تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     24-03-2017

خواب بننے نہیں پاتا کہ بکھر جاتا ہے

سپنا ایک بات ہے، اس کے مطالبات کو سمجھنا اور بروئے کار لانا بلکہ دوسری۔ اب تک یہی ہوتا آتا ہے کہ: ؎
حسرتیں دل کی مجسم نہیں ہونے پاتیں
خواب بننے نہیں پاتا کہ بکھر جاتا ہے
ایسا کیوں ہوتا آ رہاہے؟آدمی کی عقل مددگار نہیں رہتی ‘ کسی جذبے سے اگر وہ مغلوب ہو جائے ۔ جذبات کا وظیفہ حرکت پیدا کرنا ہے۔ اس کے بعد منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ حقائق ‘کا ادراک کرنے کی۔ معلوم نہیں یہ زمینی حقائق کی اصطلاح کہاں سے آئی ہے‘ سچائی تو بس سچائی ہوتی ہے۔ ہوش مندی سے اگر اس کا ادراک کیا جائے‘ مشاورت کی جائے اور ضرورت پڑے تو اہل عالم سے‘ مواقع پر ماہرین سے رہنمائی لی جائے تو سرخروئی لازماً نصیب ہو گی۔
مولانا حالی کو ایک واعظ سمجھ لیا گیا۔ سنجیدگی سے ان کا مطالعہ کم ہوا۔ اپنے عہد کو انہوں نے سمجھنے کی کوشش کی اور اپنی قوم کے لیے ایک لائحہ عمل مرتب کرنے کی بھی۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ زندگی فانی ہے اور کوئی بھروسہ اس کا نہیں‘‘۔ ''ہر سانس کو آنی جانی سمجھو‘‘۔ پھر اس پر اضافہ کرتے ہیں ؎
جب کرو آغاز کوئی کام بڑا
ہر سانس کو عمرِ جاودانی سمجھو
کسی عظیم اور بالاتر مقصد سے‘ جب آدمی وابستہ ہو جاتا ہے تو ترجیح منزل مراد ہوتی ہے‘ ذاتی زندگی اس کا ایندھن بن جائے تبھی تابناک ہوتی ہے۔ فارسی کے شاعر نے کہا تھا:
حاصلِ عمر نثار رہ یارے کردم
شادم از زندگی خویش کہ کارے کردم
اپنی زندگی کا حاصل‘ میں نے رہِ یار کی نذر کر ڈالا۔ شاد ہوں کہ ایک کارِ عظیم سرانجام دیا۔
قائد اعظم‘ اسی بے مثال لیڈر نے‘ پاکستان کے قیام کو کس طرح ممکن بنایا؟ ۔ اس سوال کے جواب پر‘ ان کے وطن کو بلند و بالا کرنے کی حکمت عملی کا انحصار ہو گا۔ اس مبارک اور ثمر خیز زندگی کا مطالعہ کرتے ہوئے‘ پہلا احساس یہ ہوتا ہے کہ مقصد ہی نہیںبلکہ‘ اپنی راہِ عمل میں بھی وہ بالکل واضح تھے۔ ان کا ہدف مسلم برصغیر کوادبار سے نجات دلانا تھا۔ مسلم برصغیر کی شناخت اور اس کے مفادات کی حفاظت ۔ اول ہندو مسلم اتحاد کا راستہ انہوں نے چنا۔ بنیادی مسئلہ انگریز کی غلامی سے نجات تھا۔ ایسے خلوص اور جانفشانی سے‘ اس میدان میں ریاضت کی کہ ''ہندو مسلم اتحاد‘‘ کے سفیر کہلائے۔ ان کی بے نظیر خدمات کا اعتراف کرنے کے لیے کانگریس نے ممبئی میں‘ جناح ہال تعمیر کیا۔ تین عشرے کی مسلسل تگ و تاز سے یہ بات ان پر واضح ہو گئی کہ مسلمانوں کو کانگرس‘ ان کے حقوق دینے کے لیے تیار نہیں ۔پھر الگ وطن کا انہوں نے مطالبہ کیا۔ اقبال پہلے ہی اس کے قائل تھے۔ برصغیر کے شمال مشرق اور شمال مغرب میں مسلم اکثریت کے وجود کو وہ قدرت کا اشارہ اور منشا سمجھتے تھے۔ یہ ایک شاعر اور فلسفی کا خواب تھا‘ جو اپنے عہد کی اجتماعی حیات اور مسلم برصغیر کے پیچیدہ مسائل کو پوری انسانی تاریخ کے تناظر میں دیکھتا تھا۔ مسلمان سیاسی کارکن جب مہاتما گاندھی اور ابوالکلام پہ فدا ہو رہے تھے تو فکر وخیال کی دنیا میں اقبال ایک جہان دیگر کی آرزو پال رہے تھے۔ ؎
آب روان کبیر تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کے خواب
یہ کہ ؎
عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں‘ جن کا نہیں کوئی نام
ڈاکٹر چغتائی نے شاعر کے آخری دو برسوں کی روداد لکھی ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ مطالبے کی باقاعدہ منظوری سے پہلے ہی‘ پاکستان کے قیام کا انہیںیقین تھا۔ اس کے خدوخال پر وہ گفتگو کرتے۔ اس کی آئینی اور فکری تشکیل پر اظہار خیال کیا کرتے۔ ان رکاوٹوں کا تجزیہ فرماتے‘ اس مسافت میں جو درپیش ہیں۔ یقین مگر کبھی متزلزل نہ ہوتا۔ ؎
کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد
ابوالکلام اپنی ذات کے اسیر تھے۔ اقبال نے کبھی نظر اٹھا کر بھی ان کی طرف نہ دیکھا۔ ان کی ایک کتاب کے دیباچے میں جب ان کے جریدے کا حوالہ دے کر یہ کہا گیا: اقبال بھی تحریکِ الہلال سے متاثر ہیں تو انہیں بھایا نہیں۔ اکبر الہ آبادی کے نام اس نادرروزگار شاعر کو‘ جس کے اتباع میں انہوں نے مزاحیہ شاعری کی‘ ایک خط میں مفکر نے لکھا: ابوالکلام سے ملاقات ہو تو انہیں بتائیے گا کہ اقبال الہلال چھپنے سے پہلے بھی مسلمان تھا۔
تمام تر احترام و اکرام کے باوجود‘ جنوبی افریقہ سے ہندوستان میں اترنے والے‘ کرم چند موہن داس گاندھی کو ابھی دیوتا نہ سمجھا گیا تھا‘سب سے پہلے انہی نے پیش گوئی کی کہ ایک دن ہندوئوں کا وہ مہاتما ہو جائے گا۔ یہ بھی مگر ارشاد کیا۔ ؎
رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد
اقبال کے اس شعر کی معنویت تب آشکار ہوتی ہے، جب 15 اگست 1947ء کے فوراً بعد، آزاد ہندوستان میں پٹیل کو ہم نہرو اور گاندھی پر غلبہ پاتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ شاعرکے ضمیر پہ آشکار تھا کہ ایک معاشرہ، آخر کار اپنے اجتماعی مزاج کے مطابق بروئے کار آتا ہے۔ ہمیشہ وہ اصرارکیا کرتے کہ مسلمانوں کو مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر متحد ہو جانا چاہیے۔اجتہاد پر وہ زوردیتے، معاشرے ‘کی جمہوری تشکیل پر۔ 1930ء کے خطبہ الٰہ آباد میں انتباہ کیا تھا کہ مسلم برصغیر کو عرب ملوکیت کے اثرات سے بچنے کی تدبیر کرنی چاہیے۔ سوچی سمجھی ان کی رائے یہ تھی کہ اجتہاد کا حق پارلیمنٹ کو ہونا چاہیے۔ اقبال کی فکر سے استفادہ کیا جاتا تو ایک ایک کرکے راستے کے کانٹے ہم چن چکے ہوتے۔ اسلام کی تفسیر کا حق ہم نے ملا کے سپرد کردیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا سربراہ ایک ایسے شخص کو بنا دیا گیا ہے کہ جو عربی اور انگریزی تو کجا‘ اردو میں اظہار خیال کی بھی قدرت نہیں رکھتا۔ جس کی درس نظامی کی ڈگری بھی مشکوک ہے۔ زمین سے نہیںاقبال آسمان سے زندگی کو دیکھتے تھے۔
خیر، یہ ایک دوسرا موضوع ہے۔ اقبال کے مقابلے میں محمد علی جناحؒ نے قیام پاکستان کو منزل قرار دینے میں تاخیر کی۔ ان کا وظیفہ مختلف تھا۔ انہیں سیاسی جدوجہد کے عملی پہلوئوں کا جائزہ لے کر، ایک مستقل اور پائیدار منصوبہ تشکیل دینا تھا۔ایک عظیم جنگ کا آغاز کرنے سے پہلے انہیں لشکر مرتب کرنا تھا۔ نئی مملکت کی ترجیحات اور انداز کار طے کرنا تھا۔ وہ غوروفکر اور موزوں وقت کا انتظار کرتے رہے؛ تاآنکہ لاہور کے منٹو پارک میں 23 مارچ 1940ء کی سعید سحر طلوع ہوگی۔ پھر ایک عزم صمیم کے ساتھ وہ اُٹھے اور سات سال میں معجزہ برپا ہوگیا۔ ؎
میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا‘ میں اپنے اپنے درماندہ کارواں کو
شررفشاں ہو گی آہ میری‘ نفس مرا شعلہ بار ہو گا
قائداعظم کے پاکستان کوادبار سے بچانے کے لیے ... اسی ولولے اور اسی حکمت کی ضرورت ہے۔
کل دوگھنٹے عمران خان کے ساتھ گزارے۔ میرا احساس اب بھی یہ ہے کہ نواز شریف اور نون لیگ کو شکست دینے کا جذبہ ان پر غالب ہے۔جتنا حریف کو چت کرنے کے بارے میں وہ سوچتے ہیں، تعبیر نو کے بارے میں اتنا نہیں۔ جوہدف ہونا چاہیے، جو مقصود اور منزل ہونی چاہیے۔
عمران خان اور تحریک انصاف کو کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے‘ اس پر انشاء اللہ جلد بات ہو گی۔ اس سے پہلے، ایک حکمران کی طرح وہ سوچنا تو شروع کریں۔ اس کے اخلاقی ‘ سیاسی اور انتظامی تقاضوں پر۔
سپنا ایک بات ہے، اس کے مطالبات کو سمجھنا اور بروئے کار لانا بلکہ دوسری۔ اب تک یہی ہوتا آتا ہے کہ: ؎
حسرتیں دل کی مجسم نہیں ہونے پاتیں
خواب بننے نہیں پاتا کہ بکھر جاتا ہے
ایسا کیوں ہوتا آ رہاہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved