16 ویں صدی میں مغل شہنشاہ اکبرنے گرو ر ام داس کو اپنے درباربلا کر ان سے سکھ مذہب بارے بات چیت کی تو شہنشاہ اکبر یہ جان کر بہت متا ثر ہو ا کہ سکھ بھی مسلمانوں کی طرح توحید کا نعرہ لگاتے ہوئے صرف ایک خدا کو مانتے ہیں‘ کسی بھی بت کی پوجا نہیں کرتے اور سکھ مذہب کے پیرو کاروں کے اشلوکوں میں بھی بابا فریدؒ، بگھت کبیر اور گورو نانک جی کا کلام ہے۔ توحید کی باز گشت جاننے پر شہنشاہ اکبر نے وہ علا قہ جہاں آج امرتسر واقع ہے سکھوں کو تحفے میں دے دیا تاکہ وہ اپنے لئے آزادانہ طور پر عبا دت گاہیں اور نیا شہر بسا سکیں ۔ پنجاب کے لوگ اسے امرتسر نہیں بلکہ امبر سر کہہ کر پکارا کرتے تھے ان کے امبر سر کہنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ یہاں پر کاروباری لوگ صبح کے وقت اپنے کام کاج یا دکانداری شروع کرنے سے پہلے امبر جو کہ ایک خوشبو کا نام ہے اس کی دھونی دیا کرتے تھے اس طرح سارا علا قہ امبر کی خوش بو سے مہک اٹھتا تھا ا س لئے اسے امبر سر یعنی خوشبو کہا جانے لگا۔
سکھوں اور مسلمانوں کے روحانی تعلق کا اس سے بڑا ثبوت اور کوئی نہیں کہ 1601 میں جب دربار صاحب امرتسر کی بنیاد کا آغاز کیا جانے لگا تو جب بھی دربار کی بنیادرکھی جاتی تو وہ گر جاتی ایسا جب دو تین مرتبہ ہوا تو لاہور میں مقیم حضرت میاں میر صاحبؒ جو کہ سکھوں کے گورو ارجن سنگھ کے دوست تھے انہوں نے حضرت میاں میرؒ سے اس کا ذکر کرتے ہوئے مدد چاہی جس پر گرو ارجن سنگھ جی کی درخواست پر حضرت میاں میرؒ نے اپنے ہاتھوں سے دربار صاحب گولڈن ٹمپل کا سنگ بنیاد رکھا۔۔ ہندوبراہمنوں کا یہ دعویٰ کہ اسے پہلے مندر بنایا گیا تھا قطعی غلط اور سکھوں کی تاریخ سے ہمیشہ کی طرح سخت زیا دتی ہے بلکہ یہ اسی طرح ہے جیسے ایودھیا کی بابری مسجد کے بارے میں رٹ لگائے جا رہے تھے کہ یہاں پر پہلے رام مندر تھا جسے گرا کر مغل بادشاہوں نے اپنے نام سے مسجدمیں تبدیل کر دیا۔ ان کا یہ سفید جھوٹ بھارت کی سپریم کورٹ میں تاریخی حوالوں سے ننگا ہو چکا ہے۔ امرتسر میں گولڈن ٹمپل کی جگہ پر اگر یہاں مندر کی بنیاد رکھنی ہوتی تو ظاہر تھاکہ یہاں بتوںکی پوجا ہونی تھی ایسی صورت میں حضرت میاں میرؒ جیسے باشریعت مسلمان کس طرح لاہور سے چل کر بتوں کے گھر کا سنگ بنیاد رکھنے کیلئے آتے۔ بابا جی گرو نانک کی تعلیمات میں اس قدر کشش تھی کہ لوگ دھڑا دھڑ ان کی جانب مائل ہونے لگے اور براہمن نے جب دیکھا کہ ہندو بہت بڑی تعداد میں ایک خدا کی پوجا کرتے ہوئے سکھ مذہب اختیار کرتے جا رہے ہیں تو براہمن سکھ مذہب کا دشمن بن گیا۔ اسے سب سے زیا دہ تکلیف اس بات پر بھی ہوتی تھی کہ صرف ایک خدا کی عبا دت کرنے کی وجہ سے سکھ اور مسلمان ایک دوسرے کے قریب آتے جا رہے ہیں جس پر براہمن نے سکھوں میں گھات اور پھوٹ ڈالنے کیلئے اپنا چانکیہ والا پرانا کھیل شروع کر دیا۔
سکھوں کے ایک گرو جی نے کسی براہمن کی بیٹی سے شادی کی خواہش ظاہر کی۔ پہلے تو وہ نہ ما نا لیکن گرو جی کی جانب سے اصرار بڑھتا گیا تو براہمنوں نے شادی سے پہلے ان سے شرط لکھوائی کے ان کی بیٹی سے گرو جی کا پہلا بیٹا ہی سکھوں کا گرو ہو گا۔۔۔یہاں سے ہندوئوں نے اپنا کھیل شروع کر تے ہوئے سکھ اور ہندو مذہب کو ایک کرنا شروع کر دیا ۔ توحید کی بنیاد پر مسلمانوں کی جانب سکھوں کے بڑھتے ہوئے جھکائو سے براہمن سخت پریشان رہنے لگے تھے جس پر مغلیہ دربار کے ایک براہمن وزیر نے ایسے وقت میں جب اورنگ زیب گول کنڈہ میں مصروف جنگ تھا‘ سکھوں کے گرو گوبند سنگھ کے دو بیٹوں کو زندہ دیوار میں چنوا کر سکھوں اور مسلمانوں کی دشمنی کی بنیاد رکھ دی۔ جب اورنگ زیب عالمگیر کو اس کا علم ہوا تو اس سے سخت جواب طلب کی گئی لیکن اس وقت تک براہمنوں کے اکسانے پر سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت اور دشمنی کی بنیادیں جڑ پکڑ چکی تھیں۔انگریز کے دور کو بھی سکھ گہری نظر سے دیکھیں تو ان پر ظلم براہمن ہی کرواتا رہا ہے۔ اس وقت چونکہ سکھوں اور مسلمانوں کے مقابلے میں ہندو ہی زیا دہ پڑھے لکھے تھے‘ ا س لئے اپنے مطلب کی کہانیاں بھی وہی گڑھ لیا کرتے جسے بعد میں سکھوں کی تاریخ کا نام دے دیا جاتا۔
ہندو کے دل میں سکھوں سے نفرت کس طرح کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، اس کا اندازہ اس سے کیجئے کہ 1740 میں لاہور میںمغل گورنر کے ایک براہمن مشیر نے سکھوں کی تذلیل کرنے کیلئے ایک ہندو شودر ''ماسا رانگڑ‘‘ کو کمانڈر بنا کر اس کا دفتر دربار صاحب میں قائم کرا دیا جو دربار صاحب کی مسلسل بے حرمتی کرتا رہتا ۔۔۔اور تاریخ گواہ ہے کہ اس بد بخت ماسا رانگڑ کو سکھ اور مسلمان دو نوں قوموں نے باہم مل کر جہنم رسید کیا۔
1947 میں حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے مشرقی پنجاب اور ہریانہ پر مشتمل پھلکیاں کو سکھوں کیلئے ایک آزاد ریا ست بنانے کی پیش کش کی لیکن ماسٹر تارا سنگھ جسے امرتسر میں ہندوئوں کے ایک سکول میں پرائمری جماعتوںکے استاد سے درجہ بدرجہ سکھوں کا لیڈر بنا گیا تھا اس نے کانگریس کے کہنے پر نہ صرف قائد اعظم کی اس تجویز کو ناکام بنا دیا بلکہ پورے پنجاب کو دوزخ کی آگ کا ایندھن بناتے ہوئے لاکھوں انسا نوں کو ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل کرا دیا ۔۔۔ اپنے سکھ محافظوں کے ہاتھوں اندرا گاندھی کے قتل کی خبر باہر آتے ہی ہندوئوں نے دہلی اور اتر پردیش میں جس طرح سکھوں کو تیغ تیغ کیا‘ ان کے گردواروں کی بے حرمتی کی ،سکھ عورتوں کو نو چا،کھسوٹا ،اس نے اس راز سے سکھوں کی آنکھیں کھول دیں کہ ان پر ہمیشہ سے ظلم کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ مختلف شکلوں میں یہ براہمن ہی ہے۔۔۔۔ سکھ آج اس وقت کو رو رہے ہیں کہ ہم نے براہمن کے ایجنٹ ماسٹر تارا سنگھ کی بات مان کر اپنی علیحدہ پہچان ہی ختم کرا دی ستم ہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ مارشل قوم آج ہندو کے ماتحت بے نام زندگی بسر کر رہی ہے اور ماسٹر تارا سنگھ کی اس غلطی کی سزا پوری سکھ قوم اب تک ادا کر رہی ہے۔ سکھ جو ذہانت، فراست ،کاروبار تجارت اور دفاعی مہارت میں دنیا کی کسی بھی قوم سے کم نہیں آج اپنے علیحدہ وطن کیلئے ترس رہے ہیں اور نئی دہلی کی مرکزی حکومت پر ہر وقت کسی نہ کسی شکل میں براجمان انتہا پسند براہمن چند سکھوں کو عہدوں کا لالچ دے کر ہندوستان کی سیا ست پر چھایا ہوا ہے۔
پنجاب جو ہندوستان کی تقریباً 70 فیصد آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرتا ہے لیکن مودی حکومت غلے کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کرنے دیتی جس سے اب تک نہ جانے کتنے کاشتکار قرضوں کی دلدل میں پھنسنے کے بعد خود کشیاں کر چکے ہیں ۔ نئی دہلی سرکار کسی سکھ کو ترقی بھی دینے لگتی ہے تو انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پرانے ریکارڈ سے دیکھا جاتا ہے کہ اس کی دادی یا نانی کے نام کے ساتھ کور لکھا جاتا تھایا دیوی ۔۔۔ کیونکہ ماں کی جانب سے دیوی کے نام سے پہچانے جانے والے سکھوں کا مطلب یہی ہے کہ یہ با با جی گرونانک کے نہیں بلکہ ہمارے ہی وفادار ہیں اس کیلئے دور جانے کی ضرورت نہیں بھارت کے سابق آرمی چیف بکرم سنگھ کی خفیہ فائل پر نظر ڈالتے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ یہ کسی کور کے بطن سے نہیں بلکہ دیوی نام کی ہندو عورت کا بیٹا ہے!!