تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     25-03-2017

آں اَمَنُّ النَّاس بر مولائے ما

اس کالم کا عنوان علامہ اقبال کی اس فارسی نظم کے ایک شعر کا پہلا مصرعہ ہے ،اس نظم کے چند اشعار درج ذیل ہیں :
مَنْ شَبے صِدِّیق را دیدم بخواب
گل زِخاکِ راہِ اُو چیدم بخواب
آں اَمَنُّ النَّاس بر مولائے ما
آں کلیمے اوّلِ سینائے ما
ہمت اُو کِشتِ ملّت را چو ابر
ثانیِ اسلام وغار وبدر وقبر 
گفتمش اے خاصّۂ خاصانِ عشق 
عشقِ تو سِرِّے مَطلعِ دیوانِ عشق
پختہ از دستت اساسِ کارِ ما
چارہ فرمائے آزارِ ما
ترجمہ:'' ایک رات میں نے خواب میں حضرت ابوبکر صدیق کو دیکھا ،آپ کی خاکِ راہ سے میں نے عالمِ خواب میں چند پھول چُنے ۔وہ صدیق جو ہمارے آقا ومولا سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ پر سب سے زیادہ احسان کرنے والے اور ہمارے ''طورِ سینا‘‘ یعنی نبی کریم ﷺ کے پہلے کلیم اور ہمراز ہیں ۔اُن کی عزیمت کشتِ ملّت کے لیے ابرِ رحمت کی طرح ہے ،وہ اسلام ،غارِ ثور ،غزوۂ بدر اور روضۂ انور میں آپ ﷺکے ثانی ہیں ۔الغرض وہ نبوت کے تئیس سالہ دور میں اور بعد از وصال آپ کے رفیق ہیں ۔میں نے اُن سے عرض کی: اے عشقِ نبوت کے سرخیلوں کے تاجدار!دیوانِ عشق کا عنوان اور اُس کا سربستہ راز آپ ہی تو ہیں ۔آپ ہی کے دستِ مبارک سے تاجدارِ نبوت ﷺ کے وصالِ مبارک کے بعد ''خلافت علیٰ منہاجِ النُّبوّۃ‘‘ کی بنیادپڑی ،آج امت ایک بار پھر مصیبت میں مبتلا ہے ، اس مشکل میں آپ سے رہنمائی درکار ہے‘‘۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جوجواب علامہ اقبال نے اپنی دانش کے مطابق اشعار میں رقم کیا ہے،اس کا خلاصہ یہ ہے :
''حرص وہوس کو چھوڑو اور سورۂ اخلاص سے توحید کی آب وتاب کو حاصل کرو ۔یہ جو ہزاروں سینوں میں ایک ہی سانس رواں دواں ہے ،یہ توحید کے رازوں میں سے ایک راز ہے ۔اے اہلِ ایمان! توحید کے سانچے میں ڈھل کر سب اُسی کے رنگ میں رنگ جائو اور اُس کا عکس بن جائو ۔وہ ذات جس نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے ،وہ تمہیں وحدتِ ملّت کی لڑی میں پروئے ہوئے دیکھنا چاہتی ہے اور تو ترک وافغان کہلانا پسند کرتا ہے ،یعنی تم نے قومیتوں ،اوطان اور قبیلوں میں بٹ کر اپنی وحدت کو پارہ پارہ کردیاہے۔ایک بار پھر توحید کو اپنی اساس اور پہچان بنا ئواور قبائل یا اقوام میں منقسم ہوکر اپنی وحدت کو پارہ پارہ نہ کرو ۔اے مسلم! تونے اپنے آپ کو سو ملّتوں میں منقسم کر کے خود ہی اپنی وحدت پر شب خون مارا ۔سو ایک بار پھر اپنے گمشدہ عقیدۂ توحید میں ڈھل کر ایک ہوجائو ،ایمان کی لذت عمل سے بڑھتی ہے اور بے عمل کا ایمان مردہ ہوجاتا ہے‘‘۔ 
علامہ اقبال نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کر کے وہی بات کہی ،جو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں بیان فرمائی ہے:''(تم اُن سے کہو:)ہم نے خود کو اللہ کے رنگ میں رنگ لیا ہے اور اللہ کے رنگ سے بہتر اور کس کا رنگ ہوگا اور ہم اُسی کی عبادت کرتے ہیں ،(بقرہ:138)‘‘۔اِسی مفہوم کو مولاناعبدالرحمن جامی نے اپنے شعر میں منظوم کیا ہے:
بندۂِ عشق شُدی ، ترکِ نسب کُن جامی 
کہ دریں راہ ،فلاں ابن فلاں چیزے نیست
ترجمہ:''شِعارِ عشق میں ڈھل جائو اور نسب پر اِترانا چھوڑ دو، کیونکہ راہِ عشق میں نسب نہیں پوچھا جاتا ، مقصد سے لگن اور ایثار کی اصل اہمیت ہوتی ہے‘‘۔مولانا جامی کی عشق سے مرادیہ ہے کہ راہِ حق میں نفع ونقصان کو نہیں دیکھا جاتا، بلکہ مقصد اور نظریے سے غیر مشروط وابستگی اصل متاع ہوتی ہے۔اسی مفہوم کو علامہ اقبال نے اپنے اردو شعر میں بیان کیا ہے:
عقل عیّار ہے ، سو بھیس بدل لیتی ہے
عشق بے چارہ نہ مُلّا نہ زاہد نہ حکیم
علامہ اقبال کے جس مصرعے کو ہم نے کالم کا عنوان بنایا ہے ،وہ اس حدیثِ مبارک سے ماخوذ ہے :
''ابوسعیدخُدری بیان کرتے ہیں :نبی ﷺ نے فرمایا: تمام لوگوں میں سے اپنی رفاقت اور مال کے ذریعے مجھ پر سب سے زیادہ احسان کرنے والے ابوبکر ہیں ،(بخاری:3624)‘‘۔ایک اور حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:''ہم پر جس کا بھی کوئی احسان ہے اُس کا صلہ ہم نے عطا کردیا ،سوائے ابوبکر کے،کیونکہ اُن کے ہم پراتنے احسانات ہیں جن کا صلہ اللہ تعالیٰ انہیں قیامت کے دن عطا فرمائے گااور مجھے (یعنی دینِ اسلام کو )کسی کے مال نے اتنا نفع نہیں پہنچایا ،جتنا کہ ابوبکر کے مال نے پہنچایا ہے ،(سنن ترمذی:3661)‘‘۔
ان احادیثِ مبارکہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اسلام اور نبی کریم ﷺ پر احسانات کا بیان ظاہری صورت کے اعتبار سے ہے اورنبی کریم ﷺ کا یہ شِعار تھا کہ آپ اپنے جانثاروں کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے ،تاکہ دوسروں میں اُن کی تقلید اور پیروی کا جذبہ پیدا ہو،ورنہ حقیقتِ حال کے اعتبار سے ہر مسلمان نبی کریم ﷺ اور اسلام کا ممنون (Much Obliged) ہے،کیونکہ ایمان اور اسلام سے برتر کسی نعمت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''اَعراب نے کہا: ہم ایمان لائے ، آپ کہیے: (در حقیقت )تم ایمان نہیں لائے ،ہاں یوں کہو:ہم نے اطاعت کی اور ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ، اور اگر تم اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرو گے ،تو اللہ تمہارے (نیک )اعمال میں کوئی کمی نہیں کرے گا، بے شک اللہ بہت بخشنے والا، بے حد رحم فرمانے والا ہے ۔(درحقیقت) ایمان لانے والے تو صرف وہی ہیں جو اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لائے ، پھر انہوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ،(دعوائے ایمان میں )وہی سچے ہیں ۔آپ کہیے :کیا تم اللہ کو اپنے دین کی خبر دے رہے ہو؟،حالانکہ آسمانوں اور زمینوں میں جو کچھ ہے ،اللہ اُسے جانتا ہے اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔(اے رسولِ مکرّم!)یہ آپ پر احسان جتاتے ہیں کہ وہ اسلام لے آئے ، آپ کہیے:مجھ پر اپنے اسلام کا احسان نہ جتائو ،بلکہ اللہ تم پر احسان فرماتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان لانے کی ہدایت دی ،اگر تم سچے ہو ،(الحجرات:14-17)‘‘۔
اورذاتِ رسالت مآب ﷺ جملہ اہلِ ایمان سمیت پوری کائنات کے لیے اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین نعمت ہیں اوراللہ تعالیٰ کے جملہ انعامات میں سے یہ واحد نعمت ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان پر تاکیدات کے ساتھ احسان جتلایا ہے ، ورنہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں تو بے شمار ہیں اور اُن کا احاطہ کرنا انسان کے بس میں نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''اور اگرتم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنے لگو تو اُنہیں شمار نہیں کر پائو گے،(ابراہیم:34)‘‘۔ شیخ سعدی شیرازی نے کہا: ''سانس اللہ کی بیش بہا نعمت ہے ،ہر وہ سانس جو انسانی وجود کے اندر آتی ہے ،اُس سے انسان کی حیات ایک سانس کی مقدار درازہوجاتی ہے ،ورنہ انسان کی موت واقع ہوجائے اور ہر وہ سانس جو باہر آتی ہے ، فرحت وانبساط کا باعث بنتی ہے ، ورنہ دم گھٹنے سے انسان کی موت واقع ہوجائے ‘‘۔
قرآنِ مجید نے بعض کلمات ظاہری صورت کے اعتبار سے بیان فرمائے ہیں ،لیکن درحقیقت اُن کے مرادی معنی ہی کا اعتبار ہے ، مثلاً اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور برائی کا بدلہ اُس جیسی برائی ہے ،پس جس نے معاف کردیا اور اصلاح کرلی تو اُس کا اجر اللہ کے ذمۂ کرم پر ہے ،(الشوریٰ:40)‘‘۔ظاہر ہے برائی کے بدلے پر برائی کا اطلاق ظاہر ی صورت کے اعتبار سے کیا گیا ہے ،جیسے ایک شخص نے دوسرے شخص کا ہاتھ کاٹا اور قصاص میں اس کا ہاتھ کاٹ دیاگیا،اب عمل کی ظاہری صورت یکساں ہے ،لیکن حقیقت کے اعتبار سے پہلے شخص کا دوسرے کا ہاتھ کاٹنا ظلم ہے اورقصاص میں ظالم کے ہاتھ کاکاٹا جانا عینِ عدل ہے ،جو شریعت کو مطلوب ہے ،کیونکہ اُس کی بنا پر معاشرے میں عدل قائم ہوتا ہے اور لوگوں کو جان ومال اور آبرو کا تحفظ ملتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں قصاص کا حکم تفصیل کے ساتھ بیان کیااور اُس کے بعد فرمایا: ''اور اے عقل مند لوگو!تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے تاکہ تم (قتلِ ناحق ) سے بچو،(البقرہ:179)‘‘۔اسی طرح فرمایا: ''سو جو شخص تم پر زیادتی کرے ،تو تم بھی اُس پر اتنی ہی زیادتی کرو ،جتنی اُس نے تم پر کی ہے اور (بدلہ لیتے وقت )اللہ سے ڈرتے رہو ،(البقرہ:194)‘‘۔
جہاں اسلام نے قصاص کی اجازت دی ہے اور عدل کرنے کا حکم دیا ہے ،وہاں اس بات کی شدت کے ساتھ تاکید کی ہے کہ قصاص لینے میں بھی عدل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑاجائے ۔جو دین اس حد تک نرمی کی تعلیم دیتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کے تقرُّب کے لیے جو حلال جانور اتباعِ سنت میں اللہ کا نام لے کر ذبح کیا جارہا ہے ،اُس کے ذبح کرنے میں بھی اذیت وآزار سے بچا جائے اور اُسے تیز چھری سے ذبح کیا جائے تاکہ اس کی تکلیف کم سے کم ہو ۔
علامہ اقبال نے عقیدۂ توحید پر جو اتنا زور دیا ہے ،اس سے ہرگز یہ مراد نہیں ہے کہ اسلام کے دیگر عقائد غیر اہم ہیں ، ہر عقیدہ اپنی جگہ اسلام کی اساس ہے اور کسی ایک کے انکار سے انسان ایمان سے محروم ہوجاتا ہے ۔علامہ اقبال کی مراد یہ ہے کہ عقیدۂ توحید کو اُس کے تمام لوازمات کے ساتھ تسلیم کیا جائے ،جیساکہ ایمانِ مُجْمَل میں ہے :''میں ایمان لایا اللہ پر جیساکہ وہ اپنی ذات وصفات میں ہے اور میں نے اُس کے تمام احکام کو قبول کیا اور میں زبان سے اس کا اقرار کرتا ہوں اور دل سے تصدیق کرتا ہوں‘‘،پس اللہ تعالیٰ کے احکام میں تمام عقائد ،عبادات ،معاملات اور اخلاقیات شامل ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved