یہ 5300سال پہلے کے ایک وقوعۂ قتل کی پُراسرار کہانی ہے جو ایک تجربہ کار سراغ رساں کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے۔ جب اٹلی کے ایک چھوٹے سے عجائب گھر کی سربراہ نے انسپکٹر الیگزانڈرہورن جس کا تعلق میونخ پولیس سے تھا‘ کو بلا کر پوچھا کہ آیا اس نے کبھی برفانی معاملات کی تفتیش بھی کی ہے تو اس نے اثبات میں جواب دیا تو میوزیم کی ڈائریکٹر نے اسے کہا کہ تمہارے لیے میرے پاس ایک قدیم ترین کیس ہے۔ ایک نامعلوم شخص کی لاش کوئی پچیس سال سے ان کے برف خانے میں محفوظ تھی جو تانبا عہد کی ایک ممّی تھی لیکن بعد میں دریافت کی گئی ممیوں سے زیادہ مکمل اور ''تندرست‘‘ تھی۔ یہ ایک گلیشئر میں دبی رہی اور گلیشئرکے پگھلنے پر نمودار ہوئی اور سائنس دانوں کے ہتھے چڑھی تھی اور جسے دو کوہ نوردوں نے دریافت کیا تھا‘ اسے آئس مین کا نام دیا گیا۔ اس کی موت کی وجہ دس سال تک نامعلوم ہی رہی جس کے بعد لاش کے ایکسرے کے بعد معلوم ہوا کہ اسے قتل کیا گیا تھا اور اس کی موت تیر کے ایک زخم سے ہوئی جو اس کے کندھے کے نیچے پشت پر لگایا گیا تھا اور اب اس ترقی یافتہ زمانے
میں ہورن کے لیے یہ ممکن ہوا کہ وہ اس کہانی کے ٹکڑوں کو جوڑ سکے جو 3300سال قبل از مسیح پیش آئی تھی۔ گلیشئر نے نہ صرف آئس مین کو منجمد کر دیا تھا بلکہ برف اس کے اعضاء کو بھی صحیح و سالم رکھنے کا باعث بنی تھی حتیٰ کہ اس کی جلد بھی جوں کی توں رہی اور اس کے معدے میں جو کچھ تھا‘ پانچ ہزار سال بعد وہ بھی ہورن پر عیاں ہو چکا تھا جبکہ اکثر معاملات میں اتنی تفصیل سے اب بھی یہ جاننا ممکن نہیں تھا۔ چنانچہ سائنس دانوں پر اس کے سارے اسرار کھلتے چلے گئے۔ وہ پانچ فٹ پانچ انچ لمبا تھا جو کہ زمانہ و حال کی اوسط لمبائی ہے۔ اس کا وزن 110پائونڈ تھا۔ بھوری آنکھیں اور کاندھے تک لمبے ڈارک برائون بال اس کی عمر اس وقت 45سال تھی۔ وہ ایک پیدل چلنے اور مشقت نہ کرنے والا شخص تھا جس کے دانت بھی صحیح و سلامت تھے۔ اس کا جسم چربی سے محروم تھا۔
اگر اس میوزیم کی کھڑکی سے دیکھا جائے جہاں اس کی لاش پڑی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ اس کے ہاتھ غیر معمولی طور پر چھوٹے تھے جن پر کسی مشقت کا بھی کوئی نشان نہیں تھا جس سے پتا چلتا ہے کہ وہ کوئی محنت کش شخص نہیں تھا۔
قتل کے جدید واقعات کی تفتیش میں فورنیزک سائنس سے مدد لی جاتی رہی ہے لیکن اس کیس میں تفتیش کے مزید ترقی یافتہ سائنسی آلات سے بھی مدد حاصل کی گئی۔ اس کے معدے کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کی موت موسم بہار یا شروع گرما میں واقع ہوئی۔ یہ بھی پتا چلا کہ آخری دو دنوں میں اس نے تین منفرد کھانے کھائے تھے اور 6500فٹ بلندی پر چڑھا اترا تھا جہاں دس ہزار پانچ سو فٹ کی بلندی پر اس کی لاش برآمد ہوئی تھی۔ اس کے جسم پر ایک نمایاں زخم تھا جو تیر کے زخم کے علاوہ تھا۔ یہ گہرا زخم ہاتھ کے انگوٹھے اور انگشت شہادت کے درمیان تھا جو ہڈی تک چلا گیا تھا۔ یہ ایک بڑا فعال دفاعی زخم تھا جبکہ اس کے جسم پر اور کوئی زخم نہ تھا اور نہ ہی جسم پر کوئی رگڑ کا نشان جس سے یہ اندازہ لگایا گیا کہ اس لڑائی میں اس نے اپنے قاتل کو قتل کر دیا تھا۔ اندازاً اپنی موت سے آدھ گھنٹہ پہلے اس نے پیٹ بھر کے کھانا کھایا تھا۔ تانبا عہد کی خوراک میں گوشت روٹی چربی کی معمولی مقدار اور پنیر تھی۔ یہ شہادت بھی ملی کہ اس کا کچھ کھانا فوراً پہلے ہی تیار کیا گیا تھا۔ کھانے کے نصف گھنٹہ بعد اس کا قاتل آ پہنچا تھا جس نے اسے 100فٹ کے فاصلے سے نشانہ بنایا۔ تیر اس کی بائیں بغل تک جا پہنچا تھا۔ اس کی اہم رگ کو ایک انچ تک کاٹ دیا تھا جو کہ جان لیوا تھا‘ اس قدر کہ اس زمانے میں بھی اس سے صحت یاب ہونا ممکن نہ تھا۔ زخم کے زاویے سے معلوم ہوتا تھا کہ یا تو اس پر اوپر سے حملہ کیا گیا ہے یا پیچھے سے۔
اس قتل کا مقصد ڈکیتی تو نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ قتل اب بھی سائنس دانوں پر کئی راز وا کرنے کا باعث ہے۔ قاتل اپنے فعل کو پوشیدہ بھی رکھنا چاہتا تھا۔ آئس مین کے کپڑے موسم کے مطابق تھے جو کم از کم دس جانوروں کی کھال سے تیار کردہ تھے جو بجائے خود چھ قسموں کے تھے۔ بہرحال اس لاش کا معائنہ اب تک جاری ہے۔ انسپکٹر ہورن کے مطابق ابھی ایک چیز کا دریافت ہونا باقی تھا اور اس کے حل کی کوئی امید بھی نہیں تھی اور وہ یہ تھی کہ آئس مین کا قاتل آخر کون تھا؟ زندگی اور اپنی موت کے حوالے سے بھی آئس مین اپنے آبائو اجداد سے مختلف نہیں تھا۔ وہ ہم سے اس قدر قریب ہے جب وہ پہاڑ پر جاتا ہے تو وہی اوزار روزانہ استعمال کرتا ہے جو ہم کرتے ہیں۔ صرف ہئیت کا فرق ہے۔ ہورن بتاتا ہے‘ ہم اب بھی ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں اور جس سے گمان گزرتا ہے کہ اس دوران ارتقاء نے کوئی خاص تیر نہیں مارا ہے۔
اس کے ساتھ ہی تصویری سلسلہ بھی ہے۔ اس پہاڑی کی تصویر ہے جہاں آئس مین کی لاش پائی گئی تھی اس کے علاوہ اس کا ایک پورا بازو اور ایک پوری ٹانگ دکھائی گئی ہے۔ ساتھ ہی وہاں سے پایا جانے والا اس کا خنجر اور کلہاڑی۔ ان سب کے علاوہ اس کی ایک خیالی تصویر بھی بنائی اور شائع کی گئی ہے جس میں اس نے ہاتھ میں ایک لمبا سوٹا اٹھا رکھا ہے۔ اس کا جسم پیٹ تک برہنہ دکھایا گیا ہے جبکہ نچلا دھڑ مذکورہ پائجامہ نما پوشاک سے ڈھکا ہوا ہے‘ داڑھی دکھائی گئی ہے اور سر کے لمبے بال وہ چل رہا ہے یا کھڑا ہے۔
(اخذ و ترجمہ: ''نیو یارک ٹائمز ‘‘ مورخہ28مارچ2017)
آج کا مطلع
ڈر ہے کوئی وجود کے اندر کُھلا ہوا
یہ راز وہ ہے جو نہیں مجھ پر کُھلا ہوا