کوئٹہ میں جمعیت علمائے اسلام کے علماء کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن فرماتے ہیں '' ردالفساد آپریشن کرنے والے دھبوں کو دور کرنے کی باتیں تو کررہے ہیں لیکن جس کیچڑ سے یہ دھبے لگتے ہیں اس کی جانب توجہ دینے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔ مولانا فضل الرحمان نے سوال کیا کہ جب بھی میں کیچڑ اور اس سے لگنے والے دھبوں کی بات کرتا ہوں تو اسٹیبلشمنٹ الٹا ان کا مذاق اڑانا شروع کر دیتی ہے۔ میں کہتا ہوں وہ صرف یہ بتادے کہ ہمیں یہ بندوق کس نے تھمائی تھی؟‘‘۔
یہ صرف مولانا پر ہی موقوف نہیں میڈیا اور سوشل میڈیا پر براجمان ہمارے لبرل دانشور یہی تازیانے برساتے دکھائی دیتے ہیں کہ امریکہ اور مغرب کی روس کے خلاف سرد جنگ کو افغان جہاد کے آتش فشاں کے نام سے پاکستان کے اندر کیوں لایا گیا ؟ ۔ کبھی موقع ملے تو1980 کے بعد کے ملکی اخبارات کی شہہ سرخیوں پر ایک نظر ضرور ڈالئے۔۔۔ہرطبقہ فکر کے علماء کی ایک ہی آواز ابھر رہی تھی'' روسی کمیونزم کے خلاف جہاد ہر مسلمان پر فرض ہو چکا ہے اور ہمیں لاکھوں کی تعداد میں پاکستان پہنچنے والے افغان مہاجرین کو انصار مدینہ کی طرح گلے لگاناہوگا۔ تسلیم کر لیتے ہیں کہ ہماری فوج افغان جہاد کے بعد ان تربیت یافتہ مجاہدین کو کشمیری بھائیوں کی مدد کرتے ہوئے ان کی جدو جہد آزادی کیلئے استعمال کرنا چاہتی تھی۔تو اس عمل کو سنگین اور ناقابل معافی جرم کیوں بنایادیا گیا ہے؟۔ کیا مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کی مدد کرنے کیلئے بھارت نے مکتی باہنی کی شکل میں اپنی ہی فوج کے لوگ مشرقی پاکستان نہیں بھیجے؟۔ اگر بنگالی پاکستان کے خلاف کھڑے ہو ئے تھے تو یہاں بھی تو کشمیری بھارتی ظلم و جبرکے خلاف کھڑے ہورہے تھے،لانا فضل الرحمن اور این جی اوزدہ لوگوں کا الزام ہے کہ ہماری فوج نے امریکہ کی جنگ لڑتے ہوئے افغان جہاد کیوں شروع کرایا؟ ہمارے مدرسوںکے بچوں کو جنگ میں شامل کیوں کیا؟۔ اس قسم کے سوالات کا جواب آج انتہائی ضروری ہو چکا ہے کیونکہ افغان جہاد کے نام سے سوشل میڈیا پر اپنے ہی عسکری اداروں کو نشانے پر لینے کی روایت بڑھتی جا رہی ہے۔۔۔ صرف ایک بات آج کی نئی اور جوان نسل کیلئے جاننا ضروری ہے کہ اگر ہم افغان جہاد میں امریکہ اور مغرب کے ساتھ شامل نہ ہوتے تو آج ہم ناقابل تسخیر ایٹمی قوت نہ بنتے ۔ابھی کل ہی آپ نے بھارت کی پاکستان کو دی جانے والی وہ ننگی دھمکی سن لی ہو گی'' بھارت پاکستان پر ایٹمی حملے میں پہل کرے گا‘‘۔ یاد رکھئے گا اگر ہم ایٹمی قوت نہ بنتے تو راجیو گاندھی سے لے کر واجپائی اور پھر نریندر مودی کی ایٹمی میزائلوں سے لیس فوج اور نفرت سے بھری ہند و قوم ہمیں کب کا کچا چبا چکی ہوتی؟۔ہماری نوجوان نسل کے ذہنوں میں لبرل طبقہ اعلیٰ
یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور بھارت نواز ایک گروہ کی جانب سے یہ سوچ راسخ کی جا رہی ہے کہ ' ' افغان جہاد اور پاکستان کی فوج ہی تمام خرابیوں کی جڑ ہے نہ وہ رو س کے خلاف امریکی آلہ کار بنتے اور نہ ہی پاکستان میں یہ جہادی کلچر عام ہوتا جس کی آج پورا ملک سزا بھگت رہا ہے؟۔ نئی نسل شائد نہیں جانتی کہ روس، پنڈت نہرو
کی کانگریس اور سرحدی گاندھی خان غفار خان نے کے پی کے میں جولائی1947 میں پوری کوشش کی تھی کہ صوبہ سرحد کا پاکستان کی بجائے بھارت سے الحاق ہو جائے ۔۔۔لیکن قائد اعظم ؒکی قیا دت اور سرحد کے غیرت مند پٹھانوں کے جذبہ ایمانی نے کل ووٹوں کا 99.02 فیصد پاکستان کے حق میں دیتے ہوئے 2,89,244 ووٹوں سے پندٹ نہرو اور سرحدی گاندھی غفار خان کو عبرت ناک شکست دی‘جسے خان ولی خان اور بلور خاندان آج تک نہیں بھول سکا جب پاکستان قائم ہو گیا تو روس اور بھارت نے ایک طرف افغانستان کو نئی پاکستانی حکومت کو تسلیم کرنے سے روکا تو دوسری جانب غفار خان اور بلوچ سرداروں کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے پختونستان اور آزاد بلوچستان کے جھنڈے لہراتے ہوئے مسلح بغاوت شروع کرا دی۔ روس45 برس تک بلوچ سرداروں کے ذریعے افغانستان کی مدد سے یکے بعد دیگرے مسلح بغاوتیں کراتا رہا سرد جنگ کے ذریعے روس کی پوری کوشش رہی کہ کسی طرح گرم پانیوں کیلئے بحیرہ عرب تک پہنچ سکے یاوہاں پر اپنی مرضی کی حکومت قائم کرلے ۔۔۔اب کیچڑ اور دھبوں کے ذکر سے فوج کا تمسخر اڑانے والے وجہ الفساد کے تیر برسانے والے سنجیدگی سے سوچیںکہ روس کے افغانستان پر قبضے کے بعد بے شک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا مقصد روس کو '' کٹ ٹو سائز‘‘ کرنا تھا تو پاکستان کی فوج کا مقصد بھی روس سے بنگلہ دیش کا بدلینا تھا۔۔۔ روسی فوج کو بحیرہ عرب تک پہنچنے سے روکنا تھا۔۔۔ کسی بھی وقت بھارت کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے امریکہ اور مغربی ممالک سے جدید اسلحہ لینا تھا اور سب سے بڑھ کر امریکہ اور مغرب کی نفرت آمیز نظروں اور نیتوں کو اپنے ایٹمی پروگرام سے دور رکھنا تھا ‘یہ سب کام پاکستان اکیلا کر ہی نہیں کر سکتا تھا ۔اگر کبھی خفیہ فائلوں پر نظر پڑے تو یہ دیکھ کر آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی کہ پاکستان کے اندر سے ' ترقی پسند اور لبرل قوتیں‘‘ روس کی مدد کو تیار ہو چکی تھیں اس کیلئے ولی خان کی دھمکی کو سامنے رکھ لیں '' روس جلال آباد تک پہنچ چکا ہے ہم پختونوں کی ایک آواز پر اٹک تک پہنچ جائے گا‘‘۔
ترقی پسند دانشوراپنے کالموں، تجزیوں اور سوشل میڈیا پر ردالفساد پرجو بھی کہہ رہے ہیں سر آنکھوں پر ‘روس کے خلاف اس افغان جہاد کو جو چاہے نام دے لیں لیکن اسی افغان جہاد کی آڑ میں پاکستان نیو کلیئر اور ایٹمی قوت بننے میں کامیاب ہو ا ۔۔۔اور یہی وہ جان لیوا دکھ ہے جو ہمارے دشمنوں کو ہر وقت بے چین کئے رکھتا ہے ۔ اس افغان جہاد کوختم ہوئے 28 سے زائد برس گزر چکے ہیں تو قلعوں کی طرح جگہ جگہ امریکی اور عرب سرمائے سے کھمبیوں کی طرح اُگے ہوئے مدرسوں کے علماء ایک دوسرے کے فرقے کو کافر اور واجب القتل کیوں قرار دے رہے ہیں؟۔