...بالآخر میں نے اُسے پا تو لیا لیکن دکان اس کی منڈی پہاڑ گنج میں تھی۔ وہ مجھے سائیکل رکشہ میں بیٹھا کر وہاں لے گیا۔ دوسری منزل پر ایک بھرے پُرے گھر میں سے ہم گزرے نہیں بلکہ چولہا پھلانگ کر دکان میں داخل ہوئے۔ ڈربہ تھا‘ دکان کیا تھی۔ بالکل کباڑخانہ‘ دو تین ہندو دو مسلمان مل کر کام چلا رہے تھے۔ گفتگو ہندوستان پاکستان پر ہی ہونا تھی اور وہ چل نکلی۔ پاکستان کے وجود کے انکار اور افراد کا ذکر بھی چھڑا۔ وہ تو چھڑنا ہی تھا۔ میرے لب و لہجے میں پاکستانیت کی شدومد دیکھ کر مسلمان یہ چاہیں کسی طرح یہ گفتگو ختم ہو جائے‘ کوئی اور رُخ اختیار کرے۔ مشتاق سہمے ہوئے کبھی اندر تصویریں صاف کرنے والے کمرے میں جائیں‘ کبھی باہر نکل آئیں۔ چہروں کے اتار چڑھائو اور اپنے مسلمان بھائیوں کی سراسمیگی دیکھ کر میں نے بھی بات خاصی بڑھا چڑھا کے بھی نہ بڑھائی۔ تب چین کا سانس لیا مسلمان لڑکوں نے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے یارانے ہیں‘ دوستیاں ہیں‘ کاروبار میں اشتراک ہے تعاون ہے۔ دھڑکا پھر بھی لگا ہوا ہے۔ اس نگار خانے میں تصویریں دھونے اور سکھانے والا نوجوان اپنی تصویر پر بہت محنت کر رہا تھا۔ میں نے کہا‘ تصویر آپ کی اچھی ہے
کیا ہم اچھے نہیں ہیں۔ اس پر میں نے اُس سے ایک تصویر مانگ ہی لی۔ انداز ہی گھائل کر دینے والا تھا۔ غریب نواز ایکسپریس جے پور درمیان میں پڑتا ہے۔ اس لیے ہندو اس گاڑی کو پنک سٹی ہی کہتا ہے۔ میرے سامنے دو نوجوان پڑھے لکھے ہی لگ رہے تھے‘ فروکش۔ دس پانچ منٹ کی خامشی کا ٹوٹنا تھا کہ پاکسان معرض بحث میں آ گیا۔ کم و بیش پون گھنٹے تک میں ہی بولتا چلا گیا۔ ایف سولہ خرید رہے ہیں آپ لوگ۔ برادر آپ نے ایٹم بم بنا لیا تو ہم نے شور نہیں مچایا۔ پھینک دیجئے لا کر‘ کس نے روکا ہے۔ آپ کو تحفظ کی ضرورت ہے‘ ہمیں بھی ہے۔ آپ ہی کیا کم تھے‘ اب تو روس بہادر کی سرحد بھی ہم سے آ ملی ہے۔ آپ حضرات سوچیے ذرا۔ ہماری آپ کی دوستی اب اور اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ آج آپ خوش ہو رہے ہیں۔ روس افغانستان میں آ گیا۔ اب پاکستان کی باری ہے۔ اگر روس کا دوسرا قدم خدا نہ کرے پاکستان میں اٹھتا ہے تو تیسرا لامحالہ ہندوستان میں پڑے گا۔ ہم تو آپ کے لیے دیوار چین ہیں۔ ہمیں تسلیم کرو۔ ہم سے تعاون کرو۔ ہم سے دوستی کرو۔ تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔ ہر وقت حالت جنگ میں رہ کر کیا ترقی کر سکتے ہیں‘ ہم۔ سوچنا تو چاہیے‘ سوچنا
تو پڑے گا ہندوستانیوں کو‘ ہندوستان کو۔ پاکستان بن گیا اب وہ مٹ نہیں سکتا۔ اب وہ مٹنے سے تو رہا۔ غرض طرح طرح سے میں پاکستانی بنا شور مچاتا رہا۔ کچھ متاثر بھی ہوئے۔ ایک ساتھی سامنے والوں میں سے اُٹھ کر غسل خانے گیا تو دوسرے نے بتایا وہ ہندو ہے۔ میرا جواب تھا‘ میں نے کب تمہیں مسلمان سمجھ کر باتیں کی ہیں۔ میں نے بحیثیت پاکستانی کے تم ہی کہو کچھ غلط کہا؟ بولا: کہتے تو تم ٹھیک ہی ہو۔ کرسی خالی دیکھ کر ایک اور صاحب پاکستان اور پاکستانی کی سننے کے لیے آ گئے۔ یہ مسلمان تھے مگر لباس چال ڈھال بول چال کھانے پینے کے انداز‘ کہیں سے بھی مسلمان ہونے کا گمان نہیں ہوتا تھا۔ بیچارے دور بیٹھے کان لگائے میری باتیں سنتے رہے تھے۔ میں نے بہار کی کیفیت پوچھی تو وہ تو حیرت زندہ رہ گیا زبان سے تو صرف اتنا کہہ سکا: ہم اگر کچھ بولتے ہیں تو آگے بات ہاتھ کے اشارے سے پوری کی گئی یعنی گردن اڑا دی جاتی ہے۔ تو جناب یہ ہے وہاں کے غیر مذہبی (سیکولر) اقتدار کی حالت۔ آپ تن من دھن کی بازی لگائے بیٹھے رہیے وہاں درِ قبولیت ابھی تک تو باز ہوا نہیں۔ آئندہ اللہ جانے کیا ہو نہ ہو۔ یہاں ہماری پینتیس سالہ قیادت نے ہمیں محرومیوں اور مایوسیوں کے سوا کیا دیا ہے۔ انتہا یہ ہے کہ نئی نسل پاکستان کے وجود میں آنے کے محرکات تک سے بے خبر اور بیگانہ ہے۔ قائد اعظم پر چھینٹے اڑانے میں پیش پیش ہے ہمارا نوجوان‘ لیکن وہاں ہندوستان میں نئی نسل حیرت زدہ ہے۔ پیچ و تاب کھا رہی ہے۔ پاکستان بن کیسے گیا اور اگر بن بھی گیا تو اب تک ہے کیوں۔ دلی ریلوے سٹیشن کے پلیٹ فارم پر میں اور اشوک کمار تو گاڑی کی راہ دیکھتے دیکھتے تھک کر ایک بنچ پر بیٹھ گئے۔ ایک بھک منگا قریب آیا۔ پہلے تو اس کے انداز مانگنے کے تھے۔ ٹھٹکا‘ جائزہ لیا اور پوچھا کہاں کے ہو؟ میں نے کہا: یہیں کا ہوں اور یہ جوتا؟ پاکستان کا نام سنتے ہی وہ آلتی پالتی مار کر فرش پر بیٹھ گیا اور پندرہ منٹ تک پاکستان بن کیسے گیا کو موضوعء گفتگو بنائے رکھا۔ اس بحث میں قریب بیٹھے ہوئے پولیس کے جوان بھی شامل ہو گئے۔ ایک آدھ نے تو اقرار بھی کر لیا لیکن وہ بھکاری جس کے جسم پر مہینوں کا میل جما ہوا تھا‘ مان کے نہیں دیا۔ میں نے کہا: بھائی سارا جھگڑا یہی ہے تم ہمارے وجود کی نفی کرتے ہو‘ اگر آج مان لو صدق دل سے کہ پاکستان ایک حقیقت ہے تو پھر ہمارا تمہارا جھگڑا ہی کیا ہے۔ یہ کشمیر اور رن کچھ وغیرہ تو حیلے بہانے ہیں۔ اب ذرا رئیس صاحب کی خیر خبر بھی تو لی جائے۔ آنکھ کھلتے ہی رونا رونے یہ بیٹھ گئے لو بھئی تیئں سو تو ہوائی جہاز کا کرایہ ہی خرچ کر کے آئے تھے اور یہاں ملے صرف تین ہزار۔ اختر فیروز نے ڈھارس بندھائی تو سنبھلے ابھی تو پہلا مشاعرہ ہے‘ بہت سے مشاعرے اور ہوں گے‘ گھبرانے کی ایسی کیا بات ہے۔ ماشا اللہ ع
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
دل چھوٹا نہ کیجئے‘ داڑھی بنائیے۔ نہائیے دھوئیے۔ سیب کھائیے کیسا سستا ہے۔ آٹھ روپے کلو اور کیلا درجن بھر اڑھائی روپے میں دستیاب ہے۔ رئیس صاحب چونکہ شگفتہ نہ تھے داڑھی بنانے کا سامان کون نکالے۔ شاہ صاحب کے سازوسامان سے کام چلاتے ہیں۔ ایک بلیڈ کی بچت تو ہو ہی گئی ہو گی۔ ایک ایک چھوٹی سی کامیابی کامرانیوں کا پیش خیمہ ہوا کرتی ہے...
آج کا مقطع
تھوڑے ہیں‘ ظفر‘ جناب کے دن
مشہور ہے انتقام اس کا