پھر کتاب یاد آتی ہے‘ اے میرے بندو‘ تم پر افسوس۔ پھر کتاب یاد آتی ہے: آخرت ہی افضل و اعلیٰ ہے مگر تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو‘ پھر سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ یاد آتے ہیں: سوّرکی ہڈی کی مانند دنیا کوڑھیوں کے ہاتھ میں ہے۔
پنجابی کا ایک لفظ ہے ''بیبا‘‘۔ اردو میں اس کا متبادل ضرور ہو گا۔ سوچتا رہا مگر سوجھا نہیں۔ ڈاکٹر خورشید رضوی سے بات نہ ہو سکی۔ افتخار عارف کا نمبر کھو گیا ہے اور شعیب بن عزیز‘ وزیر اعلیٰ کو پیارے ہو چکے۔ ''بیبا‘‘ کہتے ہیں‘ ظاہر و باطن میں شائستہ اور خوش دل آدمی کو۔ وہ انداز جو صوفیوں میں ہوتا ہے۔ انوار فطرت صوفی تو نہیں مگر ''بیبا‘‘ آدمی ہے۔
چیت کا یہ دن چڑھا تو ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی ہی رہی۔ کسی نے بتایا کہ انوار صاحب نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ چیت پنجاب کے میدانوں میں بہار کاجوبن ہوتا ہے۔ کھیتوں میں گندم سنہری ہونے لگتی اور فضا میں گلوں کی خوشبو پھیلتی ہے ۔؎
ہے ہوا میں شراب کی تاثیر
بادہ نوشی ہے باد پیمائی
لوک گیت کے الفاظ یہ ہیں۔ ''چیت چڑھیا تے اساں تینوں تکیا‘ رنگاں دی جنج چڑھے چڑھے‘‘۔ موسم گل کا آغاز ہوا ‘ ہم نے تجھے دیکھا۔ رنگوں کی بارات اب چڑھے گی۔
انوار صاحب کسی سے ناراض کیسے ہو گئے اور کوئی ان سے شکوہ سنج کیسے ہوا۔ ان کے مدیر محترم سے بات کی۔ بولے: بس‘ ایک چھوٹی سی گڑ بڑ ہو گئی۔ انوار صاحب سے رابطہ کیا تو یہی بات انہوں نے کہی: بس‘ بھائی ایک چھوٹی سی غلطی ہو گئی۔ ہمیشہ کی طرح وہ آسودہ تھے۔
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
اس دوران‘ کسی نے پوچھا: خود تمہارا کیا ہوا؟ سنا ہے کہ اپنے دفتر سے اکتا گئے تھے۔ عرض کیا: اللہ کے فضل سے‘ راوی اب چین ہی چین لکھتا ہے۔ غلطی اپنی ہو یا کسی اور کی‘ عمر بھر کوئی ایک برس اس طرح بسر نہیں کیا کہ استعفیٰ نہ لکھا ہو‘۔ خوش بختی سے اکثر مہرباں لوگ ہی ملے۔ طبیعت کے تلون کا البتہ کوئی علاج نہیں۔
پندرہ برس ہوتے ہیں‘ قرآن کریم کی ایک آیت پڑھی تھی۔ ومامن دابۃٍ فی الارض الا علی اللہ رزقھا۔ زمین پر کوئی ذی روح ایسا نہیں‘ جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو۔ الحمدللہ اس کے بعد‘ توڑ دینے والی فکرمندی کبھی لاحق نہ ہوئی۔ بلّھے شاہ نے کہا تھا: جنہاں تقویٰ رب دا انہاں رزق ہمیش۔ جس کا بھروسہ اللہ پہ ہو اس کا رزق دائمی۔ تقویٰ تو خیر‘ چھو کر نہیں گزرا‘ تجربے نے سکھا دیا۔ یہ کہ جس کا بھروسہ آدمیوں پر ہو دکھ اسے جھیلنا اور اندیشوں میں جینا ہو گا۔ جس نے توکّل کیا‘ شکر گزاری جس نے اختیار کی‘ وہاں سے رزق پائے گا‘ جس کا تصور بھی نہ ہو۔
سفر کے ہنگام‘ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے حواری سے پوچھا: تمہاری بغل میں کیا ہے۔ کہا: دو روٹیاں ہیں‘ اے نبی اللہ۔ ایک آج‘ ایک کل کے لئے۔ فرمایا: یوحنا: افسوس کہ تو نے ہمیں توکل میں‘ پرندوں سے بھی کم جانا۔ فاروقِ اعظمؒؓ کہا کرتے ''اگر تم توکل کرو تو پرندوں کی طرح رزق دئیے جائو‘‘۔
بیس برس ہوتے ہیں‘ درویش سے سوال کیا: روپے کی فکر آپ کو کب ہوتی ہے؟ کہا: جب پانچ سو روپے رہ جائیں۔ عرض کیا: اس وقت آپ کیا کرتے ہیں کہ مہمانوں اور ملاقاتیوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ بولے: بینک میں کچھ دوست ہیں‘ دو ہزار روپے قرض ان سے لیتا ہوں۔ ''اگر وہ بھی تمام ہو جائے‘‘۔ بولے‘ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ لہجے میں وہی آسودگی‘ جو صرف صوفیوں کو نصیب ہے۔ جن کا خیال یہ ہے کہ ترکِ دنیا میں درویش جیتے ہیں‘ وہ ان سے آشنا ہی نہیں۔ خلقِ خدا میں وہ بروئے کار رہتے ہیں‘ ہمہ وقت مگر ایک اور طرح سے۔
شمعِ محفل کی طرح‘ سب سے جدا‘ سب کا رفیق
ایک عشرہ ہوتا ہے‘ رئوف کلاسرا کو میں نے فون کیا: میرے پاس چلے آئو‘ فقیر سے ملاقات ممکن ہے۔ چھوٹا سا مگر یہ آتش گل سے دہکتا ہوا گھر تھا‘ سبزہ اور بے حد و حساب۔ یہ ایک دعا کا اعجاز تھا‘ بازوئوں پر پانی ڈالتے جو پڑھی جاتی ہے۔ ایک بار بہت سے ڈالر کسی نے سامنے لا کر رکھ دیئے۔ عرض کیا‘ نہیں بھائی‘ دولت کا کتنا ہی بڑا ڈھیر ہو ختم ہو جاتا ہے‘ پیسہ کمانے کا نسخہ بتائو۔ ''بہت آسان‘‘ اس نے کہا: ایک دعا ہے: اللھم اغفرلی ذنبی و وسع لی فی داری و بارک لی فی رزقی۔ اے اللہ! میرے گناہ بخش دے‘ میرے گھر کو وسعت دے اور میرے رزق میں برکت عطا فرما۔ دوسرا یہ کہ کاروبار کیجیے‘ خواہ چھوٹا یا بڑا۔ پوچھا: روپیہ کہاں سے آئے گا؟ کہا: دعا کا آغاز کیجئے‘ چھت پھاڑ کر آئے گا۔
کلاسرا کو دو مشورے درویش نے دیے۔ ایک تو راز ہے‘ میرے‘ اس کے درمیان۔ دوسرا یہ کہ: کلاسرا صاحب مٹھی کچھ اور کھول دیجیے۔ محتاجوں کی مدد زیادہ کیجیے۔ دو تین برس میں اخبار نویس کی تنخواہ سولہ گنا ہو گئی۔ پھر وہ کالم نگار بنا‘ پھر وہ ٹی وی اینکر ہو گیا‘ چالیس پینتالیس گنا ہو گئی۔ انہی دنوں کی بات ہے‘ اس سے میں نے مشورہ کیا: چاہتا ہوں دفتر والے کچھ اضافہ کر دیں۔ حالانکہ خود وہ خطرہ مول لینے کا عادی ہے‘ مجھ سے یہ کہا: دس بارہ فیصد سے زیادہ اضافے کا مطالبہ نہ کرنا‘ ورنہ شاید خرابی ہو گی۔ پچاس فیصد کا کیا اور یاللعجب فوراً ہی مان لیا گیا۔
تیس برس ہوتے ہیں‘ ایک ہڈ بیتی بزرگ کالم نگار اثر چوہان نے سنائی۔ کہا: تھوڑے سے گھی‘ آٹے اور چینی کے سوا گھر میں کچھ نہ تھا۔ بیگم سے کہا‘ آٹے میں چینی ڈالیے‘ پراٹھے پکا کر بانٹ دیجیے۔ پھر اپنے اللہ سے کہا: جو کچھ میرے پاس تھا‘ میں نے تیرے بندوں کو دے دیا۔ اب تیرے کرم کی امید کے سوا‘ کچھ بھی نہیں۔ کچھ بھی نہیں؟۔ اللہ کے کرم کا جو امیدوار ہو‘ ساری دنیا اس کی۔ ؎
کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
اٹھارہ‘ انیس برس کے ایک گجراتی وکیل کو میں دیکھتا ہوں۔ خوش چہرہ ‘ خوش لباس‘ بشرے پہ دمکتی ہوئی ذہانت اور نجابت۔ گھر سے کچہری اور کچہری سے گھر‘ اکثر پیدل۔ لندن سے بار ایٹ لا۔ ایک ہزار سے زیادہ دن بیتے اور ایک مقدمہ بھی نہ ملا۔ وہ بھی ایک عجیب آدمی تھا‘ ایسا غنی کہ ایک ساعت کبھی کسی کی نگاہِ کرم کا امیدوار نہ ہوا۔ اس کا نام محمد علی تھا‘ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ۔
پھر ایک دن کی فیس وہ 3500 روپے لیا کرتے‘ جب سونے کا بھائو 30 روپے فی تولہ تھا۔ صدیوں کے بعد‘ مسلم برصغیر جس آدمی پر متفق ہوا‘ ملاّ‘ملحد اور خود پسندوں کے سوا سبھی نے جسے مان لیا۔ ممبئی میں مکان مکمل ہوا تو کچھ دیر اسے دیکھتے رہے‘ پھر کہا: یہ تو بادشاہوں کے رہنے کے قابل ہے۔ زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ اللہ نے بادشاہت بھی بخش دی۔ بادشاہت کیا‘ دلوں پر حکومت کی اور ایسی کہ صدیوں میں کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ ٹوٹ ٹوٹ کر عظمت برستی رہی۔ اب تک برس رہی ہے۔
رزق کیونکر کشادہ ہوتا ہے؟ فقیر سے پوچھا: کہا‘ دستِ سخا سے‘ مہمان نوازی سے‘ توکل سے‘ دعا سے‘ وہ دعا جو امید کے ساتھ کی جائے۔ فرمان یہ ہے: اپنے بندے کے لیے میں ویسا ہوں‘ جیسا مجھ پر وہ گمان کرے۔ دنیا بھر میں افلاس سے ثروت کا سفر طے کرنے والوں کی ایک نشانی ہے۔ وہ سخی ہوتے ہیں‘ لٹانے والے۔ کتاب میں لکھا ہے نماز پڑھو‘ زکوٰۃ ادا کرو اور اللہ کو قرض حسنہ دیا کرو۔ بے شک بہت جلد وہ لوٹا دیتا ہے‘ بے حساب واپس کرتا ہے۔ کوئی آرزومند ہو تو غنی کر دیتا ہے‘ دنیا بھر سے بے نیاز۔ رزق ہی نہیں‘ امان بھی‘ عزت اور علم بھی۔ اس کے خزانے بے حد و حساب ہیں۔
پھر کتاب یاد آتی ہے‘ اے میرے بندو‘ تم پر افسوس۔ پھر کتاب یاد آتی ہے۔ آخرت ہی افضل و اعلیٰ ہے مگر تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو‘ پھر سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ یاد آتے ہیں: سوّرکی ہڈی کی مانند دنیا کوڑھیوں کے ہاتھ میں ہے۔