مال اللہ تبارک وتعالیٰ کی بڑی نعمت ہے اور اس کو انسان دنیا اور آخرت کی سربلندی اور بہت سے دینی اور دنیاوی فوائد کو سمیٹنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ اسی طرح مال کے ذریعے انسان اپنی اور اپنے اہل خانہ کی جائز ضروریات کی تکمیل کر سکتا ہے۔ مال کے ذریعے انسان غریب اور دکھی انسانوں کے کام آ سکتا ہے اور ان کے مسائل حل کر سکتا ہے۔ لیکن یہی مال جب انسان کو اس حد تک محبوب ہو جائے کہ انسان اپنے پروردگار اور گردوپیش میں موجود تمام لوگوں کو فراموش کر دے تو انسان کی یہ کیفیت مادہ پرستی کہلاتی ہے۔ مادہ پرستی دنیا اور آخرت میں انسان کی ذلت اور رسوائی کا ایک بڑا سبب ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے مال کی بے جا محبت کی بہت زیادہ مذمت کی ہے۔ سورہ حمزہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :''ہر غیبت کرنے والے طعنے دینے والے کی خرابی ہے۔جو مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے۔شاید وہ خیال کرتا ہے کہ اس کا مال اس کی ہمیشہ کی زندگی کا موجب ہو گا۔ہرگز نہیں وہ ضرور حطمہ میں جھونک دیا جائے گا۔اور تم کیا سمجھے کہ حطمہ کیا ہے؟ وہ اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے جو دلوں تک جا پہنچے گی۔ بیشک وہ اس میں بند کر دیئے جائیں گے۔ یعنی آگ کے لمبے لمبے ستونوں میں‘‘۔اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ ماعون میں ارشاد فرمایا''کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جو روز جزا کو جھٹلاتا ہے۔یہ وہی شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور نادار کو کھانا کھلانے کے لئے لوگوں کو ترغیب نہیں دیتا۔تو ایسے نمازیوں کی خرابی ہے۔جو اپنی نماز کی طرف سے غافل رہتے ہیں۔جو ریاکاری کرتے ہیں۔اور جو برتنے کی چیزیں مانگنے پر نہیں دیتے۔‘‘
مال میں جب اللہ تبارک وتعالیٰ کے حق کو تسلیم نہ کیا جائے اور اس کو صرف ذاتی اغراض ومقاصد کے لیے استعمال کیا جائے تو یہی مال دنیا اور آخرت میں انسان کی تباہی اور بربادی پر منتج ہو جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ قصص میں قارون کا ذکر کیا جو مادہ پرستی کی وجہ سے اپنے خزانے سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں دو ہمسایوں کا ذکر کیا جن میں سے ایک ہمسایہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی پوجا پرستش کرنے والا ‘ جب کہ دوسرا ہمسایہ فقط اپنی جاگیر اور مال پر اترانے والا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے واقعہ کو سورہ کہف میں عبرت دلانے کے لیے آیت نمبر32سے 43میں یوں بیان فرمایا ''اور ان سے دو شخصوں کا حال بیان کرو جن میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ عنایت کئے تھے اور ان کے ارد گردکھجوروں کے درخت لگا دیئے تھے اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کر دی تھی۔دونوں باغ کثرت سے پھل لاتے۔ اور اسکی پیداوار میں کسی طرح کی کمی نہ ہوتی اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی۔اور اس طرح اس شخص کو انکی پیداوار ملتی رہتی تھی تو ایک دن جبکہ وہ اپنے دوست سے باتیں کر رہا تھا کہنے لگا کہ میں تم سے مال و دولت میں بھی زیادہ ہوں اور جتھے اور جماعت کے لحاظ سے بھی زیادہ عزت والا ہوں۔اور ایسی شیخیوں سے اپنے حق میں ظلم کرتا ہوا اپنے باغ میں داخل ہوا کہنے لگا کہ میں نہیں خیال کرتا کہ یہ باغ کبھی تباہ ہو۔اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو اور اگر میں اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا بھی جاؤں تو وہاں ضرور اس سے اچھی جگہ پاؤں گا۔تو اس کا دوست جو اس سے گفتگو کر رہا تھا ،کہنے لگا کہ کیا تم اس ذات سے کفر کرتے ہو جس نے تم کو مٹی سے اورپھر نطفے سے پیدا کیا اور پھر تمہیں پورا آدمی بنایا۔مگر میں تو یہ کہتا ہوں کہ اللہ ہی میرا پروردگار ہے اور میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔اور جب تم اپنے باغ میں داخل ہوئے تو تم نے ماشاء اللہ لاقوۃ الاباللہ کیوں نہ کہا؟ اگر تم مجھے مال و اولاد میں اپنے سے کمتر دیکھتے ہو۔تو عجب نہیں کہ میرا پروردگار مجھے تمہارے باغ سے بہتر عطا فرمائے اور تمہارے اس باغ پر آسمان سے آفت بھیج دے تو وہ صاف میدان ہو جائے یا اس باغ کی نہر کا پانی گہرائی میں اتر جائے تو پھر تم اسے تلاش نہ کر سکو۔اور اسکے میووں کو عذاب نے آ گھیرا اور وہ اپنی چھتریوں پر گر کر رہ گیا تو جو مال اس نے اس پر خرچ کیا تھا، اس پر حسرت سے ہاتھ ملنے لگا۔ اور کہنے لگا کہ کاش میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناتا اور نہ ہوئی اس کے لیے کوئی جماعت کہ وہ اللہ کے سوا اس کی مدد کرتی اور نہ تھا وہ بدلہ لینے والا۔‘‘
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ قلم کی آیت نمبر 17سے 33 تک اس باغبان کی اولاد کا ذکر کیا جو اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے والا تھا جب کہ اس کی اولاد اس کی موت کے بعد بھٹک گئی اور اپنے مال میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے حق کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہ ہوئی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کا واقعہ یوں بیان فرماتے ہیں''ہم نے ان لوگوں کی اسی طرح آزمائش کی ہے جس طرح باغ والوں کی آزمائش کی تھی۔ جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ صبح ہوتے ہوتے ہم اس کا میوہ توڑ لیں گے۔اور ان شاء اللہ نہ کہا۔سو وہ ابھی سو ہی رہے تھے کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے راتوں رات اس پر ایک آفت پھر گئی تو وہ ایسا ہو گیا جیسے کٹی ہوئی کھیتی۔پھر جب صبح ہوئی تو وہ لوگ ایک دوسرے کو پکارنے لگے کہ اگر تم کو کاٹنا ہے تو اپنی کھیتی پر سویرے ہی جا پہنچو۔سو وہ چل پڑے اور آپس میں چپکے چپکے کہتے جاتے تھے۔کہ آج وہاں تمہارے پاس کوئی فقیر نہ آنے پائے اور کوشش کے ساتھ سویرے ہی جا پہنچے گویا پیداوار پر قادر ہیں۔پھر جب انہوں نے باغ کو دیکھا تو ویران پایا۔کہنے لگے کہ ہم رستہ بھول گئے ہیں نہیں بلکہ ہم بے نصیب ہو گئے۔ایک جو ان میں سمجھدار تھا بولا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم تسبیح کیوں نہیں کرتے؟دوسرے کہنے لگے کہ ہمارا پروردگار پاک ہے بیشک ہم ہی قصوروار تھے۔پھر لگے ایک دوسرے کی طرف رخ کر کے ملامت کرنے۔کہنے لگے ہائے شامت ہم ہی حد سے بڑھ گئے تھے۔امید ہے کہ ہمارا پروردگار اس کے بدلے میں ہمیں اس سے بہتر باغ عنایت کرے ہم اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ وتعالیٰ نے ابولہب کی سرکشی اور طغیانی کا ذکر کیا کہ جسے اپنے مال واسباب پر ناز تھا اور وہ اپنے قبیلے اور مال کی وجہ سے اس حد تک گھمنڈ میں مبتلا ہو چکا تھا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے نبی علیہ السلام کی رسالت کو تسلیم کرنے کی بجائے ہمہ وقت آپ کی عداوت پر تلا رہتا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ لہب میں ارشاد فرماتے ہیں''ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ خود ہلاک ہو گیا۔نہ تو اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا اور نہ وہ جو اس نے کمایا۔وہ ضرور بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہو گااور اسکی بیوی بھی ‘جو ایندھن سر پر اٹھائے پھرتی ہے۔اس کے گلے میں مونج کی رسّی ہو گی۔‘‘
قرآن مجید کے ان واقعات کے ساتھ ساتھ حدیث پاک میں ایک کوڑھی ، اندھے اور گنجے کا واقعہ آیا ہے جنہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے شفاء عطا فر مادی اور ان کو اونٹوں، گائیوں اور بکریوںکے ریوڑ عطا فرما دیے۔ کچھ عرصے کے بعد ایک فرشتے کو سائل کے روپ میں بھیج کر ان کی آزمائش کی گئی۔ تو کوڑھی اور گنجے نے مادہ پرستی کا مظاہرہ کیا اور سائل کی مدد پر آمادہ وتیار نہ ہوئے اس کے بالمقابل اندھے نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے دل وجان سے سائل کی معاونت کا ارادہ ظاہر کیا ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کوڑھی اور گنجے سے اپنی نعمتوں کو چھین لیا اوران کو سابقہ امراض میں مبتلا کر دیا۔ جب کہ اس کے بالمقابل اندھے پر اپنی نعمتوں کو برقرا ر رکھا۔
یہ تمام واقعات اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ انسان کو مال کی محبت میں اس حد تک آگے نہیں بڑھ جانا چاہیے کہ وہ اللہ ، قرابت داروں ، غریبوں، یتامیٰ اور مساکین کے حق کو بھی تسلیم کرنے سے منکر ہو جائے۔ جو شخص بھی ایسا کرے گا دنیا اور آخرت کی رسوائی کو خود مول لے گا۔ اللہ تبار ک وتعالیٰ ہم سب کو مادہ پرستی سے محفوظ فرمائے۔ آمین !