77سال پہلے لاہور کے منٹو (اب گریٹر اقبال) پارک میں منظور کی جانے والی قراردادِ لاہور، جسے بعد میں قائداعظمؒ ہی نے قرارداد پاکستان کا نام دے دیا، کی یاد 23مارچ کو پورے جوش و خروش سے منائی گئی۔ ملک بھر میں تقریبات منعقد ہوئیں اور کراچی سے سری نگر تک جذبات سے بھرے اجتماعات کا اہتمام کیا گیا۔ پوری دنیا میں جہاں جہاں پاکستانی ( اور کشمیری) بستے ہیں، اس دن کو عید کی طرح منایا گیا۔ بھارتی جمہوریت نے اپنا منہ اس طرح نوچا کہ دہلی میں پاکستانی سفارت خانے کی تقریب میں کشمیری رہنمائوں کو شرکت سے روک دیا گیا۔ اسلام آباد میں عظیم الشان فوجی پریڈ کا انعقاد ہوا اور پہلی بار چین اور سعودی عرب کے دستے بھی اس میں شریک ہوئے۔ ترکی کے فوجی بینڈ نے ماحول کو گرمایا اور ''جیوے جیوے پاکستان‘‘ کی دھن پر ہر سننے والے کا دل جھوم جھوم اٹھا۔
23مارچ اور فوجی پریڈ کا گہرا تعلق یوں ہے کہ پاکستان کو 1956ء میں پہلا دستور دے کر جمہوریہ بنانے اور تاج برطانیہ سے رسمی تعلق توڑنے کی سعادت حاصل کرنے والے انتہائی شریف النفس اور زیرک وزیراعظم چودھری محمد علی (مرحوم) نے مجھے بتایا تھا کہ اگست کا مہینہ بارشوں کے ساتھ خاص تھا۔ برسات کا موسم شروع ہوتا اور 14اگست کو فوجی پریڈ کا انعقاد (اکثر) مشکل ہو جاتا۔ دستور ساز اسمبلی نے اپنا کام مکمل کر لیا تو فیصلہ کیا گیا کہ اسے 23مارچ کو نافذ کیا جائے، اس دن کی قرارداد لاہور کے حوالے سے تاریخی اہمیت تو تھی ہی ،اسے یوم جمہوریہ بھی قراردے دیا جائے کہ اس روز فوجی پریڈ منعقد ہو سکے گی۔ مارچ میں بارش کا خطرہ نہیں تھا۔ پاکستان تو دنیا کے نقشے پر اگست 1947ء میں طلوع ہو گیا تھا، لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان نے 23 مارچ 1956ء کو جنم لیا۔گورنر جنرل کا عہدہ ختم کرکے تاجِ برطانیہ سے علیحدگی کا عمل مکمل کر دیا گیا۔ یہ پاکستان کا دوسرا بڑا قومی دن تھا اور اسی دن فوجی پریڈکا انعقاد ہونے لگا۔ پاکستان کی طاقت اور اہمیت کا مظاہرہ۔ جنرل محمد ایوب خان نے پاکستان کے اس پہلے متفقہ دستور کو منسوخ کرکے اقتدار سنبھالا تو نئے دستور کی تخلیق کے خبط میں مبتلا ہو گئے۔
1962ء میں پاکستان کو ایک اور دستور عطا ہوا، جس کا پہلا جملہ ہی یہ تھا کہ مَیں محمد ایوب خان پاکستان کو یہ دستور دے رہا ہوں۔ اجتماعی ذہانت کے سامنے انفرادی مہم جوئی کی جو حیثیت اور اہمیت ہونی چاہیے، وہی اس دستور کو حاصل رہی۔ نو برس تک نافذ رہنے کے باوجود یہ قوم کے دل میں نہ اتر سکا۔ اس کے منتخب نمائندوں نے جو اساسی دستاویز تیار کی تھی اور کراچی سے ڈھاکہ تک جس پر اطمینان کا اظہار کیا گیا تھا، اسے پارہ پارہ کرنے کا نتیجہ بالآخر ملک کو پارہ پارہ کرنے کی صورت میں برآمد ہوا۔ جنرل ایوب خان کو فیلڈ مارشل بننے کے باوجود فوجی تحفظ حاصل نہ رہا۔ ان کے چنے ہوئے جانشین جنرل یحییٰ خان نے انہیں دھتا بتایا اوران کو آئین سمیت چلتا کیا۔ایوب خان کو اپنا تھوکا ہوا خود چاٹنا پڑا، اپنے دستور کو اپنے ہی ہاتھوں قتل کرکے کمانڈرانچیف کو اقتدار سونپنے پر مجبور ہو گئے۔
جنرل ایوب خان نے جب اپنے مربی و دوست اور صدر مملکت کے بلند منصب پر فائز ہو جانے والے میجر جنرل سکندر مرزا کے ساتھ مل کر آئین کو منسوخ کیا تو پھر 23مارچ کا بڑا حوالہ ختم ہو گیا اور یہ قرار داد لاہور کے ساتھ مختص ہو کر رہ گیا۔ منٹو پارک کا نام اقبال پارک رکھ کر یہاں مینار پاکستان تعمیر کیا گیا، جسے یادگار قرارداد پاکستان کے نام سے پکارا جاتا ہے اور جس کی بنیادوں میں قرارداد کا مسودہ محفوظ ہے۔ شہبازشریف صاحب کی حکومت نے اسے مزید وسعت دے کر شاہی قلعے اور بادشاہی مسجد سے جوڑ کر اس کا نام گریٹر اقبال پارک رکھ دیا ہے۔ یہاں ایک بڑاقومی عجائب گھر بھی بنے گا جس میں تاریخ بھی محفوظ ہو گی اور ہر صوبے کی ثقافت بھی۔ شرمین عبید چنائے اور ان کے رفقاء کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ پی ایچ اے (پنجاب ہارٹی کلچر اتھارٹی) نے گریٹر اقبال پارک کو تخلیق کیا ہے، اس لئے میوزیم بھی اسی کے کرتا دھرتا (سینئر اور دبنگ اخبار نویس) افتخار احمد اور میاں شکیل ہی کے زیر نگرانی تکمیل کے مراحل طے کر رہا ہے۔ اہلِ دانش کا ایک معتبر گروپ اس کی فکری رہنمائی میں مصروف ہے۔
اب 23مارچ ہے، قرارداد پاکستان ہے اور ہم ہیں۔ اس کی اہمیت مسلم ہے کہ اسی دن پہلی بار مسلم لیگ کے کنونشن نے ایک نئی مملکت (یا مملکتوں) کو اپنا مطمحء نظر قرار دیا تھا۔ اسلامیانِ برصغیرنے اپنے اکثریتی علاقوں کو ہندوستانی وفاق سے علیحدہ کرنے کامطالبہ کرکے ہندوستانی سیاست میں ایک ایٹمی دھماکہ کر دیا تھا۔ تاریخ دان اور دانشور اس قرارداد کے الفاظ اور پس منظر پر بحث کرتے رہتے ہیں، لیکن سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ برصغیر کو مسلم اور ہندو اکثریت کے علاقوں میں تقسیم کرنے کا نعرہ یہیں سے بلند ہوا،اور بالآخر کونے کونے میں گونج اٹھا۔اپریل 1946ء میں (انتخابات کے بعد) مسلم لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان نے ایک اور قرارداد منظور کرکے متحدہ پاکستان کے قیام کو اپنی منزل بنایا۔ یہ قرارداد بنگال کے وزیراعلیٰ حسین شہید سہروردی نے پیش کی ، یوں تاریخ ایک مرحلہ ء عظیم سر کر گئی ؎
عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا مَیں
ڈاکٹر مبارک علی اگرچہ مورخ کہلاتے اور (شاید) مانے بھی جاتے ہیں، لیکن یہ نکتہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ پاکستان اسلامیانِ برصغیرکے دل کی آواز تھا اور انہوں نے دن دہاڑے اس کا مطالبہ کرکے اور سر دھڑ کی بازی لگا کر اسے حاصل کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں آگ اور خون کے دریا عبور کئے تھے۔ تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت پر مجبور ہوئے تھے۔ اس طرح کے لوگوں کو ٹی وی مذاکروں میں بلا کر پاکستان، اس کی قرارداد اور اس کے نظریئے پر گفتگو کی دعوت دینا ایسا ہی ہے جیسے جمعیت علمائے اسلام میں حال ہی میں شامل ہونے والے ایک بڑے بشپ کو درس قرآن دینے کے لئے بلایا جائے یا مولانا فضل الرحمن کو بائبل پڑھانے پر مامور کر دیا جائے۔کئی برس پہلے برادرم ڈاکٹر شاہد مسعود نے اپنے پروگرام میں ڈاکٹر صاحب موصوف، ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم، سید منور حسن صاحب اور مجھے یاد کیا تھا۔ انہوں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا تھا کہ اگر آپ 1946ء میں ووٹر ہوتے تو کس کو ووٹ دیتے؟ انہوں نے دھڑلے سے کہا تھا کہ پاکستان کے خلاف ووٹ دیتا۔ اس پر مَیں نے عرض کیا تھا کہ پاکستان ایک ووٹ کی اکثریت سے تو قائم نہیں ہوا کہ اگر آپ اسے ووٹ نہ دیتے تو یہ نہ بنتا۔ غیر رسمی گفتگو میں یہ بھی عرض کر دیا تھا کہ اگر مولانا ابوالکلام آزاد جیسے عبقری کا ووٹ پاکستان کو نہیں روک سکا تو کسی ''چمپو‘‘ کا ووٹ کیسے روک لیتا؟
وہ دن جائے اورآج کا آئے، ڈاکٹر صاحب مجھ سے کنّی کتراتے ہیں۔ ایک بار انتہائی پیارے بھائی کامران شاہد نے مجھے اور انہیں اکٹھے مدعو کرنے کا فیصلہ کیا، تو انہیں یہ خبر نہیں ہونے دی کہ مَیں بھی مدعو ہوں۔ اچانک مجھے سکرین پر دیکھ کر وہ بدمزہ ہوئے، لیکن مَیں نے ان کی حرکات و سکنات کا لطف اٹھایا۔ شخصی طور پر ان کا احترام کیا جا سکتا ہے لیکن تاریخی اور نظریاتی حوالے سے اپنی رائے پیش کرنے کی گستاخی سے گریز ممکن نہیں ہے۔ بقول اقبال ؎
بیاں میں نکتہء توحید آ تو سکتا ہے
ترے دماغ میں بت خانہ ہو تو کیا کہئے
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]