تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     23-03-2017

’’پاکستان کی اپنی مُہر‘‘

وزیر اعظم نواز شریف کا یہ دوسرا دور تھا‘ جب اٹل بہاری واجپائی کا ہیلی کاپٹر اقبال پارک لاہور کے سبزہ زار میں اترا۔ بھارتی وزیر اعظم نے مینارِ پاکستان پر نگاہ ڈالی اور اس کی رفعتوں کا جائزہ لینے کے لیے انہیں اپنی گردن بہت اوپر تک اٹھانا پڑی۔ انہوں نے مینار کا چکر لگایا اور پھر کتاب پر اپنے تاثرات قلم بند کرنے کے لیے رک گئے‘ جسے عین اس جگہ پر رکھا گیا تھا جہاں 23 مارچ 1940ء کو قائد اعظم نے کھڑے ہو کر مسلمانانِ ہند کے لیے علیحدہ مسلم ریاست کے قیام کی جدوجہد کا اعلان کیا تھا۔ یہیں تاریخی اور تاریخ ساز ''قراردادِ لاہور‘‘ منظور ہوئی تھی‘ اور یہ ہندو پریس تھا جس نے عالمِ غیظ و غضب میں اسے ''قراردادِ پاکستان‘‘ کا نام دے دیا تھا۔
اب 59 برس بعد بھارتی وزیر اعظم اسی تاریخی مقام پر سر جھکائے لکھ رہے تھے‘ ''اس تاریخی مینارِ پاکستان پر‘ میں پاکستانی عوام کے لیے امن اور دوستی کی خواہش لے کر آیا ہوں۔ مستحکم‘ مضبوط اور خوشحال پاکستان۔ جس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے؟‘‘ 
پاکستان روئے ارض پر ریاستِ مدینہ کے بعد دوسری ریاست تھی‘ جو نظریۂ اسلام کی بنیاد پر وجود میں آئی۔ مسلمانانِ ہند نسلی‘ لسانی اور علاقائی قومیت کے تصور سے انکار کرکے نظریاتی قومیت کی بنیاد پر اپنے لیے ایک الگ خطۂ زمین کے حصول کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ اقبالؒ نے قومیت کے مغربی تصورات کو مسترد کر تے ہوئے کہا ؎
اپنی ملت پر قیاس اقوامِِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ
قائد اعظم نے اپنے خطابات میں‘ مکاتیب میں اور اپنے بیانات میں متعدد بار کہا اور صاف صاف کہا کہ پاکستان اسلامی نظام کی تجربہ گاہ ہو گا جہاں مسلمان اپنے عقائد و نظریات‘ اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنی رسوم و روایات کے مطابق اپنی زندگیاں بسر کر سکیں گے اور یہی وہ اعلیٰ و ارفع مقصد تھا جس کے لیے برصغیر میں مسلم اقلیتی علاقوں کے مسلمانوں نے‘ مسلم اکثریتی علاقوں کے مسلمانوں سے بھی کہیں زیادہ قربانیاں دیں‘ حالانکہ وہ جانتے تھے کہ قیامِ پاکستان کے بعد بھی ان کے علاقے تو ہندوستان ہی میں رہیں گے‘ اور دشمن ان سے تحریکِ پاکستان کی حمایت کے ''جرم‘‘ کا گن گن کر بدلہ لے گا۔
بالآخر کانگریس کو تقسیم برصغیر کا فارمولا تسلیم کرنا پڑا‘ لیکن بوجھل دل کے ساتھ۔ ہندو اسے ''گئو ماتا‘‘ کی تقسیم قرار دیتے۔ کانگریس نے تقسیم کے بعد بھی‘ اپنی قرارداد میں ''اکھنڈ بھارت‘‘ کے لیے جدوجہد کے عزم کا واشگاف اظہار کیا تھا۔ کانگریسی قیادت اس خوش فہمی کا شکار تھی‘ اور اسے اس کے اظہار میں بھی عار نہ ہوتی کہ پاکستان بس پانچ‘ سات ماہ چلے گا اور اس کے بعد مسلمان خود ہاتھ جوڑ کر ''اکھنڈ بھارت‘‘ میں واپسی کے لیے درخواست گزار ہوں گے۔ حساب کتاب کے ماہر بنیے کو یہ نوزائدہ مملکت اقتصادی لحاظ سے کسی طور ''وائبل‘‘ نظر نہ آتی۔ بظاہر یہ حساب کتاب کچھ غلط بھی نہ تھا۔ برصغیر کی تقریباً تمام بڑی انڈسٹری ہندوستان کے حصے میں آ گئی تھی اور پاکستان کے حصے میں لاکھوں بے کس و بے بس مسلمانوں کا سیلاب آیا۔ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت۔ لٹے پٹے اور کٹے پھٹے انسانوں کا سیلاب۔ قائد اعظم والٹن (لاہور) میں مہاجر کیمپ کے دورے پر آئے تو اپنے تمام زخم‘ سارے کرب اور سبھی الم بھول کر قائد اعظم‘ قائد اعظم پکارنے والوں میں وہ خاتون بھی تھی جس کا تمام خاندان پاک سرزمین کی طرف ہجرت کے دوران تہ تیغ کر دیا گیا تھا۔ اب اس کی گود میں دونوں بازوئوں سے محروم شیر خوار بچہ تھا۔ وہ ایک ہاتھ سے اس بچے کو سنبھالتی اور دوسرا ہاتھ فضا میں بلند کرکے نعرہ لگاتی‘ قائد اعظم زندہ باد۔ مُسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے بانی صدر ڈاکٹر ضیاء الاسلام گاڑی چلا رہے تھے۔ ان کے بقول فولادی اعصاب کے حامل جناح بھی ان مناظر سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہے‘ ان کی آنکھیں بھیگ گئیں‘ حیرت کے عالم میں وہ کہہ رہے تھے۔
"They are still shouting Quaid-e-Azam Zinda bad"
ادھر حکومتِ ہند نے پاکستان کے حصے میں آئے ہوئے اثاثے بھی روک لیے‘ جس کے لیے گاندھی نے (دکھاوے کے طور پر) بھوک ہڑتال کر دی اور آر ایس ایس (بی جے پی کی مادر تنظیم) کے گوڈسے نامی انتہا پسند کارکن کے ہاتھوں مارے گئے۔
ان حوصلہ شکن حالات میں بھی نوزائدہ مملکت کا پُرعزم اور صاحبِ یقین قائدِ اعظم کہہ رہا تھا‘ ''پاکستان قائم رہنے کے لیے بنا ہے اور یہ انشاء اللہ قیامت تک قائم رہے گا‘‘۔ ہر آنے والا دن قائد کی پیش گوئی پر مہرِ تصدیق ثبت کرتا گیا۔ کائنات کے خالق نے اس مملکت کو زرخیز زمین‘ صحت مند اور باصلاحیت افرادی قوت بہار‘ خزاں‘ سرما و گرما‘ معدنیات سے بھرے پہاڑ‘ گرم پانی کے سمندر اور دریائوں سمیت ہر نعمت سے بڑی فراخی کے ساتھ نوازا تھا۔ مملکتِ خداداد کا آغاز اس عالم میں ہوا کہ سرکاری دفاتر میں ڈھنگ کا میز اور کرسی تک موجود نہ تھے اور کاغذ نتھی کرنے کے لیے پِن کا کام کیکر سے کانٹے سے لیا جاتا تھا لیکن جلد ہی یہ ملک تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن ہو گیا۔ آج کے ایشین ٹائیگر اس کی رفتار ترقی کو حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ ان میں سے بعض نے تو اس کے پنج سالہ منصوبے کو کاپی کیا‘ بعض کوتاہیاں‘ ناکامیاں اور خامیاں اپنی جگہ لیکن کیا یہ اپنی جگہ عظیم کارنامہ نہیں کہ آج یہ مملکت دنیا کی سات ایٹمی طاقتوں میں شمار ہوتی ہے۔ ایک عظیم سیاسی قائد کی زیر قیادت‘ ایک سیاسی جماعت اور ایک سیاسی عمل کے ذریعے وجود میں آنے والا پاکستان‘ ایک بار پھر جمہوریت کے راستے پر گامزن ہے۔
محمد علی جناح لندن کی گول میز کانفرنس کے سفر کے دوران قاہرہ میں رکے تو وفد پارٹی نے ان کے اعزاز میں استقبالیے کا اہتمام کیا۔ قائد اعظم فرما رہے تھے‘ ''تحریک پاکستان صرف برصغیر کے مسلمانوں کے حقوق کے لیے نہیں‘ پاکستان سارے مشرقِ وسطیٰ کو ہندو کی توسیع پسندی سے بچانے کے لیے ڈھال کا کام دے گا‘‘ اور اس میں کیا شک ہے کہ پاکستان‘ ہندوستان کی توسیع پسندی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستان نے جس طرح افغانستان میں سوویت توسیع پسندی کا راستہ روکا اور افغانوں کی سرزمین پر سوویت ریچھ کی ''بلیڈنگ‘‘ سوویت ایمپائر کی شکست و ریخت کا باعث بن گئی‘ جس کے نتیجے میں نہ صرف وسط ایشیا کی مسلمان ریاستیں آزاد ہوئیں بلکہ مشرقی یورپ نے بھی سوویت شکنجے سے نجات پائی‘ ابھی کل کی بات ہے۔ 
آغا شورش کاشمیری تحریکِ آزادی کے دوران سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی مجلس احرارِ اسلام سے وابستہ تھے۔ جوانی کے چودہ سال انگریز کی جیل میں کاٹ دیے۔ ان کی ڈیڑھ درجن سے زائد کتابوں میں ''بوئے گل‘ نالۂ دل‘ دُودِ چراغ محفل‘‘ ان کی سیاسی زندگی کی سرگزشت ہیں۔ مسلم لیگ کے مخالف ''نیشنلسٹ مسلمانوں‘‘ کی سیاست کا دیانتدارانہ تجزیہ کرتے ہوئے لکھا‘ برصغیر میں گم گشتہ ملتِ اسلامیہ کی بازیابی کا خواب اتنا طاقتور تھا کہ اس کے سامنے ابوالکلام کا تبحر‘ حسین احمد (مدنی) کا تقویٰ‘ عطاء اللہ شاہ بخاری کی خطابت اور علامہ مشرقی کی عسکریت کا ٹھہرنا ناممکن ہو گیا۔ ان سب کے چراغ کجلا گئے‘ قائد اعظم نے ان سب کو ہرا دیا‘‘۔ 1940ء سے 1947ء تک کی کشمکش کے حوالے سے برصغیر کے نامور خطیب اور ادیب نے لکھا‘ یہ زمانہ آزمائشوں سے اٹا ہوا اور مشکلوں میں گھرا ہوا تھا۔ ادھر ہندو حالات کے مقابلے کے لیے تیار کھڑے تھے‘ اُدھر مسلمان میدانِ رُستاخیز میں ڈٹے ہوئے تھے۔ دونوں قوموں کے درمیان ذہنی طور پر گھمسان کی جنگ ہو رہی تھی اور جسمانی طور پر بلا کا رن پڑنے والا تھا۔ انگریز کا ذہنی جھکائو کانگریس کی طرف تھا۔ لیگ میں ایک ہی شخصیت تھی اور وہ قائد اعظم تھے۔ مایوسیوں کا ایک طوفان‘ ایک زلزلہ اور ایک سیلاب چاروں طرف سے امڈ آیا تھا۔ لیکن قائد اعظم اس قدر مضبوط اعصاب کے انسان تھے کہ وہ ہر معرکے پر مورچے‘ ہر موڑ اور ہر محاذ پر ایک ہی نعرہ دے رہے تھے۔ پاکستان اور صرف پاکستان۔ انہوں نے نہ صرف اپنے اعصاب کے غیر متزلزل ہونے کا معجزانہ ثبوت دیا بلکہ مسلمانوں کی عصبیت کو اتنا مضبوط کر دیا کہ ان کے دل‘ دماغ اور زبان پر صرف دو الفاظ تھے۔ قائد اعظم اور پاکستان۔
مینارِ پاکستان سے واپسی پر واجپائی کا کہنا تھا‘ آج صبح جب یہ سوال اٹھا کہ مجھے مینار پاکستان جانا چاہیے یا نہیں‘ تو کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ میں وہاں گیا تو پاکستان پر میری مُہر لگ جائے گی (یعنی میں نے پاکستان کو تسلیم کر لیا)۔ میری وطن واپسی پر بھی یہ سوال کئے جائیں گے کہ مجھے مینار پاکستان جانے کی کیا ضرورت تھی؟ وہاں جانے سے پاکستان پر میری مہر لگ گئی۔ میں کہتا ہوں ‘ پاکستان میری مہر سے تو نہیں چلتا‘ اس کی اپنی مُہرہے اور وہ چل رہی ہے‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved