تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     29-03-2017

ڈھائی لاکھ کا وینٹی لیٹر اور ۔۔۔؟

لاہور میں جگہ جگہ کھڑی ہوئی سرخ رنگ کی چمکتی دمکتی شاندار بسوں کے عقب میں وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی تصویریں اور دائیں جانب دور سے ہی دکھائی جانے والے پنجاب سپیڈ کی عبارت بتا رہی تھی کہ لاہور واقعی ترقی کی منزلیں طے کرتا جا رہا ہے۔پنجاب سپیڈ کی بسوں کو دیکھ کر ہم خوشی سے پھولے ہی نہیں سما رہے تھے‘ انہیں فیس بک پر پوسٹ کرنے کیلئے ان بسوں کی تصویریں لینے کا ارادہ تھاکہ پکی پکائی دال میں کچھ آ گرا۔ دیکھا تو یہ ڈیرہ غازی کے ایک صاحب کے ساتھ گزرا ہوا دلسوز سانحہ تھا جسے ہمارے دوست محمد حبیب نے بھیجا تھا، حبیب جو پاکستان ایئر فورس میں وارنٹ آفیسر رہے ہیں، ان کے اس خط نے پنجاب سپیڈ اور میٹر وٹرین کا سارا مزہ ہی کر کرا کر رکھ دیا ۔
جنوبی پنجاب کے ایک متمول باپ کی خون کے آنسو رلا دینے والی یہ ایک داستان ہم سب کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے خادم اعلیٰ کے پاس اگر فرصت ہو تو اسے ایک دفعہ ضرور پڑھ لیں جس نے ڈیرہ غازی خان ایک گھر کے آنگن میں کھلنے والی کلی کو کھلنے سے پہلے ہی ادھیڑ کر رکھ دیا۔ یہ وینٹی لیٹرز کے بغیر انہی ہسپتالوں کی کہانی ہے جس نے لاہور اور سرگودھا سمیت نہ جانے پنجاب کے کتنے بچوں کی زندگیاں نگل لی ہیں جس نے اب تک ہزاروں مائوں کی گودیں اجاڑ دی ہیں۔
ڈی جی خان کے ایک جانے پہچانے کاروباری اور کئی دہائیوں سے مسلم لیگ نواز سے وابستہ چلے آتے ایک صاحب بچے کی پیدائش کیلئے اپنی بیوی کو ڈیرہ غازی خان کے ایک مشہور پرائیویٹ ہسپتال میں لے کر گئے، رات ساڑھے نو بجے کے قریب اﷲ نے اس جوڑے کو اولاد نرینہ سے نواز لیکن اچانک رات ساڑھے بارہ بجے کے قریب ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ نوزائیدہ بچے کے پھیپھڑے صحیح کام نہیں کر رہے، اس لئے آپ اسے فوری طور پر ملتان لے جائیں۔ یہ بچے کو لے کر رات دو بجے ملتان پہنچ گئے وہاں کے دو نجی ہسپتالوں سے باری باری رجوع کیا لیکن وہاں پر کوئی بھی سینئر ڈاکٹر موجود نہیں تھا بلکہ صرف نئے ڈاکٹرز ہی موجود تھے اس لئے انہوں نے اسے سیریس کیس سمجھتے ہوئے داخل کرنے سے معذرت کر لی۔ وہاں سے یہ بھاگم بھاگ ملتان کے سرکاری چلڈرن کمپلیکس پہنچے تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے نوزائیدہ کو داخل کرنے سے انکار کر دیا کہ ہمارے پاس اب کسی بھی بچے کو داخل کرنے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ مشورہ دیا گیا کہ آپ بچے کو نشتر ہسپتال لے جائیں۔
یہ بات ذہن میں رکھئے کہ اس نوزائیدہ بچے کی حالت دیکھتے ہوئے ہر جگہ موجود ڈاکٹرز یہ تنبیہ ضرور کرتے کہ بچے کی سانسیں کم ہو رہی ہیں اسے علاج کی فوری ضرورت ہے۔ چلڈرن کمپلیکس سے بچے کو نشتر ہسپتال لے جایا گیا جہاں اسے فوراً داخل تو کر لیا گیا لیکن بچے کے والد کو کہا گیا کہ اسے فوری طور پر '' سرائنا‘‘ انجکشن لگانا ہو گا۔۔۔اور چونکہ یہ بچے کے وزن کے حساب سے لگایا جاتا ہے آپ کے بچے کا وزن چونکہ تین کلو ہے ا س لئے اسے تین انجکشن لگوانے ہوں گے اور ایک انجکشن کی قیمت پندرہ ہزار روپے ہے۔ وہ صاحب تیر کی طرح نکلے اور پینتالیس ہزار روپے کے تین انجکشن خرید کر لے آئے ۔۔۔لیکن جب وہ دریا کے اس پار پہنچے تو وہاں پر انہیں ایک اور قیامت کا سامنا کرنا پڑا جب ڈاکٹروں نے یہ کہتے ہوئے اس کی سانسیں اکھیڑ دیں کہ یہ انجکشن وینٹی لیٹر کے بغیر نہیں لگائے جا سکتے اور۔۔۔اس وقت پنجاب کے تیسرے بڑے شہر کے سب سے بڑے ہسپتال میں ڈاکٹرز کی جانب سے روح فرسا خبر سنائی جا رہی تھی کہ وینٹی لیٹر نہیں ہے اور نیا وینٹی لیٹر کم از کم ڈھائی لاکھ روپے میں آتا ہے۔بچے کی بگڑتی ہوئی حالت والدین کے سامنے تھی اور باپ کی جیب میں اس وقت اب صرف چالیس ہزار روپے رہ گئے تھے لیکن اس نے یہ وینٹی لیٹر بھی اپنے جیب سے خریدنے کا فیصلہ کر لیا۔ باپ نے اپنی گاڑی میڈیکل سٹور والوں کے پاس گروی رکھنے کا فیصلہ کیالیکن اسوقت صبح کے پانچ بجنے والے تھے اور وینٹی لیٹر کہیں سے بھی نہیں مل رہا تھا۔
ہسپتال والوں کی طرف سے انہیں بتایا گیا کہ آپ فلاں جگہ جائیں ان کے پاس وینٹی لیٹر موجود ہوتے ہیں لیکن آپ کو انہیں یہ گارنٹی دینی پڑے گی کہ انجکشن لگنے کے دوران اگر بچہ انتقال کر گیا تو اس کی ذمہ داری وینٹی لیٹر دینے والوں پر نہیں ہو گی۔آپ کی یہ گارنٹی دینے سے وہ بچے کو اپنے پاس ایڈ مٹ بھی کر لیں گے، بچے کے باپ کی جانب سے متعلقہ ہسپتال سے اس یقین کی تصدیق چاہی گئی تو انہوں نے اثبات پر جواب دیا اب باپ فوری طور پر ایمبولینس لینے کیلئے باہر گیا اور جب کچھ دیر بعد واپس آیا تو بچہ نشتر ہسپتال کی ایمر جنسی کی بجائے نرسری میں شفٹ کیا جا چکا تھا۔۔۔اور پنجاب کے تیسرے بڑے شہر کے ہسپتال کی نرسری میں ایئر کنڈیشنڈ تو بہت دور کی بات پنکھے اس قدر اونچے تھے کہ صحیح طریقے سے ہوا بھی نیچے نہیں پہنچ رہی تھی۔ جب باپ نرسری وارڈ میں پہنچا تو یہ دیکھ کر اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھا گیا کیونکہ اس کا نوزائیدہ بچہ قریب المرگ تھا اور ساتھ آئی ہوئی اس کی بہن بچے کو مصنوعی سانس دینے کی کوشش کر رہی تھی کیونکہ وہاں پر آکسیجن کا بندو بست بھی نہیں تھا۔ اس کیلئے باپ ایک چھلاوے کی طرح ہسپتال سے باہر بھاگا تاکہ کرائے پر لی ہوئی ایمبولینس میں موجود آکسیجن کے سلنڈر کو نرسری میں لے آئے اور جب بد قسمت باپ سلنڈر لئے اندر داخل ہوا تو بچہ خوشحالی کی منزلیں طے کرتے ہوئے پاکستان اور سب سے بڑے ویژن رکھنے والے صوبے پنجاب سپیڈ کی برکتوں سے فوت ہو چکا تھا!!
یہ داستان جنوبی پنجاب کے ایک صاحب ثروت شخص کی ہے جو گھر سے ایک لاکھ روپے ساتھ لے کر نکلا تھا لیکن کسی پانچ سو روپے روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والے مزدوریا کسی بھی جگہ ملازمت کرنے والے بیس تیس ہزار ماہانہ تک کمانے والے ملازمین پر ایسی صورت حال میں کیا گزرتی ہو گی۔۔۔کیا اس کا پنجاب سپیڈ کو کچھ احساس ہے؟؟

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved