تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     03-04-2017

عمران باجوہ ملاقات کا ایجنڈا

ایران کا کہنا اب یہ ہے کہ وہ بھی 39 ملکی اسلامی فوج کا حصّہ بن سکتا ہے۔ اب اس موضوع پر یکسر نئے تناظر میں غوروفکر کی ضرورت ہے۔ کیا یہ عالم اسلام کی نمائندہ فوج بن سکتی ہے؟
جنرل جاوید قمر باجوہ اور عمران خان کی ملاقات پہ لکھا۔ ایک موضوع کی طرف مگر دھیان ہی نہ گیا۔ ظاہر ہے کہ اسلامی فوج بھی زیر بحث آئی ہو گی۔ ہفتے کی شام ذمہ دار دوستوں نے توجہ دلائی تو ذرائع سے رابطہ کیا۔ فوراً ہی تصدیق ہو گئی۔ عام طور پہ باور کیا جاتا ہے کہ جنرل راحیل شریف کو وزیر اعظم نواز شریف کے توسط سے رام کیا گیا۔ جزوی طور پر ہی یہ بات درست ہے لیکن دو اور بھی پہلو ہیں۔ اپنے طور پہ بھی جنرل کو رضامند کیا گیا۔ اس کی شرائط تھیں اور مانی گئیں۔ اس اثنا میں سپہ سالار قمر باجوہ سعودی عرب کے دورے پر گئے تو ان سے بھی مدد کی درخواست کی گئی۔
درون پردہ بات چیت کی تفصیل تو ظاہر ہے کہ معلوم نہیں ہو سکتی۔ یہ مگر آشکار ہے کہ ایوان وزیر اعظم اور جی ایچ کیو میں جزئیات سے بحث ہوتی رہی۔ بنیادی سوال یہ تھا کہ ایران‘ عراق اور شام اتحاد کا حصہ نہیں۔ بدگمانی ہو سکتی ہے کہ ان کے خلاف یہ متحدہ محاذ ہے۔ عرب ایران کشمکش کے پس منظر میں‘ یہ ایک فطری سوال تھا۔ عراق اور شام عرب ممالک ہیں مگر ایران کے وہ حلیف ہیں۔
پاکستان اور جنرل راحیل شریف کا اصرار تھا کہ اس فوج کا اصل کردار‘ دہشت گردی کے خلاف ایک موثر قوت کا ہونا چاہیے؛ اگرچہ سعودی عرب کی اپنی الگ دفاعی ضروریات ہیں۔ چھن چھن کر جو اطلاعات سامنے آئی ہیں‘ ان کے مطابق‘ سب سے زیادہ مباحثہ اسی پہلو پر ہوا کہ عالم اسلام کے عسکری پلیٹ فارم کو یمن‘ ایران‘ عراق اور شام کے خلاف استعمال نہ ہونا چاہیے۔ اسے مسلم دنیا کو دو حصوں میں بانٹ دینے والی فوج نہ بننا چاہیے۔ جنرل راحیل شریف کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ وردی وہ نہیں پہنیں گے۔ غور کیا جائے تو اپنی جگہ یہ ایک بہت ہی اہم بات ہے۔
ایران کے حامی تو آتش زیرپا تھے ہی۔ ظاہر ہے‘ انہیں بھی ناگوار تھا‘ اّمت کا تصّور جن کے لئے اجنبی ہے؛ اگرچہ ان کی اپنی وجوہات ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کی اسلامی شناخت اجاگر نہ ہونے پائے۔ ایک بنیادی سوال معتدل مزاج مبصرین کے لئے بھی پریشانی کا باعث تھا۔ پاکستان کی اثنا عشری آبادی‘ کا ردعمل کیا ہو گا؟ ایک مختصر گروہ کی طرف سے فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کی کوششوں کے باوجود‘ بھارت اور بعض ''دوست‘‘ ممالک جس میں شریک رہے‘ ہمارے قومی ادارے اس لعنت سے پاک رہے۔ فرقہ وارانہ تو کجا‘ اللہ کا شکر ہے کہ پاک فوج اور سول سروس میں مسلم اور غیر مسلم کی تقسیم بھی کارفرما نہ ہو سکی۔ 1965ء کی جنگ میں پاک فضائیہ نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ اساطیری ہوا بازوں کا ذکر ہو تو دوسروں کے ساتھ سیسل چوہدری کا تذکرہ بھی احترام کے ساتھ ہوتا ہے‘ جیسا کہ ہونا چاہیے۔ وہ اخباری دنیا کے ایک کبھی نہ بھلائے جانے والے کردار ایف ای چوہدری کے فرزند تھے۔ صحافت کی دنیا میں اس لیے بھی ان کا زیادہ اکرام ہے۔
امت کے جسد میں فرقہ واریت کا زہر بعد کی صدیوں میں پھیلا۔ فتح مکّہ کے بعد رحمۃ العالمینؐ نے طائف کا قصد کیا تو غیر مسلم‘ اصحاب رسول کے ساتھ شامل تھے۔ عمر فاروق اعظمؓ کے اکنافِ عالم میں پھیلے لشکروں میں سندھ کے مکین بھی موجود تھے۔ جنہیں ''زت‘‘ کہا جاتا‘ یعنی جاٹ۔ ظاہر ہے کہ یہ محمد بن قاسم ؒ کی آمد سے پہلے کی بات ہے۔ عثمانی ترکوں نے تاریخ کی پہلی وردی پوش فوج اور سول سروس تشکیل دی تو بعض مناصب پہ غیر مسلموں کو ترجیح دی جاتی۔ اس لئے کہ وہ فریق نہ تھے۔ وہ قبائل کا حصّہ تھے اور نہ معاشرے کے تعصبات کا۔ ادھورا ہی سہی‘ آئین کی حکمرانی کا تصّور وہ رکھتے تھے‘ مثلاً یہ کہ وزیر اعظم‘ وزرا‘ اور گورنروں کا تعلق شاہی خاندان سے نہ ہوتا۔ جنگجو اور فطین مگر ضدّی اور ہٹ دھرم شہزادہ سلیم نے پہلی بار اس سے انحراف کیا؛ اگرچہ اس کا پہلا وزیر اعظم بھی ایک نو مسلم تھا۔
باپ کے انتقال پر اٹھارہ برس کی عمر میں آدھی دنیا کا وہ بادشاہ بنا تو اپنے رفیق سے‘ جس کا نام بھولتا ہوں‘ اس نے کہا: کیوں نہ کوئی نیا شہر بسایا جائے اور ایک شاندار محل تعمیر کیا جائے۔ ہیرالڈیم نے لکھا ہے کہ موسیقی کا رسیا‘ وہ ایک آزاد منش آدمی تھا۔ اس نے کہا ''شہر اور محل اجڑ جاتے ہیں‘‘... ''پھر کیا چیز باقی رہتی ہے‘‘ نوجوان سلطان نے پوچھا: ''دانش اور وہ گیت جو میں ابھی گا رہا تھا‘‘... اس نے کہا۔ ''ہاں‘‘ بادشاہ بولا: ''اور انگورہ کی چراگاہوں میں چرنے والی بکریاں رہ جائیں گی‘‘۔
حقیقی رہنما وہ ہوتا ہے‘ حکمران اسے ہونا چاہیے جو معاشرے کی تقسیم اور تعصبات سے بالاتر ہو۔ برصغیر میں اس کی بہترین مثال ٹیپو سلطان اور قائد اعظمؒ ہیں۔ اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود مغل حکمران بھی بنیادی طور پر غیر متعصب تھے۔ اورنگزیب کے کردار کا باریک بینی سے کم ہی مطالعہ کیا گیا۔ مسخروں کے سوا‘ سب جانتے ہیں کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی طرح‘ اپنے اخراجات وہ ذاتی آمدن سے پورے کیا کرتا۔ حیرت انگیز فصاحت کے آدمی کی وصیت کا ایک حصہ چونکا دینے والا ہے: اپنے کفن کے لئے کچھ روپیہ میں نے جمع کیا تھا؛ چونکہ میری شیعہ رعایا کتابتِ قرآن کے معاوضہ کو جائز نہیں سمجھتی؛ چنانچہ اس کام کے لئے خرچ نہ کیا جائے۔ 
برصغیر میں شیعہ سنی کشمکش کو فروغ دینے والے عناصر و عوامل پر تفصیل سے بات ہونی چاہیے۔ موضوع مگر نازک ہے اور کالم کی تنگ دامنی اس کی متحمل نہیں۔ عقائد کی بحث اپنی جگہ اور اس کے تقاضے ہیں۔ یہ مگر یاد رہے کہ اثنا عشری مسلمان تحریک پاکستان کے پرجوش حامی تھے اور آغا خان بھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ امّت کا حصہ بننے کے لئے بے تاب تھے۔ کچھ دوسرے لوگ‘ راست فکر اور متقی‘ کانگرس کی طرف کیوں مائل تھے؟
سماجی اور مذہبی ہم آہنگی بہت اہمیت کی حامل ہے مگر ملکوں اور قوموں کے مفادات ہوتے ہیں‘ ضروریات ہوتی ہیں۔ سعودی عرب‘ پاکستان کا دوست ہے۔ ہماری معیشت کو سہارا دینے والا ایک ستون اور مشکلات کا مددگار۔ زلزلوں اور طوفانوں میں وہی سب سے پہلے ہمارا ہاتھ تھامتا ہے۔ سمندر پار پاکستانی‘ سب سے زیادہ زرمبادلہ وہیں سے بھجواتے ہیں‘ شاید چار سے پانچ ملین ڈالر۔ امریکہ سے مراسم میں خرابی کے ہنگام‘ وہ ہماری امداد کو پہنچتے ہیں۔ 1998ء میں ایٹمی دھماکوں کے بعد‘ دنیا ہم سے بیزار تھی تو غیر معینہ مدت کے ادھار پر تیل وہی فراہم کر تا رہا۔
سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ پاکستانی سالار کی موجودگی میں‘ خود ہمارے قومی مفادات کا تحفظ بھی ممکن ہو گا۔ حالات سازگار ہوں تو رفتہ رفتہ واقعی وہ عالم اسلام کی نمائندہ فوج بن سکتی ہے۔ مسلمان ملکوں میں امریکی اور نیٹو افواج اترنے کا ہمیشہ ایک ہی نتیجہ نکلا‘ فساد کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔ ایک منظم اسلامی فوج انتشار اور بدنظمی کو روک دینے کا مستقل ذریعہ بن سکتی ہے۔
ایران کا کہنا اب یہ ہے کہ وہ بھی 39 ملکی اسلامی فوج کا حصّہ بن سکتا ہے۔ اب اس موضوع پر یکسر نئے تناظر میں غوروفکر کی ضرورت ہے۔ کیا یہ عالم اسلام کی نمائندہ فوج بن سکتی ہے؟

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved