تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     03-04-2017

بھارتی سیاست میں انتہاپسندی کے کامیاب تجربات

انتہاپسندی کو سیاسی مفادات کیلئے استعمال کرنے کی روش قدیم ترین تاریخ رکھتی ہے کہ انتہاپسندی کی سیڑھی اقتدار کی منزل تک پہنچنے اور پھر اِسے مضبوط بنانے کا برا راستہ تو ضرور ہے لیکن یہ بڑی حد تک کامیابی کی ضمانت بھی فراہم کرتا ہے۔اِس وقت بھارتی سیاست میں اِس کے کامیاب تجربات کیے جارہے ہیں جن کے برآمد ہونے والے شاندار نتائج ایسے تجربات کرنے والوں کو اِس راستے پر گامزن رہنے کا مزید حوصلہ اور ہمت فراہم کررہے ہیں،اِسی کے باعث بھارت کی موجودہ حکمران جماعت بی جے پی ایک بعد ایسے اقدامات اْٹھائے چلی جا رہی ہے جو ملک کی اکثریتی ہندو آبادی کے لیے خوشی کا باعث بن سکیں اور لامحالہ اِن اقدامات کا پھل حکمران جماعت کو آئندہ عام انتخابات میں کامیابی کی صورت ہاتھ لگے ۔ بی جے پی کی انتہاپسندانہ روش تو اِس جماعت کے قیام کے ساتھ ہی اِس کے ساتھ جڑی ہوئی ہے لیکن اِس میں تیزی لانے اور حصول مقصد کیلئے کسی بھی حد تک چلے جانے کا آغاز بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندرمودی نے 2002 میں شروع کیا جب وہ ریاست گجرات کے وزیراعلیٰ تھے ،اِس کے لیے ہمیں تھوڑا ماضی میں جانا پڑے گا۔
ماہ مارچ 2002 شروع ہوچکا تھا لیکن بھارتی ریاست گجرات میں، فروری 2002 میں شروع ہونے والے مسلم کش فسادات تھمنے میں ہی نہیں آرہے تھے، مسلمانوں کے جلائے جانے والے گھروں کا دھواں اب بھی فضا میں موجود تھا، عصمت دری کا شکار ہونے والی مسلم خواتین کی آہ وبکا اب بھی آسمان کو رلا رہی تھی،2500 مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جا چکا تھا اور گجرات کی صوبائی حکومت دم سادھے صرف تماشا دیکھ رہی تھی کہ ریاست کے وزیراعلیٰ نریندرمودی اِنہی فسادات اور مسلمانوں کے خون کی سیڑھی پر چڑھ کر وزارت عظمیٰ تک پہنچنا چاہتے تھے جس کیلئے ضروری تھا کہ انتہاپسند ہندوئوں کی حمایت حاصل کی جائے جس کا اِس سے اچھا طریقہ اور کیا ہوسکتا تھا کہ خون مسلم کو ارزاں کردیا جائے اور ایسا ہی کیا گیا،دنیا بھر نے اِن فسادات کی مذمت کی لیکن نریندرمودی کے لیے اِن فسادات کے نتائج بہت ، فروٹ فل ، رہے اوریہ پھل اْسے 2014 میں ملا۔
اپریل 2014 میں بھارت میں اب تک کے آخری عام انتخابات کا ڈول ڈالا گیا تومئی میں اِس کا عمل مکمل ہونے تک اِس پر 30 ہزار کروڑ روپے کے اخراجات اْٹھ چکے تھے جس کے باعث یہ امریکی انتخابات کے بعد دنیا کے مہنگے ترین انتخابات قرار پائے،اوراتنے بھاری اخراجات کے بعد وسیع و عریض رقبے پر محیط بھارت کے 81 کروڑ ،45 لاکھ رائے دہندگان نے اپنے لیے انتہاپسندی کا راستہ چنا ،، وزارت عظمیٰ نریندرمودی کی جھولی میں آن گری، یہ اْن ، فروٹ فل، نتائج کی انتہائی صورت تھی جو گجرات فسادات کے نتیجے میں ہاتھ لگے تھے۔ وہ اْترپردیش میں زبردست کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
اْترپردیش ہی بھارت کی وہ ریاست ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب دیگر تمام ریاستوں میں سب سے زیادہ ہے لیکن یہاں بھی بی جے پی نے انتہاپسندی کا کامیاب تجربہ اِس صورت کیا کہ اْس نے ریاستی انتخابات میں کسی بھی مسلمان اْمیدوار کو میدان میں اْتارے بغیر یہ کامیابی حاصل کی اور اقتدار حاصل کرنے کے بعد انتہائی متشدد خیالات رکھنے والے44 سالہ یوگی آدتیہ ناتھ کو ریاست کا وزیراعلیٰ مقرر کرکے یہ پیغام بھی دیا کہ انتہاپسندی کو فروغ دینے کی ریاستی پالیسی جاری رکھی جائے گی ۔
سرکاری سرپرستی میں اِن انتہاپسندانہ تجربات کی کامیابی کو آگے بڑھاتے ہوئے اب ریاست گجرات کی اسمبلی میں ایک قانون پاس کر لیا گیا ہے جس کے مطابق گجرات جانور تحفظ ایکٹ 1954 میں ترمیم کے بعد گائے ذبح کرنے پر عمر قید کی سزا ہو گی،اس کے ساتھ ہی شام سات بجے سے صبح پانچ بجے تک گائیوں کو ایک سے دوسری جگہ پر لے جانے پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ اِس ایکٹ میں 2011 میں ہونے والی قانونی ترمیم کے مطابق گائے ذبح کرنے پر زیادہ سے زیادہ 7 سال کی سزا تھی۔ اب اسی قانون میں ترمیم کے تحت عمر قید کا بندوبست کیا گیا ہے۔
یہ وہ صورت حال ہے جسے خود بھارت کے سیکولر حلقے اتنہائی تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں کیونکہ اْن کے نزدیک بھارتی معاشرے کی رنگارنگی کے باعث اِسے کسی ایک خاص رنگ میں ڈھالنے کا نتیجہ بھارت کی بربادی کی صورت نکلے گا اور ایسا نہیں ہے کہ اِس کے نتائج صرف مسلمان ہی بھگت رہے ہیں بلکہ پچھلے کچھ عرصے کے دوران مہاراشٹر میں" نریندردابھولکر" اور "گوند پانسارے" اور کرناٹک میں "پروفیسر کال برگیـ" جیسے دانشوروں سمیت ظلم اور انتہاپسندی کے خلاف بلند ہونے والی بہت سی آوازیں خاموش کی جاچکی ہیں ، پھر دادری واقعہ کے بعد تو کم از کم 50 بھارتی دانشوروں نے احتجاجاً اپنے ایوارڈز واپس کردئیے تھے حتی کہ اِس واقعہ کے بعد مالیکیولر سینٹر برائے حیاتیات کے بانی سائنس دان پی ایم بھرگوا نے اس موقف کے ساتھ اپنا پدم بھوشن ایوارڈ واپس کرنے کا اعلان کیا کہ ملک میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نفرت اور تعصب کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسے میں ایوارڈ لینے کا کیا فائدہ جب ملک میں عدم برداشت کا زہر پھیل رہا ہو اور اِسے مزید فروغ دیا جارہا ہو، دادری واقعہ میں ایک مسلمان کو گائے کاگوشت کھانے کے شک میں پیٹتے پیٹتے قتل کر دیا گیا تھا۔ انتہاپسندی کے خلاف مزاحمت کا سلسلہ تو اب بھی جاری ہے لیکن فی الحال بھارت بھر میں آئی ہوئی مودی لہر کی شدت ابھی بھی اتنی زیادہ ہے کہ اِس کے خلاف کوئی بھی مزاحمت موثر ثابت نہیں ہورہی لیکن جلد یا بدیر بھارتی شدت پسندوں کو اِس بات کا ادراک کرنا ہی ہوگا کہ یہ راستہ صرف تباہی کی طرف ہی لے جائے گا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved