تکیہ مراثیاں
انگریزی روزنامہ کی رپورٹ کے مطابق عہدِ مغلیہ کا قدیم لاہور میں ایک ثقافتی گڑھ تکیہ مراثیاں کے نام سے موسیقی کا ایک مرکز ہوا کرتا تھا‘ جہاں ملکی تاریخ کے عظیم ترین آرٹسٹ استاد غلام علی خاں سے لے کر استاد عاشق حسین‘ استاد امانت علی خاں ‘نورجہاں اور فریدہ خانم تک رنگ جمایا کرتے تھے‘ اب ایک کباڑ خانے میں تبدیل ہو کر رہ گیا ہے یہ محفلیں رات گئے تک جاری رہتیں اور جب مغل بادشاہوں نے اسے تعمیر کیا تو بھی ان کا مقصد و منتہایہی تھا۔ موچی دروازے کے قریب واقع اس تکیے کو دور دراز کے مسافر بھی رک کر رونق بخشتے اور موسیقی جیسی نعمتِ بے بہا سے لُطف اندوز ہوتے‘ تاہم مُغل بادشاہوں نے ہرگز یہ نہ سوچا تھا کہ موسیقی کا یہ عظیم مرکز ایک دن ایک لیدر فیکٹری ہو کر رہ جائے گا۔ یہاں تک کہ ایسے موسیقار جن کے بزرگ اس ثقافتی اثاثے کو زندہ رکھے ہوئے تھے جن میں شام چوراسی ‘ پٹیالہ اور شاہ عالمی گھرانہ کے بچے کھچے لوگوں نے بھی یہاں آنا جانا چھوڑ دیا جبکہ
موجودہ حکومت اس عظیم ثقافتی مرکز کو بچانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ 37برس قبل استاد بدرالزمان اور قمر الزمان یہاں پرفارم کرنے والے آخری موسیقار تھے اور اب وہاں استاد عاشق علی خاں کی قبر ہی کا نشان باقی رہ گیا ہے زمین کے اس ٹکڑے کو کسی عمران علی نے خرید لیا اور اس میں اپنی ٹینری قائم کر لی ہے۔ وہ قدیمی کمرہ اب بھی وہاں موجود ہے جہاں موسیقار اپنے فن کا مظاہرہ کیا کرتے تھے جو اب ایک دکان میں تبدیل ہو چکا ہے ع
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو
جی سی یُو میں پنجابی شعبہ
ماں بولی سے پیار کرنے والوں کے لیے یہ اطلاع باعث صد مسرت ہو گی کہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں پنجابی کا شعبہ قائم کر دیا گیا ہے۔ اگلے روز وہاں وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر حسن امیر شاہ کی طرف سے ایک پنجابی مشاعرے کے انعقاد کا اہتمام کیا گیا جس میں کم و بیش 25اہم پنجابی شعراء نے حصہ لیاجس میں ڈاکٹر صغریٰ صدف‘یونس احقر اور دیگروں نے اپنی شاعری کے نمونے پیش کئے جس میں یونیورسٹی ہذا کی معروف پنجابی مجلس پیش پیش تھی۔ اس موقعہ پر خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے اعلان کیا کہ وہاں بہت جلد شعبہ پنجابی قائم کیا جا رہا ہے اور یونیورسٹی اس سال سے بی اے آنرز پنجابی میں داخلہ دینا شروع کر دے گی انہوں نے سکولوں میں بھی پنجابی پڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔
کلیات کی دوبارہ اشاعت
ممتاز اشاعتی ادارے سنگ میل پبلی کیشنز لاہور نے خاکسار کے کلام پر مشتمل جملہ کلیات دوبارہ شائع کرنے کا بیڑہ اٹھا لیا ہے اور جلد اول پر کام شروع کر دیا ہے پانچویں جلد حال ہی میں رنگ ادب پبلشرز کراچی سے ہمارے دوست شاعر علی شاعر نے شائع کی ہے میری نظم و نثر کا سارا کام سنگ میل والے ہی شائع کریں گے جس میں میری خود نوشت سوانح بعنوان درگزشت جو کراچی کے جریدے ''مکالمہ‘‘ میں قسط وار شائع ہو رہی ہے اور ''لاتنقید‘‘ کی دوسری جلد وغیرہ۔
موسم کی تبدیلی
گرمیوں کی آمد آمد ہے‘ سویٹر وغیرہ اتر گئے ہیں اور پنکھے چالو۔ آم کے پیڑوں پر بور آ گیا ہے صبح کے وقت قریبی دیہات کی مساجد سے چندہ برائے مسجداکٹھا کرنے کے ساتھ کسی مرنے والے کی اطلاح بھی دی جاتی ہے نماز جنازہ کی جگہ اور وقت بھی۔ سبزی فروش کی آواز بھی شروع ہو جاتی ہے جو غالباً اس نے ٹیپ کرا رکھی ہے۔ ایک فاصلے پر ٹرالیاں گزرتی ہیں جن پر گانے پوری سپیڈ سے لگائے ہوتے ہیں اور‘ اب آخر میں خانہ پری کے طور پر یہ تازہ غزل:
روانگی کی انوکھی خبر بناتے ہوئے
تمام ہو گئے رختِ سفر بناتے ہوئے
ہم اپنی راہ کا روڑا ہیں آپ ہی کہ یہاں
بنائے بیٹھے ہیں دیوار‘ در بناتے ہوئے
خدا سے کچھ غلطی ہی نہ ہو گئی ہو کہیں
ہمارے آپ کے شام و سحر بناتے ہوئے
میں اس کے ساتھ جو پرواز کرنا چاہتا تھا
بنا دیا ہے پرندہ شجر بناتے ہوئے
ہماری شومئی قسمت ہمارے ساتھ رہی
غریب تر جو ہوئے مال و زر بناتے ہوئے
اس آب و تاب کی صنعت گری سے کیا حاصل
ہم آپ ہو گئے معدوم اگر بناتے ہوئے
کسی اجاڑ بیاباں میں جا نکلتا ہوں
میں خاص اپنے لیے رہگزر بناتے ہوئے
ہمیں وہ اور بھی کرنے لگے ہیں خوار وزبوں
ہوئے ذلیل جنہیں معتبر بناتے ہوئے
رہیں تو خیر‘ مگر کھائیں گے کہاں سے ظفرؔ
تبھی دکان بنا لی ہے گھر بناتے ہوئے
آج کا مقطع
سادگی اپنی کہوں یا اس کی مکاری‘ ظفر
کس لیے آیا تھا اور کس شے پہ راضی کر گیا