تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     29-03-2017

ہندو جمہوریہ

ہندو توا کے نئے پوسٹر بوائے، یوگی آدتیہ ناتھ کی یوپی کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے تقرری کی اطلاع ہندوستان کے سیکولر حلقوں اور اقلیتوں کے لئے ہی حیرت انگیز اور باعث تشویش نہیں تھی بلکہ موقر امریکی روزنامہ ''نیویارک ٹائمز‘‘نے بھی اس خبر کو حیرت و استعجاب کے ساتھ پیش کیا۔ اخبار نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ایک انتہائی تنقیدی اداریہ بھی تحریر کیا ،جس میں نہ صرف بی جے پی کے اس فیصلے کی مذمت کی گئی بلکہ مسلمانوں اور اقلیتوں کے خوف اور خدشات کو بھی اجاگر کیا اور ساتھ ہی یہ تلخ تبصرہ بھی کیا گیا کہ مودی حکومت، ہندوستان کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ اس اداریہ میں کہا گیا ہے کہ یو پی کے چیف منسٹر کی حیثیت سے سخت گیر لیڈر یوگی آدتیہ ناتھ کو مقرر کرنے کا وزیراعظم مودی کا اقدام ملک کی مذہبی اقلیتوں کے لئے ایک دھچکا ہے اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ 2019ء میں عام انتخابات سے قبل سیاسی حالات تبدیل ہو رہے ہیں اور مودی کی بی جے پی یہ مان رہی ہے کہ ایک سیکولر جمہوریہ کو، ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کے دیرینہ خواب کی تکمیل کے راستے میں اب کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ ''مودی کے ذریعہ ہندو انتہا پسندوں کی خطرناک قبولیت‘‘ کے عنوان سے اس اداریہ میں تحریر کیا گیا ہے کہ مودی نے اقتدار میں آنے کے بعد سے اپنی پارٹی کے کٹر ہندو حلقے کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے۔
بھارت کے ممتاز قانون دان فالی نریمن نے بھی یوگی کے تقرر پر سوال اٹھایا ہے اور وزیراعظم مودی سے پوچھا ہے کہ آیا یہ ہندو راشٹر کا آغاز ہے؟ انہوں نے کہا کہ ملکی آئین خطرے میں ہے اور جن لوگوں کو یوگی کے تقرر کا پس پردہ مقصد نظر نہیں آ رہا ہے، وہ یا تو سیاسی جماعتوں کے ترجمان ہیں یا انہیں اپنی آنکھوں اور دماغوں کا علاج کرانا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم تردید کر سکتے ہیں لیکن یہ میرا تاثر ہے کہ چیف منسٹر کی حیثیت سے اس شخص کا تقرر اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ ایک مذہبی ریاست کو شہ دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے عوام سے کہا کہ وہ وزیراعظم سے پوچھیں تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ انہیں کس بات کے لئے تیار رہنا چاہیے؟ انہوں نے بابری مسجد، رام جنم بھومی مسئلہ کے عدالت سے باہر تصفیہ کی تجویز کی بھی مخالفت کی اور کہا کہ اس کا فیصلہ سپریم کورٹ میں ہونا چاہیے۔ اسی طرح ممتاز مورخ اے جی نورانی نے بھی یوگی کے انتخاب کے فیصلے پر تنقید کی ہے۔ انہوں نے وزیراعظم مودی پر فرقہ وارانہ سیاست میں ملوث ہونے کا الزام لگاتے ہوئے عوام سے کہا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ لیکن مودی حکومت کو یہ تلخ سچائی سننا شاید گوارا نہیں ہے۔ حکومت کے ایک اعلیٰ افسر نے امریکی اخبار کے اداریہ پر اعتراض ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ جمہوری انتخابی فیصلے پر سوال کیوں کھڑے کئے جا رہے ہیں؟ لیکن ظاہر ہے کہ سچ آخر کار سچ ہوتا ہے اور اب تو مودی حکومت کھلم کھلا ہندو توا کارڈ کھیل رہی ہے۔ لہٰذا اسے اعتراض بھی نہیں کرنا چاہیے۔ وزیراعلیٰ بننے کے فوراً بعد یوگی کی جو ترجیحات ان کے فیصلوں کی صورت میں سامنے آ رہی ہیں، ان سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا مسلم مخالف انداز بدلے گا نہیں بلکہ ان کی اسی خوبی نے انہیں وزارت اعلیٰ کی کرسی دلائی ہے اور وہ اپنی روش میں اور تیزی لا کر نہ صرف اپنی پارٹی کو انتخابی فائدہ دلائیں گے بلکہ خود ان کے درجات بھی مزید بلند ہو سکیں گے۔
2014ء میں مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت قائم ہونے کے بعد سے اب تک کم و بیش تین برس کے اس عرصہ میں اقلیتوں اور مسلمانوں کے خلاف جو کارروائیاں ہوئی ہیں، ان کی روشنی میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ حکمران جماعت اور اس سے وابستہ گروہوں اور تنظیموں پر کوئی روک نہیں ہے۔ ملک کے آئین اور قوانین کو بالائے طاق رکھ کر یہ اپنی مختلف اور ملک مخالف آئیڈیالوجی کے تحت سمجھتے ہیں کہ ہندوستان صرف ہندوئوں کا ملک ہے۔ اس میں کسی اور مذہبی فرقہ کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ مسلمان پاکستان کی شکل میں اپنا حصہ لے چکے ہیں۔ ہاں اب اگر وہ ہندوستان میں رہنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے مذہبی رسوم و رواج کو ترک کرنا ہو گا۔ ہندو طرز زندگی اختیار کرنا ہو گا۔ اس کے بعد ہی انہیں ملک میں دوسرے درجے کا شہری بن کر رہنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔
اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات میں اس جماعت نے 403 اسمبلی حلقوں میں ایک مسلم امیدوار کو بھی ٹکٹ نہ دے کر جہاں ایک طرف مسلمانوں کو یہ واضح پیغام دیا کہ اسے ان کی قطعی ضرورت نہیں ہے، وہیں دوسری طرف یہ کامیاب تجربہ بھی کر لیا کہ ملک کا ایک مخصوص طبقہ اس کے نقطہ نظر کی حمایت کرتا ہے۔ چنانچہ اب اگر وہ کلی طور پر ہندو توا کے نظریہ پر عمل کرتے ہوئے اس ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی سمت میں آگے بڑھے تو اسے کامیابی مل سکتی ہے۔ شاید یہی سب کچھ مدنظر رکھ کر بھارتیہ جنتا پارٹی نے آر ایس ایس کے حکم پر یوگی آدتیہ ناتھ کو اترپردیش کا وزیراعلیٰ بنایا ہے، جو اپنے متنازعہ بیانات کے لئے خا ص طور سے اقلیتوں کے خلاف زہر افشانی کے لئے ہی نہیں بلکہ مسلم مخالف کارروائیوں کے لئے دنیا بھر میں ''شہرت‘‘ رکھتے ہیں۔ کسی عوامی جلسے کا پلیٹ فارم ہو یا ایوان پارلیمنٹ، انہوں نے جب بھی زبان کھولی ہے، مسلمانوں کو ہی مشق ستم بنایا ہے۔ گورکھپورپیٹھ کے سربراہ اور پانچ بار گورکھپور کے ممبر پارلیمنٹ رہنے والے یوگی نے اپنی حیثیت کا بے جا استعمال کرتے ہوئے شہر کے ان تمام محلوں اور بازاروں کا نام بدل ڈالا ہے ،جو مسلم ناموں سے موسوم تھے۔ یہ محلے اور بازار اب ہندو ناموں سے جانے جاتے ہیں۔ ان کی بے پناہ طاقت اور اثرورسوخ کی وجہ سے گورکھپور کے کئی محلوں اور بازاروں کو ہندو نام اپنانا پڑا۔ میاں بازار کو مایا بازار، اردو بازار کو ہندی بازار اور علی نگر کو آریہ نگر بننا پڑا۔ یوگی آدتیہ ناتھ ہندو یواوہنی کے نام سے ایک پرائیویٹ آرمی بھی رکھتے ہیں، جو خاص طور سے بقر عید کے وقت بہت سرگرم ہو جاتی ہے۔ ان کے کارندے پورے حلقہ میں دندناتے پھرتے ہیں اور قربانی کے جانوروں کو ضبط کرنا ان کا محبوب شغل بن جاتا ہے۔ یوگی کے ایک قریبی ساتھی فخریہ کہتے ہیں کہ ''ان کا دبدبہ ہے اس علاقے میں، مجال ہے کوئی مسلمان لڑکا کسی ہندو لڑکی کو چھیڑ دے یہاں۔‘‘
''لوجہاد‘‘ کی اصطلاح ہندو توا وادی طاقتوں نے گھڑی ہے۔ جس کے تحت مسلم جوانوں پر الزام ہے کہ وہ ہندو لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھنسا کر ان سے شادی کر لیتے ہیں اور انہیں مسلمان بنا لیتے ہیں۔ اس موضوع پر اپنی ایک شعلہ بیانی میں یوگی نے ہندوئوں سے اپیل کی تھی کہ وہ ایک ہندو لڑکی کے بدلے 100 مسلم لڑکیوں کو ہندو بنائیں۔ اس طرح شدھی کرن مہم کے تحت یوگی جی ان سینکڑوں عیسائیوں کو واپس ہندو دھرم میں شامل کرا چکے ہیں ،جنہیں عیسائی مشنریوں نے مبینہ طور پر لالچ دے کر عیسائی بنا ڈالا تھا۔ ان ہی خوبیوں کی وجہ سے یوگی آدتیہ ناتھ کٹر ہندو توا کے پوسٹر بوائے بن گئے اور آر ایس ایس کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے وزیراعظم مودی، بی جے پی کے صدر امت شاہ جنہوں نے خود بھی الیکشن کے دوران اپنی تقریروں کے ذریعے ہندو ئوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا کر ہندو ووٹروں کو پولرائز کر کے، اس کا خوب سیاسی فائدہ اٹھایا، یوگی کو وزیر اعلیٰ بنا دیا تاکہ ان کی مسلمانوں سے شدید نفرت کی بنیاد پر 2019ء کے پارلیمانی انتخابات میں بھی جیت حاصل کی جا سکے۔ یوگی اور وزیراعلیٰ کی حیثیت سے پورے صوبہ میں اپنی وہ ''طاقت‘‘ دکھا رہے ہیں، جس کے لئے وہ ''شہرت‘‘ رکھتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved