تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     26-03-2017

ہندو منصوبے کے تحت فیصلہ کن معرکہ (قسط اول)

یوں لگتا ہے کہ بھارت کے انتہا پسند ہندو کسی سازش یا منصوبہ بندی کے تحت ،مسلمانوں کو انتہاپسندی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مسلمانوں میںانتہاپسندی کو فروغ دے کر ، جوابی ردعمل پیدا کرنے کی سازش شروع ہو چکی ہے۔ مودی کے دور میں بھارت کے دوسرے عام انتخابات کی تیاریاں شروع ہو چکی ہیں۔ اب انتہاپسند ہندو قیادت بڑی رازداری سے اس منصوبے پر عمل کر رہی ہے کہ ہندوئوں کو مذہب کی آڑ میں، انتہاپسندی اور مسلم دشمنی پر اکسایا جائے۔ اس مقصد کے لئے یو پی کے انتہاپسند ہندوئوں کو آگے لایا جا رہا ہے تاکہ وہ مذہبی منافرت ابھار کے، مسلمانوں کومذہبی جذباتیت کی طرف دھکیلیں اور وہ مجبور ہو کر تشدد کا راستہ اختیار کریںاوراس کی آڑ میں ہندو انتہاپسند جوابی کارروائی کے نام پر ، مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کا ماحول پیدا کریں۔ تاکہ مسلمان ، ہندو اکثریت کے خلاف انتہاپسندانہ اقدامات کرنے لگیں اور جواب میں انتہاپسند ہندو جو کہ پہلے ہی ایک منصوبے کے تحت تیار بیٹھے ہیں، تصادم کی صورتحال پیدا کر دیں۔ یہ چھیڑ خانی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کی جائے گی تاکہ ہندو انتہاپسند انہیں اشتعال دلا کرلاقانونیت پر آمادہ کریں اور مسلمان جیسے ہی کسی اشتعال انگیزی کے مرتکب ہوں، تو ہندو بنے بنائے منصوبے کے تحت جوابی کارروائی کے نام پر خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کر دیں۔ یہی ہندو کا پرانا حربہ ہے، جسے آج وہ اقتدار ملنے بعد عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں تاکہ چھوٹی سی مسلم اکثریت کوبزور قوت پسپا کر کے،مسلم دشمنی کی فضا پیدا کر کے انہیں جوابی اشتعال انگیزی پر آمادہ کیا جائے اور نہتے مسلمانوں کو اپنے دفاع میں لڑنے پر مجبور کر دیا جائے۔ یوں پہلے سے بنے ہوئے منصوبے کے تحت انہیں اپنے بچائو کے لئے ہتھیار اٹھانا پڑیں اور پہلے سے کی گئی تیاری کے تحت ہندو بظاہر جوابی کارروائی کریں۔ اس دوران جہاں تک ممکن ہو، مسلمانوں کی نوجوان پود کو لڑائی پر مجبور کر دیں۔ ہندوئوں کی بھاری اکثریت ، مسلمانوں کو دفاع پر مجبور کر دے اور اس طرح ایک فیصلہ کن معرکے کا منظر پیدا کر دیا جائے۔ اس وسیع تر فساد کی آڑ میں جہاں تک ممکن ہو، مسلمان نوجوانوں کا صفایا کر دیا جائے۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد کو جان بچا کر ہجرت پر مجبور کر دیا جائے۔ جہاں جہاں بھی یہ ہزیمت زدہ مسلمان، ہندو اکثریت کے علاقوں میں جا کر پناہ حاصل کریں ،ہندو اکثریت کو ممکنہ حد تک ان کی صفائی کی کھلی چھوٹ دے دی جائے اور جو مجبور گھروں میں باقی رہ جائیں، انہیں دیرینہ خواب کے مطابق نچلے درجے کے کام کاج پر مجبور کر دیا جائے۔ یہ تنگ نظر اور فتنہ پرداز ہندوئوں کا بنایا ہوا منصوبہ ہے، جس پر وہ عملدرآمد کے لئے صدیوں سے تیاری کر رہے ہیں۔ برصغیر کی جس پرانی نسل نے وسیع تر ہندو مسلم فسادات کے نتائج دیکھے ہیں، انہیں آسانی سے اندازہ ہو جائے گا کہ یو پی میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت کی کمر توڑ کے، ہندواپنے ارادوں کے مطابق نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں۔فساد کا جواز پیدا کرنے کے لئے تنگ نظر مسلمان علماء کو اشتعال انگیزی کے لئے استعمال کیا جائے گا اور اس کے بعد ہندو مسلم تصادم کا ماحول بنا کر ، مسلمانوں کے حوصلے توڑنے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔
گزشتہ دنوں آسام کی ایک مسلم لڑکی ناہید آفریں کا گانا گانے کے مقابلہ میں حصہ لینے اور اس میں امتیاز حاصل کرنے کے بعد آسام کے تین درجن سے زائد علماء کی ایک اپیل شائع ہوئی تھی، جس میں اسے ناپسندیدہ اور شریعت کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ایسے پروگراموں میں حصہ لینے سے پرہیز کیا جائے۔ لیکن اس اپیل کے شائع ہونے کے بعد پورے ملک میں کہرام مچ گیا اور تمام ٹی وی چینلوں نے چیخ چیخ کر کہنا شروع کر دیا کہ مولوی فتویٰ دینا بند کریں اور ناہید آفریں کی حمایت میں صف آرا ہو کر ،ناہید کو مظلوم اور علما کو ظالم بنا دیا۔ عجیب بات ہے کہ اس مسئلہ پر کئی اعلیٰ سیاسی لیڈران بھی کود پڑے اور اپنے ٹوئٹر کا دہانہ کھول دیا۔
دادشجاعت کی للک میں ناہید کے اس عمل کا شرعی محاکمہ کرنے سے قطع نظر وہ رویہ قابل غور ہے جو اس قسم کے معاملے میں سامنے آتا ہے۔ ایک رویہ مذہبی طبقہ کا جو ناہید کے حوالے سے سامنے آیا اور دوسرا ٹی وی چینلوں کے ذریعہ ان سیاسی و غیر سیاسی دانشوروں کا رویہ جس نے حق و باطل کی ایک معرکہ آرائی جیسا ماحول بنا دیا۔ میرا خیال ہے کہ یہ دونوں رویے نامناسب ہیں۔ ناہید یا ان جیسے دیگرآرٹسٹوں کے وفور شوق کو شریعت کے اعلیٰ معیار پر جانچنا ہندوستان جیسے کمپوزٹ کلچر میں نہایت غیر مناسب ہے۔ اس لئے بھی کہ گانے بجانے کی اس 
کیفیت کی شریعت مخالفت کرتی ہے جہاں بے ہودگی، بے حیائی اور فحاشی کا ارتکاب ہو اور جس سے دیگر برائیوں میں ملوث ہونا مجبوری بن جائے، محض تفریح طبع اور فن کے مظاہرے کو قطعی طور پر غیر شرعی قرار دینا غیر مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں کوئی بھی خوشی کا موقع گانے بجانے کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ اسکولوں اور دیگر دانشگاہوں میں بھی طلبہ نظم و غزل سرائی میں اپنی آواز سے لوگوں کو متاثر کرتے ہیں جبکہ گائوں میں لوک گیت کی ایک تاریخ رہی ہے اور اس کی تہذیبی حیثیت پر بہت لکھا جا چکا ہے۔ گانے بجانے کی بعض شکلوں کی صوفیائے کرام کے یہاں بھی اجازت رہی ہے اور خود رسول اکرم محمد مصطفیؐ اپنے قافلے کے ساتھ جب ہجرت کر کے مکہ سے مدینہ آئے تو اس وقت مدینہ کی بچیاں استقبالیہ گیت گا کر اس عظیم المرتبت قافلہ کا استقبال کر رہی تھیں۔ دف بجانے کی اجازت تاریخ اسلام میں نظر آتی ہے۔ دوسری طرف ہندوستان جیسے ماحول میں شریعت کے ایک ایک اصول کے نفاذ کا اصرار کس طرح ممکن ہو سکتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ بہت سے مسلم ممالک میں لڑکیوں کو عوامی اسٹیج پر اپنے فن کے مظاہرہ کا موقع نہیںدیا جاتا اور مختلف زبانوں میں آواز کی سحر آفرینی کے فروغ کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی لیکن ایسا کرنے والوں کی گردن زدنی کا بھی تو حکم نہیں دیا جاتا۔ یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام فحاشی اور بے راہ روی سے اجتناب کا قائل ہے تفریح اور فن کے مظاہرہ کا نہیں۔ چنانچہ میں اسی حق میں ہوں کہ قیود و شرائط کے ساتھ کسی بھی ایسے مقابلہ میں حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہیے ،جہاں شریعت کی بنیادی اساس پر ضرب نہ پڑتی ہو۔ ہندوستان کے سیاسی و سماجی دانشوروں کے رویہ کی بھی میں مذمت کرتا ہوں جس میں عام طور پر شرعی اصولوں کو فرسودہ اور علما کو پتھروں کے عہد کی مخلوق ثابت کیا جاتا ہے اور شریعت کے جانکاروں کی کسی بھی اصلاحی کوشش کو فتویٰ کہہ کر اس طرح پیش کیا جاتا ہے جیسے علماء نے خلا میں کوئی میزائل چھوڑ دیا ہو۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ کچھ نیوز چینلوں پر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ آسام کی ناہید آفریں کے خلاف مبینہ فتویٰ اس لئے جاری کیا گیا ہے کیونکہ اس نے داعش کے خلاف اپنے گانے میں رحجان ظاہر کیا تھا یا انتہاپسندوں کو اپنے عمل سے چیلنج کرنے کی کوشش کی تھی۔ اول تو یہ بات ہی غلط ہے لیکن میرا سوال یہ ہے کہ آخر بار بار یہ تاثر دینے کی کوشش کیوں کی جاتی ہے کہ مسلمان دہشت گردوں سے ہمددی رکھتے ہیں۔ پورے ہندوستان کے علماو قائدین اور عام مسلمان بیک آواز داعش سمیت تمام طرح کے انتہاپسندوں سے برات کا اظہار کر چکے ہیں اور آئے دن مسجدوں کے منبرو محراب سے بھی خون خرابہ کرنے والوں کی مذمت کی جاتی رہی ہے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی کوششیں کیوں کی جاتی ہیں جن سے عام مسلمان متہم و مغضوب ہوں؟ اس سوال پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ناہید آفریں کے حوالے سے کئی ٹی وی چینلوں پر طویل مباحثوں کو دیکھ کر مجھے یک گونہ مایوسی بھی ہوئی۔ لہذا اس سلسلے میں میرا احساس ہے کہ ٹی وی چینلوں کے مباحثوں میں کچھ مسلم پینلسٹ اسلام کا دفاع کرتے وقت منطقی استدلال کی بجائے بے تحقیق باتیں اس طرح پیش کرتے ہیں کہ ناظرین کے سامنے اسلام پسپا ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ اسلام دین فطرت ہے اس لئے اسلامی شریعت انسانوں کے اظہار مسرت اور شادمانی کے فطری اظہار کے تمام طریقوں کو جائز مانتی ہے۔ وہ صرف فحاشی، لہوولعب اور فسق و فجور سے اجتناب کا حکم دیتی ہے۔
ہندوستان میں اپنی مسحور کن آواز سے تاریخ مرتب کرنے والے درجنوں مسلم فنکار اور فنکارائیں ہیں، جن کی مثال ہم اپنی حصول یابیوں کو شمار کراتے وقت دیتے ہیں۔ امیر خسرو سے لے کر اب تک اس ملک میں فنون لطیفہ کے میدان میں مسلم فنکاروں کے اتنے روشن نقوش ثبت ہیں کہ انہیں ہم بھلانا بھی چاہیں تو نہیں بھلا سکتے۔ فلمی دنیا ہو یا سماجی اسٹیج کی دنیا، یا پھر گانے بجانے والا وہ گروہ جو سماج میں اپنی موجودگی تو درج کراتا ہے لیکن اس کی کوئی پہچان نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان میں آواز کا جادو جگانے والے تاریخ ساز فنکاروں کی جو نقرئی فہرست ہے اس میں اگر ناہید آفریں بھی اپنا نام درج کرا لے تو اس میں کسی کو رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ دوسری طرف آسام کے ان علماء کو بھی لعن طعن نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ انہوں نے ناہید آفریں کے خلاف کوئی فتویٰ نہیں دیا ہے بلکہ انہوں نے ایک اپیل جاری کی ہے جسے اصلاحی کوشش سے تعبیر کیا جانا چاہیے۔
ناہید آفریں جیسے سینکڑوں فنکار ہیں جو مختلف میدانوں میں کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ میں اس حق میں ہوں کہ ان کی فطری صلاحیتوں کو پروان چڑھنے سے نہ روکا جایئے بلکہ انہیں وہ مواقع فراہم کئے جائیں کہ وہ اپنے فطری جوہر کا مظاہرہ کر سکیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved