سندھ میں نوازلیگ نے بھرپورانتخابی مہم کا آغاز کر رکھا ہے۔ حیدرآبادمیں وزیر اعظم کے دورے،''ورکرز کنونشن‘‘اوردوسری تقاریب اورپھریہاں بھی میٹرو بس سے یونیورسٹی اورموٹروے کے منصوبوں کااعلان کیاگیا۔اس نادرشاہی ترقی کے اعلانات پرعملی جامہ کس حد تک پہنایاجائے گاسب اندرسے ضرورجانتے ہیں۔لیکن سندھ، حیدرآبادکے غریب آج مجبوری کی اس سطح تک جھونک دیئے گئے ہیں کہ اب وہ اس نظام میں ان جھوٹے وعدوں سے ہی دل بہلانے کے علاوہ کسی بہتری اورخوشحالی سے محروم ہیں۔اپنے آپ کومغل شہنشاہوں کی ایک نئی پیڑھی سمجھنے والے ان حکمرانوں کے ساتھ مغلیہ سلوک کرنے والوں کوہی قربت اورٹھیکے نصیب ہوتے ہیں۔اس لیے وہ اب ان استقبالیوں کو بھی شاہانہ بنانے کے ناٹک کرنے کے ذریعے اپنے مالیاتی مفادات پروان چڑھاتے ہیں۔اس ریت ورواج کے مطابق 'حیدرآباد چیمبرآف کامرس‘ نے سونے کا پانچ تولے کاتاج پہنا کرمیاں صاحب کی ایک مرتبہ پھرتاج پوشی اوراستقبال کانذرانہ پیش کیا۔لیکن حکمرانوں اور سامراجی اداروں کی تمام تر ترقی اور اقتصادی کامیابیوں کے سرٹیفکیٹوں اور ٹرافیوں کے باوجود پاکستان کے عوام کی معاشی خستہ حالی بڑھی ہے، ان کی زندگیوں میںکوئی بہتر نہیں آئی ۔تیسری باروزیر اعظم بننے اورچوتھی مرتبہ پھر سے اس عہدے کو پانے کے روشن امکانات کا پروپیگنڈا زوروں پرہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اتنابھاری مینڈیٹ رکھنے والی حکومت نے پچھلے تقریباً چار سال کا عرصہ جس مسلسل بحرانی کیفیت میں نکالا ہے اس میں اس کا بچ جانا بنیادی طور پر ان بحرانوں اور مزاحمتوں کے ایشوز اور طرز عمل کے کردار پر ہی تھا۔ جہاں کرپشن ایک سماجی معمول بن چکا ہے وہاں عوامی مزاحمت کو کرپشن پر ابھارنا آخری تجزیے میں مضحکہ خیز بن جاتا ہے اور عوام ایسی تحریکوں اور سیاسی کاوش کو سنجیدہ لیتے ہیں نہیں ہیں۔ عمران خان اور تحریک انصاف کا پاناما کا شور اور فیصلے میں تاخیر پر عجیب سماں بنا ہوا ہے۔ ان کے بلند پیمانے کے مفکرین اور قائدین بار بار ''پاناما کے فیصلے‘‘ کو عوام کا سب سے سلگتا ایشو قرار دے کر شاید اپنے آپ کو اس کی اہمیت کے خول میںآسودہ رکھنے کی کاوشیں کررہے ہیں۔لیکن عوام کو زیادہ سنجیدہ ایشوز میں ہر روز جینا ہے،روٹی روزی کاانتظام کرناہے،علاج اور تعلیم کی کٹھن جدوجہد کرنی ہے،زندگی گزارنے کے لیے، زندگی کی ضروریات کے حصول کے لیے مسلسل کشمکش کرنی ہے۔ ان کونہ تو آئین اور قانون کے پیچیدگیوں سے زیادہ دلچسپی ہے اور نہ ہی سیکولرازم اور مذہبی بحثوں سے ۔ نہ سوشل میڈیا کی نورا کشتیوں اور کردار کشیوں سے کوئی غرض ہے اور نہ ہی وہ اپنا اگلا دن گزارنے کے لیے کسی فیصلے کے انتظار میں اپنا قیمتی وقت برباد کرسکتے ہیں ۔ کیونکہ ان کے لیے تو فیصلے کی گھڑی ہر روز ان کی چوکھٹ پر دستک دیتی ہے۔
اگر فیصلہ آبھی جائے، نواز شریف برطرف بھی ہوجائیں تو اس سے کوئی بڑا فرق نہیںپڑنے والا۔ اس ملک کے حالات بدلنے والے نہیں ہیں ۔کیونکہ بنیادی ایشو اورفیصلہ کن معاشی واقتصادی پالیسیوں پر نواز لیگ اور تحریک انصاف کی پالیسیاں ایک ہی '' نظریے‘‘ پر مبنی ہیں۔مذہبی پارٹیوں اور موجودہ قیادت میں پیپلز پارٹی بھی پوری طرح اس نظام زر کی معاشیات اور سماجی ڈھانچے کے تابع سیاست کرنے کو ہی اپنے مالیاتی اور سماجی اثاثوں کے تحفظ کے لیے موزوں سمجھتی ہیں ۔ باقی پارٹیوں کی سیاست بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں رہی ہے۔ آج کے سیاسی افق پر موجود تقریباً تمام پارٹیاں پچھلے عرصے میں کسی نہ کسی اقتدار میں رہی ہیں اور آج بھی مختلف صوبوںکی حکمرانی میں ہی ہیں ۔ان میں اور نواز لیگ میں نہ کوئی فرق ہے اور نہ ہی عوام محسوس کرسکتے ہیں۔لیکن اس نظام میں بھی فیصلے آنے اور ان کے اثر انداز اور قابل عمل ہونے کے لیے بھی ایک مخصوص وقت کے لمحات ہوتے ہیں۔ اگر وہ وقت گزرجائے تو ان فیصلوں اور اقدامات کی اہمیت اور افادیت ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ شاید اب بھی کچھ ایسے ہی ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی نے زرداری کے دورہ لاہور کے دوران پھر ''تمام سیاسی قوتوں‘‘ کو ساتھ لے کر انتخابات کو شفاف بنانے کے پروگرام تک ہی اپنا انتخابی منشور واضح کیا ہے۔ یہی تمام سیاسی قوتیں پچھلے 40سال سے انہی انتخابات کے ذریعے ''سیاسی قوتیں‘‘ بنی ہیں جن کو اب یہ شفاف کرنے چلی ہیں۔پھر ہوگئے شفاف! ان چار دہائیوں میں حکمرانوں کی باہمی لڑائیاں اور الزام تراشیاں کتنی ہی ناقابل برداشت حدتک زہریلی کیوں نہ ہوں لیکن اس سارے عرصے میں اس نظام زر کی پروردہ ان قیادتوں،فوجی آمریتوں اور پارٹیوں نے محنت کشوں کے خلاف وارداتوں میں کمال کی یگانگت اور اتفاق کا مظاہرہ کیا ہے۔ سامراجی نسخوں پر مبنی پالیسیوں کے تحت مزدوروں کی یونین سازی کو ایک بتدریج طریقہ کار سے منتشر کیا ہے۔ آج پاکستان میں یونینوں میں منظم محنت کشوں کی تعداد ایک فیصد سے بھی گر چکی ہے۔ طلبہ یونینوں پر پابندی ہر پارٹی اور ہر فوجی آمریت کے دور میںجاری رہی ۔ نجکاری لبر لائزیشن او ر ڈی ریگولیشن سے علاج، ٹرانسپورٹ، تعلیم، بجلی، پانی اور تقریباً ہر شعبے کو نجی شعبے میں دے کر غریب عوام کوان کی خرید سے بتدریج محروم ہی کیا ہے۔
اب 2018 ء کے انتخابات کے لیے پھر یہ سیاسی نورا کشتی کا میدان سجے گا۔ پارٹی پروگراموں میں اس نظام کو بہتر کرنے کے عزائم بلندو بانگ دعوئوں کے ساتھ پیش کیے جائیں گے۔ لیکن غریبوں اور مزدوروں کے لیے کوئی ٹھوس اقدام اگر درج بھی ہوگا تو اس کے مصنف کو کم از کم اتنا تو معلوم ہی ہوگا کہ اس نظام میں یہ ممکن نہیں، کیونکہ گنجائش ختم ہوچکی ہے۔ نواز لیگ جس ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو کر اس مہم میں جارہی ہے وہ کسی وقت بھی گر سکتا ہے لیکن اگر حزب اختلاف نے بھی اس گھوڑے کی سواری کرنی ہے تو جیت وہ بھی نہیں سکیں گے۔ لیکن اس مرتبہ لگتا ہے کہ کوئی بڑا واقعہ یا معروض میں دھماکہ خیز تبدیلی کے فقدان کی صورت میں عوام کی انتخابات میں عدم دلچسپی بھی انتہاپر ہوگی۔ اس مرتبہ پیسے کا زیادہ بڑا تماشا ہوگا۔ جو حکومت اور اپوزیشن نے پچھلے عرصوں میں لوٹا ہے اس کو بڑے دائو پر لگائیں گے۔ کیونکہ ان کو پتہ ہے کہ یہ وہ جوا ہے جس میں صرف عوام ہارتے ہیں سرمایہ دار اور جاگیر دار ہمیشہ جیتتے ہیں۔ اس سیاسی جبر میں جہاں عوام میں ایک غم وغصہ اور اضطراب ہے وہاں مزدوروں کے متحرک کارکنان کی شورش میںبھی کبھی تھکاوٹیں آتی ہیں۔ لیکن عوام کو تو جینا ہے۔ اس جینے کے لیے ان کو ہرروز ایک لڑائی لڑنی ہے۔ آج وہ بکھر کر اپنی اپنی لڑئی لڑرہے ہیں ،کبھی ادارے کی حد تک اکٹھے ہو کر بھی لڑتے ہیں ۔ لیکن ایک ایسا جبر ہے جس نے ابھی تک اس طبقاتی بغاوت کو روکا ہوا ہے جس سے یہ سب بدلے گا ۔لیکن آج ان پر سیاست اورمعاشرت میں شراکت کے تمام دروازے بند کردیے گئے ہیں۔
احمد ندیم قاسی نے شاید ہی ایک عارضی معروضی کیفیت کے بارے میںلکھا تھا۔ ؎
زندگی کے جتنے دروازے ہیں مجھ پہ بند ہیں
دیکھنا۔۔۔ حد نظر سے آگے بڑھ کر دیکھنا بھی جرم ہے
سوچنا ۔۔۔اپنے عقیدوں اور یقینوں سے نکل کر سوچنا بھی جرم ہے
آسماں در آسماں اسرار کی پرتیں ہٹا کر جھانکنا بھی جرم ہے
کیوں بھی کہنا جرم ہے، کیسے بھی کہنا جرم ہے
سانس لینے کی تو آزادی میسر ہے مگر
زندہ رہنے کے لیے انسان کو کچھ اور بھی درکار ہے
اور اس کچھ اور بھی کا تذکرہ بھی جرم ہے
اے خداوندانِ ایوانِ عقائد
اے ہنر مندانِ آئین و سیاست
زندگی کے نام پر بس اک عنایت چاہیے
مجھ کو ان سارے جرائم کی اجازت چاہیے
قاسمی صاحب کو بہت بہتر معلوم تھا کہ جب محنت کش بغاوت کا جرم کرتے ہیں تو پھر اجازت نہیں لیا کرتے سوشلسٹ انقلاب سے تمام دولت مند بھیڑیوں کو کیفر کردار تک پہنچاتے ہیں!