پاک چین اقتصادی راہداری جس تیزی سے عمل درآمد کے مراحل طے کر رہی ہے اسی تیزی کے ساتھ شکوک و شبہات سے بھرے تبصروں میںبھی اضافہ ہو رہا ہے ۔ سازشی تصورات کی دنیا میں زندگی بسر کرنے والے بعض بقراطوں نے اسے ایسٹ انڈیا کمپنی کی برصغیر آمد سے تشبیہ دی ہے ۔تاہم وہ یہ بھول رہے ہیں کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے جب یہاں کا رخ کیا تھا ، تب برصغیر کے پاس میزائل تھے نہ ایٹم بم اور نہ ہی ایسی انتہائی مستعد فوج ،جو جنگ لڑنے والی افواج میں سے صفر شرح خودکشی کی حامل دنیا کی واحد فوج ہے ۔ایسی فوج جس نے مشرقی سرحد پر سات گنا بڑے دشمن کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ مغربی سرحد پر القاعدہ اور طالبان کو دھول چٹائی ۔ سوات اور وزیرستان جیسے شہر ظالمان کے قبضے سے آزاد کرائے۔ ''را‘‘ کا مقابلہ کیا اور اس تیرہ سالہ خوفناک ترین جنگ کے باوجود اس فوج میں بھگوڑوں کی شرح صفر ہے ۔
مزید برآں یہ کہ چین خطے میں امریکہ بھارت اتحاد سے سخت نالاں ہے ۔ اقوامِ متحدہ میں ہمیشہ سے وہ پاکستان مخالف قراردادوں کو ویٹو کرتا آیا ہے ۔ جنوبی چین کے سمندروں میں جاپان اوردوسرے علاقائی حلیفوں کو حاصل امریکی آشیرباد پر وہ سیخ پا ہے ۔ متنازع چینی جزائر پر سے گزرنے والی امریکی پروازوں کو چین کی جانب سے سخت انتباہی پیغامات جاری کیے جاتے ہیں ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کو نہ تو برصغیر میں امریکہ بھارت اتحاد سے واسطہ تھا اور نہ ہی اسے پاکستان جیسے ایک قابلِ اعتماد حلیف کی ضرورت تھی ۔
معترضین کا کہنا ہے کہ سیاسی اشرافیہ کی صورت میں جو کرپٹ مافیا ملک پر حکمران ہے ، اس کی موجودگی میں اقتصادی راہداری یا کسی بھی معاشی منصوبے کا فائدہ ہو ہی نہیں سکتا۔ پہلے ہمیں وہ چھید بند کرنے کی ضرورت ہے ، جو ہمارے قومی جسد پر موجود ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آپ کو کس نے روکا ہے کہ متوازی طور پر'' انسدادِ کرپشن‘‘ کی تحریک چلائیں ۔ کیا ہم چین اور ساٹھ ممالک سے یہ کہتے کہ ذرا پندرہ بیس سال رک جائیے ۔ پہلے ہم اپنے اندر پائی جانے والی خرابیوں کی اصلاح کر لیں ، اس کے بعد آپ کو راستہ دیں گے ؟ ایک بزرگ اخبار نویس نے کہا کہ تیل کی بے انتہا دولت حاصل ہونے کے باوجود عرب ریاستیں آج کہاں کھڑی ہیں ؟ ان کا کہنا بالکل درست ہے کہ معدنی ذخائر دریافت ہونے یا کسی بڑے معاشی منصوبے سے قومیں ترقی نہیں کرتیں بلکہ اپنی خرابیوں کی اصلاح اور اپنی افرادی قوت (Human Resource)میں بہتری سے ۔ یہ بات بالکل درست کہ سی پیک ہمارے سب دکھوں کی دوا نہیں ۔ سرکاری ہسپتالوں میں ایک عام شخص کو اگر معیاری علاج میسر نہیں آتا ،معیاری تعلیم فراہم نہیں اور بد عنوانی کا قلع قمع نہیں ہوتا تو یہ ساری چکا چوند بے سود رہے گی ۔ اس کے ساتھ اتنی ہی بڑی حقیقت یہ بھی ہے کہ ہر سال قومی بجٹ میں ہمیں 10سے 15ارب ڈالر خسارے کا سامنا ہوتا ہے ۔اس کے لیے امریکہ، آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے بھیک مانگنا پڑتی ہے ۔ آمدن اور اخراجات میں ہزار سے پندرہ سو ارب روپے کا یہ فرق ختم ہو سکے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ رہی عرب ریاستیں تو ان کے مسائل کی نوعیت معاشی نہیں بلکہ دفاعی ہے ۔ وہ ایک پیشہ ور فوج ، میزائل ، ایٹمی پروگرام، بحریہ اور فضائیہ تشکیل دینے میں ناکام رہیں اور اس کی وجہ ہی دولت کی ریل پیل ہے ۔
پاکستان کوبھارت اور دہشت گردوں کی طرف سے غیر معمولی خطرات درپیش ہیں۔ اس کے باوجود اس کا بنیادی مسئلہ دفاعی نہیں بلکہ معاشی ہے ۔ درست الفاظ میں یہ کہ پاکستان کے دفاع کو اس کی معیشت سے خطرہ لاحق ہے ۔ سب سے بڑھ کر پاک فوج اس بات کا ادراک رکھتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی نے پاک چین اقتصادی راہداری کی حمایت میں پیہم اور غیر متزلزل بیانات جاری کیے تو سیاسی قیادت سے بڑھ کر وہ جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر باجوہ ہیں ۔ بنیادی بات یہ ہے کہ چینی تجارتی قافلوں کا پاکستان بھر سے گزرنا اور گوادر میں چینی بحری جہازوں کا کھڑا ہو جانا ایک ایسی صورتِ حال ہوگی ، جس میں پاکستان کی سلامتی چین کی سلامتی بن جائے گی ۔ چین اور ساٹھ ممالک کی صورت میں دنیا کی آدھی آبادی کو آپس میں جو تجارت کرنا ہوگی، اس کے لیے انہیں پاکستان کی سلامتی کو یقینی بنانا ہو گا ۔ یہی وجہ ہے کہ اقتصادی راہداری بھارت اور امریکہ کے لیے ناقابل برداشت بن رہی ہے ۔
مجھ سمیت بہت سے لوگوں کا خیال یہ تھا کہ لاہور میٹرو جیسے چمکتے دمکتے منصوبوں اور عیاشیوں کے ہم متحمل نہیں ۔ ہمیں پہلے تعلیم ، صحت اور روزگار میں بہتری لانے کی ضرورت ہے ۔ چین نے پشاور سمیت سب صوبائی دارالحکومتوں کو بھی ماس ٹرانزٹ کے منصوبے پیش کر دئیے۔ مایوسی ہوئی ، جب تحریکِ انصاف کی حکومت نے شتابی سے اسے قبول کیا اور یہ نہ کہا کہ چین میٹرو کی بجائے ہمیں یونیورسٹیاں اور ہسپتال بنا نے میں مدد دے ۔ اگرچار سال بعد آپ نے بھی میٹرو ہی شروع کرنا تھی تو کیا پنجاب بہتر نہ رہ گیا؟
خیر، چینی خسارے کا سودا نہیں کرتے ۔2025ء سے 2030ء کے درمیان انہیں امریکہ کو معاشی میدان میں پچھاڑنا ہے ۔سی پیک کے ذریعے انہیں ساٹھ ممالک سے سالانہ سینکڑوں ارب ڈالر کی تجارت کرنا ہے اور یہ پاکستان کے راستے ہوگی ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سارے عمل میں اگر پاکستان ہی کو سالانہ بنیادوں پر خسارہ ہونے لگے ۔ اگر پاکستان میں رائے عامہ سی پیک کے خلاف استوار ہو جائے؟ مظاہرے اور جلسے جلوس اگر شروع ہو جائیں اور سی پیک بند کر دیا جائے تو نتیجہ کیا نکلے گا؟ کیا سینکڑوں ارب ڈالر سالانہ کی تجارت کو وہ پاکستان کے د س پندرہ ارب ڈالر کی خاطر خطرے میں ڈالیں گے ؟