تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     23-03-2017

دہشت گردی کا سدباب

گزشتہ دنوں ملک کے مختلف حصوں میں یکے بعد دیگرے دہشت گردی اور خودکش حملوں کی آٹھ وارداتیں ہوئیں۔عوام حیرا ن اور پریشان ہیں کہ دہشت گردی کی اس لہر کے پیچھے کیا محرکات ہیں؟جبکہ دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ دہشت گردوں کے انفراسٹرکچر کو تباہ کر کے ان کی کمر توڑ دی گئی ہے۔ گزشتہ برس کے دوران میں دہشت گردی کے واقعات میں جو نمایاں کمی واقع ہوئی اس سے لوگوں نے بھی ان دعوئوں کو کسی حد تک سچ تسلیم کرنا شروع کر دیا تھا۔ اگرقائدین کے یہ دعوے سچے ہیں کہ دہشت گردوں کو پسپا کیا جا چکا ہے اور وہ اب کسی بڑے حملے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو لاہور ‘ پشاور اور سیہون شریف میں تباہی مچانے والے عناصر کون ہیں؟ اور کس کے ایماء پر یہ آگ اور خون کی ہولی کھیلی گئی؟ پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق دہشت گردی کی ان کارروائیوں کے پیچھے افغانستان میں مقیم دہشت گرد گروپ ہیں‘ جنہیں وہیں سے پاکستان میں مذموم کارروائیاں کرنے کے لیے ہدایات جاری کی جا رہی ہیں۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق جماعت الاحرارافغانستان کے صوبہ ننگر ہار میں اڈہ جمائے ہوئے ہے۔ اس جماعت کے ارکان2014ء میں تحریک طالبان پاکستان سے الگ ہوئے تھے ۔انتہا پسند دہشت گرد تنظیم''داعش‘‘ سے اس کا گہرا تعلق ہے۔ سیہون شریف میں زائرین کو نشانہ بنانے والے خودکش حملے کی ذمہ داری''داعش‘‘ نے قبول کی تھی۔ وزیر مملکت برائے امور داخلہ بلیغ الرحمن کے مطابق پشاور میں ججوں کو لے جانے والی وین پر خودکش حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) نے قبول کی۔ دہشت گردی کی ان کارروائیوں کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرحکومتی بیانات اور دعوئوں کو تسلیم بھی کر لیا جائے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے پیچھے ان تنظیموں کا ہاتھ ہے جنہوں نے پاکستان کی سرحد کے ساتھ افغان صوبوں میں اپنی پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں تو ملک میں دہشت گردی میں مقامی کالعدم تنظیموں کے ہاتھ کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ چند دنوں میں ملک کے چاروں صوبوں میں ایک کے بعد دوسرا دھماکہ کرنے کی صلاحیت ایسی تنظیموں کے پاس نہیں ہو سکتی جن کے اڈے ملک سے باہر ہوں۔ اس قسم کے سلسلہ وار اور مربوط دھماکے منظم منصوبہ بندی اور مقامی عناصر کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت گزشتہ دنوں کور کمانڈرز کی جو اہم کانفرنس جی ایچ کیو راولپنڈی میں ہوئی تھی اس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایسی کالعدم تنظیموں کے خلاف جو نام بدل کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں‘ سخت اقدام کیا جائے گا۔ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی سیاسی پارٹیوں اور رہنمائوںنے سینیٹ میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے سوال پر بحث کے دوران اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کیا تھا اور یہ واضح کیا تھا کہ جب تک تمام کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر نہیں رکھی جاتی ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی ممکن نہیں۔ دہشت گردی کے لیے پے درپے واقعات کا اگر قریب سے جائزہ لیا جائے تو اس کا ایک پہلو خاص طور پر نمایاں نظر آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس میں دہشت گردوں نے ریاستی اداروں کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا۔ ان ریاستی اداروں میں میڈیا‘ پولیس‘ فوج‘ ایف سی اور عدلیہ شامل ہیں۔ کراچی میں ایک نجی ٹی وی چینل کی وین پر حملہ کر کے میڈیا کو چپ کرانے کی کوشش کی گئی ۔ پشاور میں ججوں کی وین پر حملہ کرنے کا مقصد عدلیہ کو خوف زدہ کرنا تھا بلوچستان میں ایک فوجی قافلے کو سڑک کے کنارے نصب شدہ بم کے دھماکے سے نشانہ بنانے کا مقصد فوج کو ان کارروائیوں سے باز رکھنا تھا جو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف جاری ہیں ۔لاہور میں خودکش حملہ آور نے اپنی بارود سے بھری ہوئی جیکٹ ہجوم میں بلاسٹ نہیں کی بلکہ اس نے پولیس افسران کو نشانہ بنایا اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کا اصل نشانہ ریاست اور اس کے ادارے
تھے، جنہیں کمزور کر کے دہشت گرد اپنے ایجنڈے پر عملدرآمد کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ دہشت گردوں کی طرف سے یہ ملک گیر کارروائیاں اس وقت کی گئیں جب سیاسی اور عسکری قیادت فوجی عدالتوں کی بحالی کے لیے باہمی مشاورت میں مصروف تھی۔ دہشت گردوں کا ان کارروائیوں کے ذریعے ایک مقصد حکومت اور فوج کو یہ پیغام پہنچانا بھی ہو سکتا ہے کہ اگر فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا تو دہشت گردوں کی طرف سے سخت ردعمل ہو سکتا ہے۔ یہ صورت حال مشرف دور میں فوج ‘ آئی ایس آئی اور پولیس پر دہشت گردوں کے ان تباہ کن حملوں سے ملتی جلتی ہے‘ جب بیرونی دبائو کے تحت جنرل مشرف نے فرقہ وارانہ دہشت گردی میں ملوث تنظیموں کے ساتھ جہادی تنظیموں پر بھی پابندی عائد کر دی تھی۔ دہشت گردوں کی یہ اچانک اور مربوط کارروائیاں حکومت کی طرف سے کالعدم لیکن فعال تنظیموں پر سختی سے پابندی عائد کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہونے کے خلاف ردعمل بھی ہو سکتا ہے ۔ خود وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ دہشت گردوں کی طرف سے یہ حملے‘ حکومت کی جانب سے حال ہی میں چند اقدامات کرنے کے جواب میں کئے گئے ۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ ماضی میں جب کبھی امریکہ کی طرف سے پاکستان پر قبائلی علاقوں میں ملکی اور
غیر ملکی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے دبائو ڈالا جاتا تھا‘ تو دہشت گرد فوج ‘ پولیس اور شہریوں کے خلاف اپنے حملے تیز کر دیتے تھے۔ دہشت گردی کے گزشتہ ماہ کے واقعات بھی حکومت کی طرف سے کیے گئے اقدامات کے خلاف ردِعمل ہو سکتے ہیں۔ جن کا مقصد حکومت کو دہشت گردوں کے خلاف مزید اور پہلے کے مقابلے میں زیادہ سخت اقدامات کرنے سے باز رکھنا ہے لیکن جیسا کہ وزیر اعظم اور چیف آف دی آرمی سٹاف کے بیانات میں صاف صاف بتا دیا گیا کہ حکومت اور اس کے تمام ادارے دہشت گردوں‘ ان کے سہولت کاروں اور مالی امداد کرنے والوں کے خلاف بھر پور اور فیصلہ کن اقدامات کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ دہشت گردی کے اکا دُکا واقعات نہ تو قوم کے حوصلے کو پست کر سکتے ہیں اور نہ ہی حکومت کے مصمم ارادوں کو متزلزل کر سکتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ علاقائی اور عالمی سطح پر تیزی سے بدلتی ہوئی صور تحال میں ایک مثبت کردار ادا کرنے اور اپنے عوام کو ترقی اور خوشحالی سے ہمکنار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں امن ہو۔ روس اور چین بھی ‘جو کہ وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز کے مطابق اس خطے کی قسمت بدلنے میں اہم کردار ادا کرنے والے ہیں‘ جنوبی ایشیا میں امن استحکام اور سلامتی کے خواہشمند ہیں۔ دنیا کے تین اہم خطوں یعنی جنوبی ‘ مغربی اور وسطی ایشیا کے سنگھم پرواقع ہونے کی وجہ سے پاکستان کا کردار اس مقصد کے حصول کے لیے کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved