تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     30-03-2017

افسانہ ،حقیقت اور چند نثری نظمیں

زینت شہزادی (حسنہ علی)
19 اگست 2015 کولاہور کی ایک مصروف سڑک سے ایک نوجوان صحافی اٹھا لی جاتی ہے اور سب کو ایسے چپ لگ جاتی ہے گویا سانپ سونگھ گیا ہو۔ عدم دلچسپی کا یہ عالم کہ جیسے کوئی جیتا جاگتا انسان نہیں بلکہ بلی کا بچہ غائب ہوا ہو۔ اکا دکّا آوازوں کے سوا تمام زبانوں پر تالے۔ ویسے تو یہ قوم بڑی غیرت مند ہے اگر اس کی کوئی بیٹی امریکی جیل میں طالبان کی مدد کرنے کے جرم میں سزا کاٹ رہی ہو تو برسوں بھی گزر جائیں یہ بھولتی نہیں اور امریکی حکومت کو کوستی رہتی ہے۔ اور ٹھیک بھی ہے، ہر اچھی باشعور قوم کو ایسے ہی کرنا چاہیے۔عافیہ صدیقی کو اپنے ملک میں ایک فیئر ٹرائل کے بعد ہی سزا ملنی چاہیے اور وہ بھی اپنے وطن میں، اسی طرح جس طرح ان تمام لوگوں کو جن کو کسی نہ کسی الزام میں یہاں اٹھا لیا جاتا ہے اور ایک فیئر ٹرائل سے محروم رکھا جاتا ہے۔ آج بھی سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویزمشرّف کو اس ملک کے غیرت مند بھائی معاف نہیں کر پائے کہ اس نے ملک کی ایک بیٹی کو چند روپوں کی خاطر امریکا کے حوالے کردیا۔ مجھے یاد ہیں وہ دل جلے بھائیوں کے نعرے کہ ''مشرف قوم کی بیٹی کتنے میں بیچی؟‘‘ اور آج بھی اس کی رہائی کے لئے مختلف حلقوں میں آوازیں اٹھائی جاتی ہیں۔ پرائم منسٹر نواز شریف نے تو وعدہ بھی کر لیا ہے کہ عافیہ کی وطن واپسی تک سکون سے نہیں بیٹھیں گے۔ لیکن زینت شہزادی کے دن دہاڑے زبردستی اٹھا لئے جانے پر کسی بھائی کی غیرت نہ جاگی اور نہ اس کی غریب ماں کی فریاد سے پرائم منسٹر کے کان پر کوئی جوں رینگی۔ نہ ہی کسی دل جلے قوم کے بیٹے نے یہ پوچھنا گوارا کیا کہ اس قوم کی بیٹی کہاں ہے؟ کس حال میں ہے؟ اب اسے منافقت کہیں یا غیرت کا فقدان جو اکثر ایسے موقوں پر ہی نظر آتا ہے۔ یا شاید امریکا کے پرچم جلانا تو آسان ہے اور فائدہ مند بھی کہ لگے ہاتھوں شاید جنت بھی مل جائے لیکن قومی اداروں سے سوال پر دنیا چھن جانے کا خدشہ بہرحال رہتا ہے۔
لیکن زینت شہزادی کوئی عام لڑکی نہیں تھی، بلکہ اک فری لانس صحافی اور ایکٹوسٹ بھی تھی۔ وہ لاہور سے شائع ہونے والے اخبار نئی خبر اور میٹرو نیوز سے وابستہ تھی اس لئے یہاں مسئلہ قوم کے غیرت مند بھائیوں کا ہی نہیں بلکہ میڈیا میں بیٹھے ان بھائیوں اور بہنوں کا بھی ہے جو امریکا اور یورپ میں مسلمان عورتوں کے ساتھ کسی بھی تعصب پر تو رنجیدہ ہو جاتے ہیں یا پارلیمنٹ میں کسی عورت پر کسے گئے فقرے پر تو پورا پروگرام کرلیتے ہیں لیکن اپنی ایک ساتھی کے غائب ہونے پر انہیں نسیان کا مرض لاحق ہو جاتا ہے۔ جب عمر چیمہ کو ریاستی ادارے اٹھا لے جاتے ہیں یا جب اینکر پرسن حامد میر پر حملہ ہوتا ہے تو تمام میڈیا ہاؤسز سے اس کے خلاف احتجاج ہوتا ہے۔ PFUJ بھی حرکت میں آتی ہے اور ''سافما‘‘ بھی بیان جاری کرتا ہے ، صحافیوں میں ایک یکجہتی نظر آتی ہے ، مگر ایک لڑکی جس کے پیچھے کوئی طاقتور مرد نہ ہو، نہ کوئی بڑا میڈیا ہاؤس یا پھر کوئی پاپولر سیاسی‘ سماجی یا مذہبی تنظیم کا نام تو اس کے حصے میں 5 منٹ کا ایئر ٹائم بھی نہیں آتا۔ جب پچھلے دنوں چند بلاگرز غائب ہوئے تو میڈیا اور سول سوسائٹی دونوں ہی نے انکے کیس کوسنجیدگی سے اٹھایا جب تک کہ ان میں سے تین بلاگرز خیریت سے واپس نہ آ گئے۔ لیکن زینت شہزادی کے لئے نہ PFUJ حرکت میں آ ئی، اور نہ سول سوسائٹی۔ حتی کہ وہ NGOs جو عورتوں کے حق میں نعرے لگاتی نظر آتی ہیں، وہ بھی خاموش۔۔ یہ خاموشی مجھے پریشان کرتی ہے۔ پاکستان کی پہلی صحافی عورت غائب ہو جائے اور 15 ماہ تک اس کا کوئی پتا نہ چلے اور ملک میں اتنی خاموشی ہو کیا یہ پریشان کن بات نہیں؟میں اس اجتماعی خاموشی کو سمجھنے سے بھی قاصر ہوں؟ایسا کیا کیا تھا زینت شہزادی نے جو اس سے پہلے کسی صحافی یا سماجی کارکن نے نہ کیا ہو؟
ایک مسنگ ہندوستانی کی تلاش؟ ایک جذباتی عاشق جو اپنی محبوبہ سے ملنے غیرقانونی طریقے سے پاکستان میں داخل ہوا اور جس کو را کا ایجنٹ ہونے کے شبہ میں پکڑ لیا گیا۔ اس گمشدہ ہندوستانی نوجوان کی روتی ماں سے وعدہ کہ اس کے لاڈلے بیٹے کوڈھونڈھ کر لائے گی۔ کیا یہ اتنا بڑا گناہ تھا کہ اس صحافی کی گمشدگی پر سوال اٹھانا بھی کسی نے گوارا نہ کیا؟ کیا اس سے پہلے صحافیوں نے امن کے علمبرداروں کا کردار نہیں نبھایا؟ کیا یہ قصور اتنا بڑا تھا کہ پوری قوم نے اس کی طرف سے منہ ہی موڑ لیا؟اداروں کی حساسیت تو سمجھ آتی ہے، پر قومی بے حسی نہیں۔
بھلا ہو صبا اعتزاز کا اور ایک غیر ملکی چینل کا جس کے توسط سے پتا چلا کہ زینت شہزادی کی گمشدگی نے اس کے گھر کو قبرستان بنا دیا ہے۔ اس کے نوجوان بھائی صدام نے بہن کے غم اور فکر میں خودکشی کر لی اور اس کی بیوہ ماں کنیز بی بی عدالت میں دھکے کھا رہی ہے کہ بیٹی نہ سہی اس کی لاش ہی دے دو کہ دل کو قرار آ جائے۔مضحکہ خیز بات تو یہ ہے کہ جسے را کا ایجنٹ سمجھ کر پکڑا گیا وہ تو بازیاب ہو گیا اور اسے پاکستان میں غیر قانونی طریقے سے داخل ہونے پر تین سال کی سزا بھی سنا دی گئی لیکن اس کی گمشدگی پر سوال اٹھانے والی کا کوئی اتا پتا نہیں۔ یعنی مملکت خداداد میں ایک مبینہ را کے ایجنٹ کے لئے تو معافی ہے پر اس کی گمشدگی پر سوال اٹھانا ناقابل فراموش جرم۔۔۔۔
شہید
(ڈاکٹر احمد حسن رانجھا)
وہ دونوں شہید تھے۔
ان دونوں کی ملاقات جنت میں ہوئی تھی۔
انہوں نے آپس میں علیک سلیک کی۔
ایک دوسرے کا تعارف کیا،
بات چل نکلی، رسمی بات چیت بے تکلفی میں بدل گئی۔
ایک نے بتایا وہ پاکستانی فوجی تھا،
کشمیر میں لائن آف کنٹرول پہ بھارتی فوجیوں سے بہادری سے لڑا
اور شہید ہو گیا۔
دوسرے نے اسے حقارت سے دیکھا،
ناک چڑھائی اور
رعونت سے بولا تم تو ناپاک ہندو بنیئے کے ہاتھوں شہید ہوئے ہو،
مجھے تو الحمدللہ ایک باریش مسلمان نے خودکش حملے میں شہید کیا تھا۔
رات
رات جب گائوں کی گلیوں میں اترتی
تو وہ ایک زندہ رات ہوتی
طاقچے میں دیا روشن ہوتا
دیے کی لو پھڑپھڑاتی
روشنی آنگن میں رقص کرتی
بچپنے کا کھلنڈرا پن
ہم شور مچاتے آنگن میں کھیلتے
خوب ادھم مچتا
آوازوں کا شور آسمان سر پہ اٹھا لیتا
اب بڑھاپے کی دہلیز پہ
شہر کی اداس تنہا راتیں ہیں
ایک مردہ سی چکا چوند ہے اور
یادوں میں کہیں
ایک دیا اور ایک طاقچہ زندہ ہے
قبریں
قبرستان میں بھی کتنی تفریق ہے،
امیر لوگوں کی قبریں،
عالیشان قبریں۔
کسی قبر کا تعویز سنگ مرمر کا تو کسی کا سنگ سرخ کا،
لوح پہ تحریر خوش نویس کاتبوں کے ہاتھ کی، خوش نما رنگوں سے مزین۔
درمیانے طبقے کی قبریں سیمنٹ کا تعویز اوپر چونے کا لیپ، ادھ مٹی لوح، شکستہ ادھ مٹے حروف،
جو پڑھے نہیں جا سکتے
غریب کچی قبریں،
بے سروسامان، بے نام و نشا ن جیسے ان کا کوئی والی وارث نہیں۔
رنگو گورکن جب رات کو
قبریں کھود کر ہڈیاں چراتا ہے،
حکیم بندو خان کو بیچنے کے لئے
تونہ جانے کیوں
ان سے نکلنے والے سب ڈھانچے
ایک جیسے ہوتے ہیں۔
سر منڈل کا راجہ
برف پوش پہاڑ تھے
پہاڑوں کی چو ٹیاں آسمان سے
ہم کلام تھیں، برف کی چادریں آسمانوں نے بڑی عقیدت سے انہیں دان کی تھیں، جھیلیں تھی زمرد پانیوں کی، پربتوں کے سر سبز صنوبر تھے جو ان پانیو ں پہ سایہ کرتے تھے، رنگ برنگے پھول خنک بار ہواوئں پہ رقص کرتے تھے اور فضائو ں کو رنگوں سے بھرتے تھے، میں جانے کتنے دن ہی پربتوں کی ان بھول بھلیوں میں بھٹکتا رہا، باغوں میں پھرتا تھا، تتلیوں کے پیچھے بھاگتا، ان کے رنگ آنکھوں میں سمیٹتا، برف پوش پہاڑوں کے نقرئی عکس دل میں اتر جاتے
جانتے ہیں مہینوں پہ پھیلی پربتوں کی یہ سیر میں نے صرف سو روپے میں کی
میں علی اکبر ناطق کی کتاب
''سر منڈل کا راجہ‘‘ خرید لایا تھا
یہ کتاب کھولتا ہوں
اور پربتوں سے آگے
ان دیکھی دنیائوں کو نکل جاتا ہوں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved