیر وٹو کی کہانی میں ایک اور سبق بھی ہے ، ڈاکٹر امجد ثاقب نے جس کا ذکر کیا ۔ حکمرانوں پر انحصار کا نتیجہ بربادی ہے ۔ زیادہ تروہ حکم چلاتے ،اپنی انا پالتے ، من مانی کرنے والے خود غرض لوگ ہوتے ہیں ۔ احساسِ جرم کا شکار، علم سے تہی او ر کھوکھلے۔ معلوم نہیں ، ہم انہیں غیر معمولی کیوں سمجھ لیتے ہیں ۔ ہمارے لیے وہ قدرت کی سزا ہوتے ہیں ، بے علم اور بے حس قوموں کے لیے ۔ ان سے دریوزہ گری کرنے والے سیاست کار اور دانشور اور بھی بدتر ہیں ۔ یقین اور توکل سے خالی ۔ مقدر لکھا ہوا ہے '' زمین پر کوئی ذی روح ایسا نہیں ، جس کارزق اللہ کے ذمے نہ ہو ‘‘ ہاتھ پھیلانے کا مطلب ؟ 
جو قوت ایثار میں ہے ، کسی چیز میں نہیں ۔ بالکل اسی طرح حیات کو جو تازگی اور تابندگی علم سے حاصل ہوتی ہے ، اور کسی طرح مل نہیں سکتی ۔ وقتی طور پر ہی کوئی ایثار کیش تنگ دست ہو سکتاہے ۔ عام طور پر دوسروں سے زیادہ خوشحال۔ ایک طرح کا وہ ادنیٰ شہید ہے ۔ شہید اپنی جان نذر کرتاہے ، سب سے قیمتی متاع۔ ایثار کرنے والااپنی دولت لٹاتا ہے ، بقا کی جبلت سے برسرِ جنگ، اپنے آپ کو وہ فتح کر لیتا ہے ۔ ارب پتی ہونا افضل ہے یا ایدھی، ادیب رضوی اور امجد ثاقب ہونا؟مولویوں کے نہیں ہوتے ، صوفیوں کے دستر خوان ہوتے ہیں ۔ ان کی موت کے بعد بھی باقی رہتے ہیں ۔ 
خواجہ مہر علی شاہ ؒپھر یاد آئے : قرآن کی آیت کا مفہوم ان سے پوچھا گیا: اللہ کو یاد کرو ، وہ تمہیں یاد کرے گا ۔ پوچھا گیا : اللہ کیسے یاد کرے گا؟ فرمایا: کیا ان قبروں کو نہیں دیکھتے ، خلق جن کی طرف لپکی چلی جاتی ہے ۔ کراچی میں عبد اللہ شاہ غازی ؒ کا ، گولڑہ میں خواجہؒ کا اور لاہور میں داتاؒ کا دستر خوان بچھا ہے ۔ 
مگر وہ لوگ ، جو حجاب کا شکار ہیں ۔ کہا یہ گیا ہے کہ علم حجابِ اکبر ہے ۔ عقل راہ دکھاتی ہے مگر گمراہ بھی وہی کرتی ہے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved