افضال نوید کا اگلے روز فون آیا‘ بتا رہے تھے کہ کراچی والے عرفان ستار آج کل یہاں کینیڈا ہی میں ہوتے ہیں اور حسب توفیق آپ کے خلاف زہر اگلتے رہتے ہیں‘ دراصل موصوف کی شاعری نے مجھے کبھی متاثر نہیں کیا اور نہ ہی میں نے ان کے بارے میں اپنی پسندیدگی کا کبھی اظہار کیا ہے اس لیے انہیں میرے خلاف زہر افشانی کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ البتہ آج ہی جناب ذاکر حسین ضیائی کے توسط سے ان کے کچھ تازہ اشعار موصول ہوئے ہیں اور خلافِ معمول مجھے اچھے لگے ہیں جو آپ کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں:
شکستِ خواب کا ہمیں ملال کیوں نہیں رہا
بچھڑ گئے تو پھر ترا خیال کیوں نہیں رہا
اگر یہ عشق ہے تو پھر وہ شدّتیں کہاں گئیں
اگر یہ وصل ہے تو پھر محال کیوں نہیں رہا
وہ زُلف زُلف رات کیوں بکھر بکھر کے رہ گئی
وہ خواب خواب سلسلہ مجال کیوں نہیں رہا
کہیں سے نقش بُجھ گئے ‘ کہیں سے رنگ اُڑ گئے
یہ دل ترے خیال کو سنبھال کیوں نہیں رہا
عرفان ستّار اپنا کام جاری رکھیں کیونکہ زہر اندر رہ جائے تو بہت خرابی پیدا کرتا ہے‘ اسے نکلتے ہی رہنا چاہیے۔
آپ کے لیے ایک خوشخبری بھی ہے کہ افضال نوید کی تمثال دار غزلوں کا نمونہ تو آپ کو دکھا دیا تھا۔ اب موصوف نے کچھ ہمارے مطلب کے اشعار بھی کہہ رکھے ہیں‘ ذرا دیکھیے:
گھومتی ہوئی زمین ملی ہم کو اور ہم
آئے اور اس کو اور گُھمانے میں لگ گئے
معنی سے اور معنی نکلتے رہے جو ہم
لکھنے کے ساتھ ساتھ مٹانے میں لگ گئے
کوئی آتا جسے ہم دیکھ کے ششدر ہوتے
ہم سے بڑھ کر ہمیں گُم کرنے کو آتا کوئی
ایک انبوہِ شب و روز تھا چاروں جانب
ایک جنگل تھا دُھواں کرنے کو آتا کوئی
اُتنی ہی دُھند سامنے سے ہٹ سکی نویدؔ
ایمان جس قدر مُتزلزل ملا مجھے
کہتا ہوں لمحہ لمحہ مکمل گزار لوں
دنیا میں بار بار نہ آنا پڑے مجھے
آئے ہو تو سینے میں اُترتے چلے جائو
ہر بار تو دروازہ کُھلا بھی نہیں ملتا
روز اُسے لینے آ جاتا ہے جنگل
پنجرے میں جو چڑیا باندھ کے رکھی ہے
پہنچا تو دیر ہو چکی تھی اور مجھے وہاں
میرا جو نام تھا وہ پُکارا ہُوا ملا
میں اندھیرے میں کھڑے کرتا ہوں مینار اپنے
روشنی پڑتی ہے مسمار نظر آتے ہیں
بارش ہوئی تو چھت پہ تری چشمِ نیلگوں
اک اور آسماں مرے دل پر جُھکا گئی
ترے بغیر جب اِتنی گزار لی ہم نے
پھر آنے والے دنوں کا ملال کیا کرنا
کتابی سلسلہ ''لوح‘‘
اولڈ راوینز کی جانب سے اسیرانِ علم کے لیے یہ توشۂ خاص اسلام آباد سے ممتاز احمد شیخ کی ادارت میں شائع ہونے والے اس لحیم و شحیم جریدے کی ضخامت پونے سات سو صفحات اور قیمت 650روپے رکھی گئی ہے۔ یہ اس کا چوتھا شمارہ ہے جو دسمبر2016ء کا نمائندہ ہے۔ اس کا آغاز حمدو نعت اور سلام سے کیا گیا ہے۔ اس کے بعد پطرس بخاری کا ''جلے دل کے پھپھولے‘‘ کے عنوان سے وہ اداریہ ہے جو انہوں نے جنوری1921ء میں بطور مدیر راوی قلمبند کیا جو بجائے خود ایک دلچسپ اور یادگار تحریر ہے۔ ممتاز احمد شیخ ہر بار ملک کے چوٹی کے لکھنے والوں کی نگارشات حاصل کر کے پیش کر دیتے ہیں جو ایک سوغات سے کم نہیں ہوتا۔ اس کے چند لکھنے والوں میں مستنصر حسین تارڑ‘ ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو‘ سلمیٰ اعوان ‘رشید امجد‘ سمیع آہو جا‘ محمد حمید شاہد‘ طاہرہ اقبال‘ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ‘ شمیم حنفی ڈاکٹر سعادت سعید‘ ڈاکٹر ناصر عباس نیر‘ فتح محمد ملک‘ زاہدہ حنا اور بے شمار چیدہ اور چنیدہ اہل قلم شامل ہیں۔
آج کا مقطع
دیکھا تھا ظفر جس کو ابھی نہر کے پل پر
روشن ہے وہی شمع کتابوں کی دکاں میں