23 مارچ کو یوم (قراردادِ) پاکستان منایا گیا تو دانشوروں اور تجزیہ کاروں نے 77 سال پہلے پیش آنے والے واقعات کے حوالے سے مضامین لکھے اور گفتگوئیں کیں۔ لاہور کے منٹو (اب گریٹر اقبال) پارک میں مسلم لیگ کے کل ہند کنونشن میں جو قرارداد منظور کی گئی، اس کے اسباب اور اثرات بھی زیر بحث آئے۔ جناب ڈاکٹر مبارک علی نے جناب کامران خان کے نیوز شو میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے اسے انگریز وائسرائے کے کھاتے میں ڈال دیا اور ارشاد فرمایا کہ نئی تحقیق سے معاملات کھل رہے ہیں۔ کامران خان صاحب نے اس کج بحثی کو طول دینے سے گریز کرتے ہوئے سلسلہ کلام کو منقطع کر دیا۔ اتوار (25 مارچ) کو چھپنے والے کالم میں راقم الحروف نے اس کا نوٹس لیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اس پر ایک جوابی نوٹ تحریر فرمایا، جو بروز ہفتہ (یکم اپریل) روزنامہ ''دنیا‘‘ کے ادارتی صفحہ نمبر 2 پر چھپ چکا ہے۔ اس میں ڈاکٹر صاحب نے (ان سے) اختلاف کرنے والوںکو ''تاریخ کو مسخ کرکے، اور واقعات کو چھپا کر اپنے مفادات کی خاطر عوام کو گمراہ کرنے والا‘‘ قرار دیا ہے۔ اس کے بعد ارشاد ہوا ہے: ''1940ء کی قراردادِ لاہور کو ایک دلکش داستان بنا کر پیش کرنے کا سلسلہ پاکستان کے قیام کے کئی سال بعد شروع ہوا۔ ابتدا میں 23 مارچ کو یوم جمہوریہ منایا جاتا تھا، لیکن جب فوجی حکومتوں نے جمہوریت کو پامال کیا، تو ہمارے کچھ طبقے یومِ جمہوریہ کو بھول گئے۔ جب ان کی ناکامیاں زیادہ بڑھیں تو پھر یوم جمہوریہ کو یوم پاکستان بنا کر لوگوں کو ایک بار پھر اپنی نام نہاد جدوجہد سے آگاہ کرنا شروع کر دیا۔ 1940ء کی ریزولیوشن کی اصل داستان تاریخی دستاویزات میں محفوظ ہے۔ انٹرنیٹ پر بھی یہ معلومات دی گئی ہیں۔ ان کے مطابق انڈیا کے وائسرائے لارڈ لنلتھگو نے یہ قرارداد چودھری ظفراللہ خان سے لکھوائی، جنہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی۔ بعد میں مسودہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور برطانوی حکومت کی توثیق کے بعد 23 مارچ 1940ء کو مسلم لیگ کے لاہور میں ہونے والے جلسہ ٔ عام میں پیش کر دیا گیا۔‘‘
ڈاکٹر صاحب کے الفاظ کو بغور پڑھیے، ان کے نزدیک تحریکِ پاکستان ''ایک نام نہاد جدوجہد‘‘ہے۔ قراردادِ لاہور کوئی ''دلکش داستان‘‘ نہیں۔ یہ تو ایک الہام ہے جو لارڈ لنلتھگو کو ہوا، اور انہوں نے چودھری ظفراللہ جیسے کاتبِ وحی سے لکھوا (یا املا کروا) کر قائد اعظمؒ کے سپرد کر دیا، اللہ اللہ خیر سلا... ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ سب معلومات انٹرنیٹ پر موجود ہیں، گویا ان تک پہنچنے کے لیے کسی تحقیق و جستجو کی ضرورت نہیں۔ انٹرنیٹ پر کسی مجہول کی فراہم کردہ تفصیلات کی جگالی کرکے محقق کہلایا جا سکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سر ظفراللہ خان نے کبھی قراردادِ لاہور کو اپنی تخلیق قرار نہیں دیا۔ اگر وہ 1940ء میں کسی مصلحت کے تحت اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے، تو قیام پاکستان کے بعد تو اپنے سر پر یہ سہرا بخوبی اور بآسانی سجا سکتے تھے۔ 1940ء میں سر ظفراللہ وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کے رکن (آج کل کی زبان میں وزیر) تھے۔ وائسرائے ان سے کوئی بھی نوٹ یا تجویز لکھوا سکتے تھے۔ ہندوستان کا ہندو مسلم مسئلہ اُس وقت بھی الجھا ہوا تھا۔ 1935ء کے آئین کے تحت منتخب ہونے والی کانگرس کی صوبائی حکومتوں کے خلاف مسلم جذبات عروج پر تھے۔ کانگرس نے وزارتوں سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا تو قائد اعظمؒ کے زیر ہدایت مسلمانوں نے مُلک بھر میں ''یوم نجات‘‘ منایا۔ ہندو مسلم جھگڑے کا آئینی حل کیا ہو سکتا ہے، اس پر برسوں سے غور جاری تھا۔ مسئلہ ایک دن میں پیدا ہوا، اور نہ ہی اس کا کوئی بنا بنایا حل کہیں سے نازل ہو سکتا تھا۔ اگر لارڈ لنلتھگو بھی اس پر غور و خوض کر گزرے تو انہوں نے کسی جرم کا ''ارتکاب‘‘ کیا، نہ ان کے خیالات کا مطالعہ کرنے والے کسی گناہ کے مرتکب ہوئے۔
تاریخ کا معروضی تجزیہ کرنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں تقسیم کی تجویز بار بار پیش کی جاتی رہی کہ یہ تاریخی طور پر ایک مُلک نہیں، بلکہ کئی ممالک کا مجموعہ تھا۔ ممتاز محقق اور مورخ کے کے عزیز مرحوم نے اپنی کتاب ''اے ہسٹری آف دی آئیڈیا آف پاکستان‘‘ (مطبوعہ 1987ء) میں برطانوی راج کے نوے سال کے دوران پیش کی جانے والی متعدد تجاویز کو جمع کر دیا ہے۔ ان کی تعداد ایک سو سے زیادہ ہے۔ قائد اعظم اکیڈمی کراچی کے (موجودہ) ڈائریکٹر خواجہ رضی حیدر نے مزید اضافوں کے ساتھ اپنی تصنیف ''قراردادِ پاکستان تاریخ اور تجزیہ‘‘ (مطبوعہ 1990ء) میں ان تمام تجاویز کا اشاریہ شامل کر رکھا ہے۔ اس پر ایک نظر ڈالتے ہی پتہ چل جاتا ہے مختلف اوقات میں مختلف قومی اور بین الاقوامی اہلِ دانش تقسیمِ ہند کی کیا کیا تجاویز دیتے رہے۔ سر سید احمد خان، جمال الدین افغانی، اکبر الٰہ آبادی، مولانا محمد علی جوہر سے لے کر مولانا اشرف علی تھانویؒ، سر آغا خان، لالہ لاجپت رائے اور علامہ اقبالؒ تک اس فہرست میں شامل ہیں۔ خواجہ رضی حیدر کے مرتب کردہ اشاریے میں سوویت یونین کے حکمران جوزف سٹالن کا نام بھی موجود ہے۔ کئی انگریز مقتدرین کے نام بھی یہاں دیکھے جا سکتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے جب مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس عام منعقدہ الٰہ آباد میں اپنے خطبہ صدارت کے دوران مسلمانوں کی الگ ریاست کی طرف اشارہ کیا، تو دُنیا کی توجہ اس طرف مبذول ہو گئی۔ ان کی شخصیت اور اجتماع کی نوعیت نے اس تصور میں ایک نئی روح پھونک دی۔
مارچ 1940ء میں مسلم لیگ کا اجلاس لاہور منعقد ہوا تو اس کے ذمہ داروں کے سامنے کئی تجاویز اور کئی مسودے تھے۔ ہو سکتا ہے، ان میں سر ظفراللہ خان کا تیار کردہ کوئی نوٹ بھی شامل ہو۔ کُل ہند کنونشن میں قرارداد کی منظوری نے ہندو مسلم سیاست کو ایک نئی جہت عطا کر دی۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل نواب سید شمس الحسن نے اپنے ایک مضمون میں اس کی تفصیل بیان کر رکھی ہے۔ سید شمس الحسن بحیثیت آفس سیکرٹری اور پھر اسسٹنٹ سیکرٹری 1914ء سے 1940ء تک آل انڈیا مسلم لیگ سے وابستہ رہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد 1958ء میں مارشل لاء کے نفاذ تک وہ پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی سیکرٹریٹ کے ذمہ دار تھے۔ بقول پیر علی محمد راشدی، تحریک ِ پاکستان تین افراد سے جڑی ہوئی ہے، قائد اعظمؒ، قائد ملت لیاقت علی خان اور سید شمس الحسن۔ انہی سید صاحب کی تاریخی تحریر پہلی بار 23 مارچ 1976ء کو ''ڈیلی مارننگ نیوز‘‘ کراچی میں شائع ہوئی۔ بعد ازاں اس کا مکمل ترجمہ قائد اعظم اکادمی (کراچی) کے ریسرچ اسسٹنٹ مہرالاسلام صدیقی نے کیا۔ قراردادِ لاہور کے حوالے سے یہ سب سے زیادہ مستند اور وقیع شہادت ہے، اور اس کے مقابلے میں کسی سنی سنائی یا اڑی اڑائی بات کی کوئی اہمیت نہیں۔ یاد رہے کہ مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی نے اجلاس عام پہلے 28 تا 30 دسمبر 1939ء کو لاہور میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا تھا، بعد میں اسے مارچ تک ملتوی کر دیا گیا۔ سید شمس الحسن کا کہنا ہے: نواب لیاقت علی خان نے 10 اگست 1939ء کو میسوری سے مجھے لکھا کہ مَیں آپ کو تین آئینی سکیمیں جو کہ سر سکندر حیات خان، ڈاکٹر عبداللطیف اور ڈاکٹر فضل ایچ قادری نے تیار کی تھیں، بھیج رہا ہوں۔ مہربانی فرما کر ہر ایک کی پچاس کاپیاں طبع کروانے کا انتظام کریں۔ غالباً ان کو سائیکلو سٹائل کرانا ان کو طبع کرانے کی خاطرسستا پڑے گا۔ جب کاپیاں تیار ہو جائیں تو ہر سکیم کی ایک ایک کاپی ورکنگ کمیٹی کے ہر ممبر کو اور ہر صوبائی لیگ کے سیکرٹری کو بھیج دی جائے۔ لہٰذا یہ ممبران کو ارسال کر دی گئیں جس میں ان سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ تمام سکیموں کا بغور مطالعہ کریں تاکہ اگلی میٹنگ میں انہیں زیر بحث لایا جا سک۔ سید شمس الحسن کا مزید کہنا ہے کہ: (اجلاس لاہور کے موقع پر) ''ورکنگ کمیٹی نے نکات مرتب کرنے کے بعد ملک برکت علی، نواب محمد اسماعیل خان اور نوابزادہ لیاقت علی خان کو یہ فرض سونپا کہ وہ ریزولیوشن کا ڈرافٹ تیار کریں۔ ڈرافٹ تقریباً دو گھنٹے میں تیار کر لیا گیا۔ ملک برکت علی نے (حتمی) ڈرافٹ تیار کیا۔ یہ ڈرافٹ اسی رات ورکنگ کمیٹی کے سامنے پیش کیا گیا، اور منظور کر لیا گیا۔ جب 23 مارچ کو ساڑھے دس بجے سبجیکٹ کمیٹی کا اجلاس ہوا، تو اس نے اس ریزولیوشن کو اجلاس میں پیش کرنے کی منظوری دے دی۔ یاد رہے کہ یہ سبجیکٹ کمیٹی 25 ارکان پر مشتمل تھی۔
یہ قرارداد 24 مارچ کو منظور کی گئی، مسلم لیگ ہائی کمان نے فیصلہ کیا کہ اس کا دن 24 نہیں، 23 مارچ کو منایا جائے گا کہ اس دن اسے سبجیکٹ کمیٹی نے منظور کیا تھا، اور اُسی دن اسے اجلاس عام میں پیش کر دیا گیا تھا... اس قرارداد کی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لئے قائد اعظمؒ اور گاندھی جی کی خط و کتابت اور مذاکرات کی تفصیل پڑھ لیجئے... اور یہ بھی یاد رکھیے کہ بعد ازاں مسلم لیگ کی ہائی کمان ہی نے اسے قراردادِ پاکستان کے نام سے منسوب کیا تھا... جہاں تک 23 مارچ کے یوم جمہوریہ ہونے کا تعلق ہے، اس کی تفصیل گزشتہ کالم میں درج کی جا چکی ہے۔ 1956ء میں اسی دن پاکستان کا پہلا دستور نافذ ہوا، اور پاکستان باقاعدہ ''ری پبلک‘‘ (جمہوریہ) قرار پایا تھا۔ اس کا یہ مطلب نہیں قراردادِ لاہور کی کوئی اہمیت یا معنویت نہیں تھی... اسے دو چند، سہ چند یا کئی چند البتہ 23 مارچ 1956ء نے کیا جسے ہم بھلا چکے ہیں:
ایک دھندلا سا تصور ہے کہ دل بھی تھا یہاں
اب تو سینے میں فقط اک ٹیس سی پاتا ہوں مَیں
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ '' پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)