والدین انسان کے محسن ہوتے ہیںاور انسان کی تعمیر وترقی اور شخصیت سازی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح انسان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی اپنی بساط کے مطابق دن رات تگ ودو کرتے ہیں اور ان کی اولاد کو تادیر ان کی شفقتیں ،ـمحبتیں اور دعائیں میسر رہتی ہیں اس کے بالمقابل بعض لوگ زندگی کے ابتدائی سالوں میں ہی والدین کی شفقتوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ہر شخص کی موت کا وقت مقرر ہے چنانچہ جب وہ وقت آ جاتا ہے تو انسان کو اپنے گردوپیش میں موجود اشیاء اور اعزء اقارب کو چھوڑ کر اللہ تبارک وتعالیٰ کے پاس واپس جانا پڑتا ہے۔
میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوں جنہوں نے زندگی کے ابتدائی سالوں میں تو والدین کی بھرپور شفقتوں کو حاصل کیا لیکن والد مرحوم میری عمر کے 15 برس ہی میںداغ مفارقت دے گئے۔ ان 15برسوں کے دوران میں نے ان کی بہت سی محبتوں ، رفاقتوں، قربتوں اور شفقتوں کو حاصل کیا جو میرے لیے تاحال زندگی کا بہت بڑا اثاثہ ہیں۔ والد گرامی کی تربیت اور رفاقت کی وجہ سے دینی رجحانات پیدا ہوئے۔ وہ گھر میں اپنے قیام کے دوران زیادہ وقت اپنی لائبریری میں گزارا کرتے تھے۔ اس لائبریری میں وہ کتب بینی کے ساتھ ساتھ اداریوں، مضامین اورکتابوں کی تحریر میں مصروف رہا کرتے تھے۔ ان کے جماعتی احباب اور معتقدین جب ان سے ملاقات کے لیے آتے تو وہ پوری طرح ان کی طرف متوجہ ہو جاتے اور ان سے ملاقات کرنے اور مسائل سننے کے بعد وہ دوبارہ کتب بینی میں مشغول ہو جاتے تھے۔ ان کے کتب خانے میں اکثر کتابیں عربی زبان جب کہ بعض کتب اردو اور فارسی زبان میں بھی تھیں۔ میں اپنے بچپن کے ایام میں سکول سے واپسی پر سیرت النبیﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت وکردار کے حوالے سے آپ کی لائبریری میں موجود اردو کتب کا مطالعہ کرنے میں مصروف رہا کرتا تھا۔ بسا اوقات روزمرہ کے مسائل سے متعلقہ احادیث مبارکہ کو جاننے کے لیے میں کتب احادیث کے تراجم سے بھی استفادہ کرتا، اس دوران مشکل مقامات کے بارے میں آپ سے رہنمائی بھی حاصل کرتا۔ آپ بڑے پیار اور محبت سے ان معاملات میں میری رہنمائی فرماتے اور جو سوال پوچھاجاتا اس کا نہایت احسن اور مدلل انداز میں جواب دیتے۔
گھر کی لائبریری کے علاوہ مجھے کئی جلسوں میں ان کے ساتھ جانے کا موقع بھی میسر آتا۔ وہ اپنے وقت کے بہت بڑے خطیب اور قادر الکلام مقرر تھے ۔ مذہبی اور سیاسی موضوعات پر لوگ ان کی تقاریر کو سننے کے لیے ہمہ وقت بے تاب رہا کرتے تھے۔ اور جہاں کہیں آپ کا جلسہ رکھا جاتا عوام الناس کی ایک کثیر تعداد جوق در جوق شرکت کرتی۔ان کی خطابت کو سن کر جہاں پر سامعین پر ایک روح پرور کیفیت طاری ہو جاتی وہاں پر میں بھی ان کی خطابت سے محظوظ ہوتا اور اپنے ایمان اور جوش کو بڑھتا ہو ا محسوس کرتا۔ ان کی شعلہ نوا خطابت انسان میں سے سستی ، کاہلی اور غفلت کو کھرچ کر اس میں حرکت، توانائی اور جدوجہد کی استعداد پیدا کردیتی تھی۔ ہر جمعہ کے روز چینیاںوالی مسجد میں جمعہ کے خطبہ میں شریک ہونے کے بعد یوں محسوس ہوتا گویا کہ علمی اور روحانی اعتبار سے ہفتہ بھر کی غذا حاصل ہو چکی ہے۔ میں نے زندگی کے کئی برس ان کے ساتھ نماز تراویح کو بھی ادا کیا ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو بے مثال حافظہ عطا کیا تھا اور پورے پورے قرآن میں حال حال ہی کسی مقام پر آپ کو مغالطہ لگتا۔ آپ کو قرآن نہایت اچھی طرح یاد تھا اور آپ کی اقتداء میں نماز تراویح ادا کرنے والے لوگ آپ کے ضبط اور بے مثال حفظ سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے۔آپ ہر سال نماز تراویح کے بعد پڑھی گئی منزل کا خلاصہ بھی بیان کرتے اور عوام الناس کو قرآن مجید میں بیان کردہ احکام ومسائل سے آگاہ کرتے۔
والد مرحوم کے ساتھ مجھے سفر حج پر جانے کا موقع بھی میسر آیا ۔اس وقت گو میری عمر بہت کم تھی لیکن مجھے یاد ہے کہ میں نے اس دوران والد گرامی کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں جھکتے ، روتے اور گڑگڑاتے ہوئے پایا۔ آپ اللہ تبارک وتعالیٰ سے بڑے والہانہ انداز میں دعائیں مانگا کرتے تھے اور جب آپ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حضور سربسجود ہوتے یا اس کے سامنے دعاؤں کے لیے ہاتھوںکو پھیلاتے تو آپ پر رقت اورگریہ زاری کی ایک کیفیت طاری رہا کرتی تھی۔ یہ کیفیت سفر حج مسجد نبوی شریف کے علاوہ رمضان المبارک میں چینیانوالی مسجد کے نمازیوں نے بھی کئی مرتبہ محسوس کی تھی۔ آپ اللہ تبارک وتعالیٰ سے اس انداز میں دعا مانگتے گویا کہ آپ اس کی بارگاہ کے فقیر ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ ہی آپ کا واحد مددگار ہے۔آپ کے ساتھ سفر حج کے علاوہ میں نے انگلستان ،امریکہ اور عراق کے سفر بھی کیے اور ہر سفر میں آپ کی بے مثال خطابت اور چاہت کو دیکھنے کا موقع میسر آیا۔ اردو زبان ہی میں آپ کی خطابت اور کتابت کے دلدادہ لوگ موجود نہ تھے بلکہ عربی زبان جاننے والے لوگ بھی بڑی تعداد میں آپ کو عقیدت اور محبت کی نگاہ سے دیکھتے اور آپ کے علم سے استفادہ کیا کرتے تھے۔
والد گرامی جہاں پر خطابت اور کتابت کے اعتبار سے ممتاز تھے وہیں پر خوش لباسی ، خوش خوراکی اور اعلیٰ ذوق کے اعتبار سے بھی ممتاز شخصیت تھے۔ آپ کا دسترخوان ہمیشہ مہمانوں کے لیے کشادہ اور وسیع رہا کرتا اور لوگ آپ کی خوش اخلاقی، مہمان نوازی اور فیاضی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتے تھے۔ آپ کی سماجی زندگی کے ساتھ ساتھ گھریلو زندگی بھی ایک شفیق باپ والی زندگی تھی۔ آپ ہمیں ہمیشہ نماز کی ادائیگی کی تلقین بھی کرتے اور اس حوالے سے ہمارے معمولات پر نگاہ بھی رکھتے کہ کہیں ہم اس حوالے سے غفلت کا مظاہرہ تو نہیں کر رہے۔ آپ ہماری اخلاقی تربیت کے دوران نبی کریمﷺ کی ذات گرامی اور آپﷺ کے فرمودات کا حوالہ بھی دیا کرتے تھے اور کئی مرتبہ حوالہ دیتے دیتے محبت رسولﷺ کی وجہ سے آپ کی آنکھیں پر نم بھی ہوجاتی تھیں۔
آپ کئی مرتبہ ہمیں خود سکول بھی چھوڑنے جاتے تھے اور سکول چھوڑنے سے پہلے ہمیں ورزش کے لیے ہمیں اپنے ہمراہ گھڑ سواری کے لیے بھی لے جایا کرتے تھے۔ آپ ایک ماہر گھڑ سوار اور زبردست تیراک تھے۔ گو سماجی مصروفیات کی کثرت کی وجہ سے آپ نے یہ دونوں ورزشیں اپنی زندگی کے آخری ایام میں ترک کر دیں تھیں ۔ تاہم کئی مرتبہ شادمان میں واقع اپنی رہائش گاہ کے سامنے ورزش کی غرض سے سائیکل ضرور چلا لیا کرتے تھے۔ جن ایام میں وہ حادثے کا نشانہ بنے اس وقت میں میٹرک کے بورڈ کے پیپر دے رہا تھا۔ آپ کو میٹرک کے امتحان میں میری کامیابی سے خصوصی دلچسپی تھی۔ ڈرائیور مجھے گاڑی پر امتحانی مرکز چھوڑنے جارہا ہوتا تو کئی مرتبہ آپ چہل قدمی کرتے ہوئے گاڑی میں میرے بیٹھنے کے دوران مجھے مختلف دعائیں پڑھاتے چلے جاتے۔
آپ چاہتے تھے کہ میں تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابیاں حاصل کروں۔ میرے میٹرک کے بورڈ کے امتحان کے دوران ہی وہ حادثے کا نشانہ بنے اور جانبر نہ ہو سکے۔ نتیجتاً آپ میری تعلیمی کامیابیوں کو اپنی زندگی میں نہ دیکھ سکے لیکن آپ کی محبت ، تربیت اور شفقت آج بھی میرے لیے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے اور زندگی کے اُتار اور چڑھاؤمیں آپ نے جس انداز میں وقت گزارا اور گزارنے کی تلقین کی ۔ آپ کے وہ اعلیٰ اصول ہمیشہ میری آنکھوں کے سامنے رہتے ہیں ۔ میں دعا گو ہوں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ آپ پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے اور آپ کے درجات کو بلند فرمائے اور جس جگہ پر آپ قیامت کی دیواروں تک محو خواب ہیں اس جگہ کو آپ کے لیے رحمتوں اور سکون کا گہوارہ بنائے۔آمین