تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     29-03-2017

پی پی پنجاب اور ن لیگ سندھ میں!

نواز شریف سندھ اور آصف زرداری پنجاب میں متحرک ہیں۔ میں دونوں کی اس 'حرکت‘ کا خیر مقدم کرتا ہوں۔
سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت‘ دونوں مسلسل زیرِ تنقید رہتے ہیں۔ ان کی ضرورت کا ادراک مگر کم لوگ ہی کر پاتے ہیں۔ آج اس ملک کو اگر کسی نے منتشر ہونے سے روک رکھا ہے تو وہ یہی قومی سیاسی جماعتیں ہیں۔ یہ بات بارہا ثابت ہو چکی کہ عوام اگر مختلف نسلی، مسلکی اور علاقائی عصبیتوں میں مبتلا ہو جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں متحد نہیں رکھ سکتی۔ بندوق کے زور پر یہ ممکن ہے کہ خوف کی چادر تان دی جائے لیکن خوف کبھی دیرپا نہیں ہوتا۔ سب سے بڑا خوف جان کے زیاں کا ہوتا ہے۔ اگر انسان اس حد کو عبور کر جائے تو پھر اس کا راستہ روکا نہیں جا سکتا۔
مقبوضہ کشمیر کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیری نوجوان ریاستی قوت کے خوف سے آزاد ہو چکا ہے۔ اب اس کے وجود پر تو حکمرانی کی جا سکتی ہے، اس کے دل پر نہیں۔ بھارت کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ کشمیر کو مسلسل سنگینوں کے سائے میں رکھے۔ کسی ریاست کے لیے اس سے زیادہ شرمناک کوئی بات نہیں ہو سکتی کہ اس کے زیر انتظام رہنے والے لوگ دل سے نہیں، جبر سے شہری بنے رہیں۔ پاکستان کی ریاست بھی مشرقی پاکستان میں یہ تجربہ کر چکی۔ جب لوگ بے خوف ہو گئے تو آزاد ہو گئے۔
عوم کو متحد وہ سیاسی جماعتیں رکھتی ہیں، لوگ دل سے جن کی رکنیت کو قبول کرتے ہیں۔ جب ایک سیاسی جماعت کسی ملک کے سب علاقوں میں نمائندگی رکھتی ہو تو وہ غیر محسوس طریقے سے ایک ایسی قوت کا کردار ادا کرتی ہے جو مختلف علاقوں کے مکینوں کو ایک چھتری تلے جمع رکھتی ہے۔ یہ سیاسی عمل ایک طرف سیاسی قیادت کو اس سے روکتا ہے کہ وہ کسی ایک علاقے کی نمائندگی کرے‘ اور دوسری طرف لوگوں کو ایک دوسرے سے ملائے رکھتا ہے۔ اگر ایک سیاسی جماعت ملک کے تمام صوبوں میں نمائندگی رکھتی ہے تو وہ کبھی کسی ایک صوبے کی بات نہیں کرے گی۔
پیپلز پارٹی کی سیاسی قوت کی اساس سندھ میں ہے‘ لیکن وہ ملک کے چاروں صوبوں میں نمائندگی رکھتی ہے۔ اب وہ کبھی سندھ کی سیاست نہیں کر سکتی۔ بایں ہمہ ن لیگ کی بنیاد پنجاب میں ہے۔ اگر وہ کے پی اور سندھ میں بھی ہو گی تو کبھی پنجاب کی سیاست نہیں کرے گی۔ مشرقی پاکستان 1970ء کے انتخابات کے نتیجے میں دو لخت ہوا۔ عوامی لیگ کی کوئی نمائندگی مغربی پاکستان میں نہیں تھی۔ اسی طرح پورے مشرقی پاکستان میں پیپلز پارٹی کا کوئی امیدوار نہیں تھا۔ اگر انتخابات میں کوئی ایسی پارٹی جیت جاتی جس کی نمائندگی ملک کے دونوں حصوں میں ہوتی تو ملک کبھی دو ٹکڑے نہ ہوتا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور بے نظیر بھٹو کا قتل‘ دو ایسے واقعات تھے جو سندھ میں علیحدگی کی تحریک اٹھا سکتے تھے۔ پیپلز پارٹی ایک قومی جماعت ہونے کے ناتے، اس کے راستے میں حائل ہو گئی۔ اسی طرح یہ سیاسی جماعتوں کو یہ احساس ہے کہ انہوں نے اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبوں، بالخصوص بلوچستان میں محرومی کی شکایات کا کسی حد تک ازالہ کیا۔ مشرف صاحب نے تو بگتی صاحب کو مار کر محرومی کے احساس کو مزید گہرا کر دیا تھا۔ 
سیاسی جماعتوں کی ایک اور خدمت مسلکی و مذہبی تعصب کو کم کرنا ہے۔ یہ قومی سیاسی جماعتیں ہیں جو عوام کی سوچ کو متبادل زاویہ فراہم کرتی ہیں۔ سیاسی قیادت کے انتخاب میں مسلک اور رنگ و نسل بے معنی ہو جاتے ہیں۔ جو کام اہلِ دانش برسوں نہیں کر سکتے، وہ سیاسی جماعتیں ایک انتخابی عمل کے نتیجے میں کر دیتی ہیں۔ پھر لوگ قائد اعظم کا مسلک نہیں، ان کے سیاسی کردار کو دیکھتے ہیں۔ مخلوط انتخابات نے مذہبی تقسیم کو بھی کم کر دیا ہے۔ اب بشپ 'علمائے اسلام‘ کی جماعتوں میں شامل ہو رہے ہیں اور ان کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ یہ وہ ارتقائی عمل ہے جو صرف سیاست کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ ہمارے ہاں لوگوں نے کبھی اس مثبت پیش رفت کا درست انداز میں تجزیہ نہیں کیا۔
سیاسیات کا ایک عام طالب علم بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ حکومتوں کے استحکام کے لیے عصبیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ حکمران نیک اور باصلاحیت ہوتے ہوئے اگر سیاسی عصبیت سے محروم ہو تو وہ ملک کو استحکام نہیں دے سکتا۔ اس کے بر خلاف کم باصلاحیت لوگ اس لیے کامیاب حکمران ثابت ہوتے ہیں کہ انہیں سیاسی عصبیت حاصل ہوتی ہے۔ دورِ جدید میں عصبیت کا ظہور سیاسی جماعتوں کی صورت میں ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے جمہوری حکومتوں کو مستحکم سمجھا جاتا ہے کیونکہ ان کی پشت پر عوام کا اعتماد ہوتا ہے۔
سیاسی جماعتوں کی یہی اہمیت ہے جس کے پیشِ نظر وہ جوہری طور پر خیر کا باعث ہوتی ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ ایک سیاسی جماعت کا متبادل کوئی سیاسی جماعت ہی ہو سکتی ہے۔ جن ممالک میں ایک سیاسی جماعت کی حکومت کو کسی دوسری سیاسی جماعت کے ذریعے تبدیل کیا جاتا ہے‘ وہاں سیاسی استحکام ہوتا ہے اور حکومتوں کی تبدیلی سے معاشرہ کسی بڑی سماجی تبدیلی سے نہیں گزرتا۔ جمہوریت پر اگر عالمی سطح پر ایک غیر معمولی اتفاقِ رائے وجود میں آیا ہے تو اس کا باعث یہی عوامل ہیں۔
اس میں شبہ نہیں کہ ہماری سیاسی جماعتوں میں بہت کمزرویاں ہیں۔ وہ ابھی صحیح معنوں میں سیاسی جماعت بھی نہیں بن سکیں۔ انہیں اصلاح کی شدید ضرورت ہے‘ اور یہ اہلِ دانش کی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں اپنی جانب متوجہ کرتے رہیں۔ جمہوریت اسی وقت نتیجہ خیز ہو گی جب سیاسی جماعتوں میں جمہوریت ہو گی۔ اس زاویے سے سیاسی جماعتوں پر تنقید کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔
ہمارے ہاں مگر یہ نہیں ہوتا۔ اہلِِ سیاست کی کمزوریاں بیان کی جاتی ہیں اور اس سے یہ نتیجہ برآمد کیا جاتا ہے کہ اب یہ طبقہ حقِ اقتدار سے محروم ہو چکا۔ لہٰذا یہ فریضہ کسی دوسرے ریاستی ادارے کو سونپ دینا چاہیے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ سیاست پر برسوں لکھنے کے بعد بھی لوگ سیاسیات کی اس بنیادی بات سے واقف نہیں ہوتے اور قوم کو غیب سے کسی مسیحا کی آمد کی خوش خبری سناتے رہتے ہیں۔ یہ اندازِ نظر اس تہذیبی عمل کی نفی ہے جو صدیوں کے ارتقا کے نتیجے میں جمہوریت کی صورت میں متشکل ہوا ہے۔
مجھے پیپلز پارٹی سے یہ شکایت رہی ہے کہ وہ پنجاب سے دست بردار کیوں ہو گئی۔ اسی طرح میں یہ بات بھی نہیں سمجھ سکا کہ ن لیگ سندھ اور کے پی میں کیوں متحرک نہیں۔ مجھے اس سے خوشی ہوئی تھی جب تحریکِ انصاف کراچی میں سرگرم ہوئی تھی۔ تحریکِ انصاف ایک سیاسی قوت ہے۔ کراچی کے مسئلے کا حل ایک متبادل سیاسی قوت کی فراہمی ہے۔ پائیدار امن کی یہی ایک صورت ہے۔ یہ متبادل قوت کوئی قومی سیاسی جماعت ہی ہو سکتی ہے۔
یہ ایک اچھی خبر ہے کہ انتخاب کے قرب میں قومی سیاسی جماعتیں ملکی سطح پر سرگرم ہو رہی ہیں۔ اس سے فاصلے کم ہوں گے اور قوم میں نسلی، علاقائی یا مسلکی عصبیت پیدا نہیں ہو گی۔ اس لیے نواز شریف صاحب کا سندھ اور زرداری صاحب کا پنجاب میں خیرمقدم ہونا چاہیے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved