تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     26-03-2017

سمجھدار گیدڑ سنگھی کی تلاش

سینیٹر انور بیگ ان سیاستدانوں میں سے ہیں جنہیں معیشت پر عبورہے۔ ان کے پاس بہت ڈیٹا اور تازہ تازہ انفارمیشن ہوتی ہیں۔ کچھ دن پہلے ملاقات ہوئی تو ملکی معیشت کی بات ہونے لگی۔ پہلے ایک دکھی دل کے ساتھ فہرست گنوائی کیسے ہماری معیشت نیچے جارہی تھی۔ سب معاشی اہداف گر گئے تھے، ایکسپورٹ چار سالوں میں پچیس ارب ڈالرز سے بیس ارب ڈالر تک آگئی تھی، پاکستانی جو باہر سے پیسہ بھیجتے ہیں وہ کم ہوگیا تھا ، درآمدات بڑھ گئی تھیں ۔ بیس ارب ڈالرز کی برآمدات کے مقابلے میں درآمدات پچاس ارب ڈالرز تک پہنچنے کا امکان ہے۔تجارتی فرق بڑھ رہا تھا ‘ قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے، زرمبادلہ نیچے جارہا ہے اور حالت یہ ہے کہ چین سے سات سو ملین ڈالرز لے کر اسٹیٹ بنک میں رکھنے پڑے ہیں ۔ میں چپ کر کے سنتا رہا۔ 
وہ جب رکے تو میں نے کہا لیکن پچھلے دنوں وزیراعظم نواز شریف نے کراچی میں فرمایا ہے کہ پاکستانی معیشت اس وقت ٹاپ پر جارہی ہے اور پوری دنیا ہماری تعریفیں کر رہی ہے۔ ابھی آپ نے یہ نہیں بتایا کہ چین سے پینتالیس ارب ڈالرز قرضوں کے عوض پاکستان کو نوے ارب ڈالرز ادا کرنے ہوں گے۔ اب یہ پتہ نہیں جب ایکسپورٹس گر رہی ہیں، بیرون ملک سے پیسہ آنا کم ہورہا ہے، تو پھر یہ نوے ارب ڈالرز کہاں سے آئیں گے جو ادا کیے جائیں گے؟ پہلے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک نے ہمارا لہو چوسا اب ہمارے ہمسایہ دوستوں کی باری ہے۔ 
انور بیگ بولے دراصل وزیراعظم نواز شریف کو اکانومی کی صحیح صورت حال نہیں بتائی جارہی ۔ میں نے پوچھا کون لوگ ہیں جو وزیراعظم کو گمراہ کر رہے ہیں؟ وزیروں کا نام لیے بغیر بولے یہ تو وزارت خزانہ اور وزارت تجارت کا کام تھا کہ وہ وزیراعظم کو درست صورت حال بتائیں۔
میں ہنس پڑا اور بولا بیگ صاحب آپ واقعی اتنے سادہ ہیں یا پھر ان لوگوں کو آپ سادہ سمجھ بیٹھے ہیں۔پہلے آپ کہتے ہیں کہ وزیراعظم کو درست اکانومی پر بریف نہیں کیا جارہا اور انہیں غلط فگرز بتا کر کہا جارہا ہے کہ سب اچھا ہے پھر آپ کہتے ہیں کہ جن وزیروں کا کام درست صورت حال بتانا ہے وہ اس لیے وزیراعظم کو غلط صورت حال بتارہے ہیں کہ آگے سے انہیں متعلقہ ادارے درست صورت حال نہیں بتا رہے۔ تو آپ کا مطلب ہے کہ ملک بھولے لوگوں کے ہاتھ لگ گیا ہے جنہیں بیوقوف بنانا آسان ہے؟ جن باتوں کا آپ کو مجھے علم ہے ان باتوں کا وزارت خزانہ کو پتہ نہیں؟کوئی بھی چلا جائے انہیں جو اعدادو شمار پکڑا دے وہ وزیراعظم کو تھما دیتے ہیں؟ یہ بھلا کیسے ممکن ہے ملک کا وزیراعظم سٹیٹ بنک کی اکانومی پر رپورٹ نہیں پڑھتا، چلیں مان لیتے ہیں وزیراعظم کے پاس وقت نہیں ہے تو کیا باقی لوگ بھی نہیں پڑھتے ؟ 
میں نے کہا بیگ صاحب ویسے آپ مروت میں ہر وقت وزیراعظم نواز شریف کو رعایتی نمبرز دے کر پاس کرتے رہتے ہیں کہ وہ بھولے ہیں اور انہیں غلط بتایا جاتا ہے لیکن سوال یہ ہے جب انہیں درست بات کا پتہ چلتا ہے تو پھر وہ کیا کرتے ہیں؟ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے میں نے کہا آپ کو یاد ہے دو سال قبل پانچ سو ملین یورو بانڈز فلوٹ کیے گئے۔ نیویارک میں بڑا میلہ ہوا۔ پتہ چلا کہ اس دفعہ بہت مہنگا قرضہ مل رہا ہے۔ ترکی سمیت کئی ملکوں نے بانڈز فلوٹ نہیں کیے کیونکہ مارکیٹ بہت مہنگی تھی۔ لیکن پاکستان کے وزیر خزانہ اور سیکرٹری فنانس نے کہا کچھ ہوجائے وہ بانڈز تو فلوٹ کر کے جائیں گے۔ انہوں نے کون سی اپنی جیب سے ادائیگیاں کرنی تھیں ۔ یوں پاکستانی تاریخ کا مہنگا ترین قرضہ 8.25 فیصد پر لیا گیا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ دس برس بعد پاکستان 500 ملین ڈالرز کے بدلے میں سود یا پرافٹ کے طور پر 410 ملین ڈالرز ادا کرے گا۔ اس پر ایک شور مچ گیا کیونکہ بھارت کی ایک نجی کمپنی ریلائنس کو سات سو ملین ڈالرز بانڈز 2.5 فیصد پر ملے‘ تو کیا پاکستان سے زیادہ سرمایہ کاروں کو بھارت کی ایک کمپنی پر بھروسہ تھا لہٰذا اسے کم پرافٹ پر قرضہ دیا اور ہمیں زیادہ پر؟ اس پر وزیر خزانہ نے دلچسپ جواب دیا جناب ہم اعلان کر چکے تھے لہٰذا اگر ہم بانڈز فلوٹ نہ کرتے تو ہماری ساکھ خراب ہوتی اور دوسرے نواز شریف کا حکم تھا کہ پاکستان کے حالات بہت بہتر ہوگئے تھے لہٰذا عالمی سطح پر چیک کیا جائے کہ ہماری معیشت کو کتنا سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ 
سوال اب یہ پیدا ہوتا ہے جب آپ وہاں گئے اور سرمایہ کاروں نے آپ کو دنیا کا مہنگا ترین قرضہ آفر کیا تو فوراً اندازہ ہوجانا چاہیے تھا کہ پاکستان کی عالمی معاشی اداروں میں کیا ساکھ تھی کہ بھارتی کمپنی سے بھی تین گنا مہنگا قرضہ مل رہا تھا تو اپ واپس آکر وزیراعظم کو بتادیتے کہ جناب ابھی حالات بہتر نہیں ہوئے۔ دوسری بات یہ ہے یہ کیسی ساکھ ہے جو دنیا کا مہنگا ترین قرضہ لے کر بنائی جارہی تھی ؟ آپ ترکی اور دیگر ملکوں کی طرح پیچھے ہٹ جاتے تو کیا آپ کے خلاف سرمایہ کاروں نے عالمی اخبارات میں اشتہارات لگوا دینے تھے دیکھا بھاگ گئے؟ تو کیا ایسے اشتہارات ان پانچ ملکوں کے خلاف بھی چھپے جنہوں نے پاکستان کے برعکس مہنگے قرضے لینے سے انکار کر دیا تھا؟ تیسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے جب وزیراعظم کو پتہ چلا ہم نے مہنگا قرضہ لیا ہے اور ہماری معیشت درست نہیں ہے تو انہوں نے کسی سے پوچھا پھر مجھے کیوں گولی دی گئی تھی کہ ہماری معیشت درست ہوگئی ہے ؟ تو کیا وزیراعظم کی ایک خواہش پر ہمیں 410 ملین ڈالر پرافٹ قربانی کرنے کی ضرورت تھی؟ 
جب بعد میں سلیم مانڈوی والا نے سینیٹ کی فنانس کمیٹی میں انکشاف کیا کہ دراصل یوروبانڈز خریدنے کے لیے پاکستانی بنکوں کے ذریعے 75 ملین ڈالرز پاکستان سے بھیج کر دنیا کے مہنگے ترین بانڈز خریدے گئے اور جنہوں نے خریدے ان کی نسلیں سنور گئی تھیں تو وزارت خزانہ کے سیکرٹری نے کمیٹی کو اس کی اوقات یاد دلا دی ۔ وقار مسعود وہ مہنگے بانڈز کا سودا کرنے والوں میں شامل تھے لہٰذاانہوں نے کمیٹی کی راہ میں ہر رکاوٹ ڈالی۔ جب سینیٹ کمیٹی نے ان بنکوں کے نام اور جن لوگوں نے وہ پچھتر ملین ڈالرز بھیج کر وہ بانڈز خریدے تھے مانگے تو وہ فہرست دینے سے انکار کر دیا گیاجس سے یہ شک یقین میں تبدیل ہوگیا کہ دال ہی کالی تھی اور کچھ پاکستانیوں نے اس یوروبانڈز کے نام پر بڑا مال کمایا تھا۔ سوال یہ ہے کہ جب پاکستانیوں نے وہ پانچ سو ملین ڈالرز کے بدلے چار سو دس ملین ڈالرز واپس کرنے ہیں تو پھر انہیں یہ پتہ ہونا چاہیے ان کے گاہک کون تھے اورحکومت کے چند بڑے لوگوں نے خود ہی اپنی بلیک منی وائٹ کرانے کے ساتھ ساتھ بڑا منافع بھی کما لیا تھا اور اب وہ نام دینے سے بھی انکاری تھے؟
رہی سہی کسر اس وقت نکل گئی جب موٹرویز، ایئرپورٹس اور ٹی وی ریڈیوز کی عمارتیں تک گروی رکھ کر قرضہ لیا گیا۔ جب میں نے ٹی وی اور ریڈیو کی عمارتیں گروی رکھنے کی سٹوری بریک کی تو وقتی طور پر یہ کام رک گیا۔تو کیا وزیراعظم اتنے بھولے ہیں انہیں نہیں پتہ ان کی کامرس اور فنانس کی ٹیم کیا گل کھلا رہی ہے؟ ویسے اتنا بھولا پن ان کے اپنے کاروبار میں تو کبھی دیکھنے میں نہیں آیا ۔ نواز شریف کے بچوں نے بقول ان کے صرف بارہ لاکھ قطری درہم فیکٹری کی سیل سے لندن میں اربوں کی جائیداد خرید ی لیکن یہ کیا چکر ہے پاکستان ستر ارب ڈالرز قرضہ اور دنیا کے مہنگے ترین یوروبانڈز اور موٹر ویز اور ایئرپورٹس گروی رکھ کر بھی بھی نیچے سے نیچے جارہا ہے اور روزانہ نئے قرضے لے رہا ہے ؟
جو اس ملک کو چلا رہے ہیں‘ چاہے وہ نواز شریف ہوں یا کوئی اور‘ وہ خود اور ان کے بچے تو الحمدللہ راتوں رات امیر سے امیر تر ہوتے جارہے ہیں جب کہ ملک غریب سے غریب تر ۔۔ یہ کیسی سمجھدارگیدڑ سنگھی ہے جو صرف نواز شریف ‘ ان کے بچوں اور ان کے وزیروںکے پاس ہے جو ان کے پاناما ، لندن اور دوبئی تک پھیلے ذاتی کاروباروں میں فٹافٹ مدد دیتی ہے لیکن پاکستان کے کسی کاروبار میں کام نہیں آتی؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved