اس ملک میں کئی کام بیک وقت ہورہے ہیں۔ کبھی لگتا ہے ملک تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کررہا ہے اور کبھی لگتا ہے کہ دنیا جتنی تیزی سے آگے جارہی ہے اتنی ہی تیزی سے ہم نیچے جارہے ہیں ۔
ایک بات طے ہے، عدالتوں نے بڑی تیزی سے وہ گیپ فل کرنا شروع کردیا ہے جو سیاسی حکومتوں اور بیوروکریسی کی مسلسل ناکامی اور نااہلی کی وجہ سے پیدا ہوچکا ہے۔ اب بیوروکریسی اور حکمران عدالتوں کے احکامات کا انتظار کرتے ہیں‘ وہ حکم دیں گی تو مردم شماری ہوگی، بلدیاتی انتخابات ہوں گے، خواجہ سرائوں کے نام مردم شماری میں ڈالے جائیں گے، پروموشن ہوگی وغیرہ وغیرہ ۔
مان لیتے ہیں افتخار چوہدری کا کوئی بہت بڑا سیاسی ایجنڈا تھا لہٰذا ان کی عدالت میں پیپلز پارٹی کے خلاف ہی مقدمے چلتے رہتے تھے۔ انہیں ہر وقت پیپلز پارٹی میں ہی خامیاں نظرآتی تھیں اور پیپلز پارٹی کے لیڈر ہی انہیں کرپٹ اور غلط لگتے تھے۔ تاہم ان کے بعد آنے والے چیف جسٹسز صاحبان کی اگر گفتگوسے، چاہے وہ عدالت کے اندر کی گئی ہو یا کسی تقریب میں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ سب وہی باتیں کرتے آئے ہیں جو افتخار چوہدری کرتے تھے۔
چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی باتیں اگر یاد ہوں تو وہ بھی گورننس کے مسائل پر بہت سخت آبزرویشن دیتے رہے۔ یہ انہوں نے ہی کہا تھا انگریز کے دور میں قتل کے مقدمہ کا فیصلہ دو سال کے اندر اندر ہوجاتا تھا جس میں سب اپیلیں تک شامل ہوتی تھیں، لیکن اب پاکستان میں بائیس برس بعد بھی فیصلہ نہیں ہوپاتا حالانکہ پولیس سے لے کر عدلیہ تک سب کو اب مراعات اور سہولتیں انگریز دور سے بھی زیادہ ملتی ہیں۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی بھی عدلیہ ، گورننس اور بیوروکریسی کے زوال پر باتیں کرتے رہے۔ اب موجودہ چیف جسٹس ثاقب نثار بھی وہی کہہ رہے ہیں کہ گورننس برباد ہوگئی ہے۔ اپنوں کو نوازنے کا کلچرزیادہ ہوگیا ہے۔ اگرچہ چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کو ایک کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ انہوں نے آتے ہی چار سال بعد پہلی دفعہ ایک نئے سرے سے سوو موٹو کودوبارہ زندہ کیا اور اب تک دو درجن سے زیادہ وہ ان مسائل پر سووموٹو لے چکے ہیں جو عام آدمی سے تعلق رکھتے ہیں۔ پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں سیاستدان سیاست کو کاروبار سمجھتے ہوں وہاں عدالتوں کو جیوڈیشل ایکٹوزام دکھانا پڑتا ہے۔
دوسری طرف پاکستان جیسے ملکوں میں جہاں بیوروکریسی اور حکمرانوں نے عوام کے خلاف اتحاد کررکھا ہو وہاں اس کے خلاف عوام ، عدلیہ اور میڈیا کا الائنس ہونا بہت ضروری ہے۔ کراچی کی حد تک ہم دیکھ رہے ہیں وہاں ایک مضبوط سول سوسائٹی جنم لے رہی ہے جس نے اب حکمرانوں کے غلط فیصلوں کے خلاف مزاحمت شروع کردی ہے۔ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے تبادلے کے خلاف جس طرح سندھ کی سول سوسائٹی عدالت گئی اور وہاں سے احکامات رکوائے اور دوبارہ اب ٹرانسفر کیا گیا تو احکامات پھر رکوائے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آخرکار سول سوسائٹی اور عدالتوں کو ادراک ہورہا ہے ان کا الائنس انتہائی ضروری ہے۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے سندھ میں تو اس سول سوسائٹی نے جنم لے لیا ہے ، پنجاب میں یہ سول سوسائٹی کہاں ہے؟ پنجاب میں میڈیا، عدلیہ اور سول سوسائٹی کا اتحاد کہیں نظر نہیں آتا ۔ پنجاب میں سب کچھ فری فار آل کیوں ہے؟ پنجاب میں مزاحمت نظر نہیں آتی جو حکمرانوں کے غلط فیصلوں کے خلاف اس طرح ہو جیسے سندھ میں نظر آتی ہے؟ کیا پنجاب میں سب کچھ ٹھیک ہے یا پھر پنجاب کے عوام میں اتنا شعور نہیں کہ وہ طاقتور کو روک سکیں ۔ اے ڈی خواجہ اور بہاولنگر کے ڈی پی او شارق کمال صدیقی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ کچھ زیادہ مختلف نہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دونوں پر ردعمل مختلف تھا ۔
سندھ میں اگر پیپلز پارٹی خواجہ کو صوبہ بدر کرناچاہتی تھی تو پنجاب میں یہ کام آرام سے کر لیا گیا۔ شارق کمال صدیقی کو لاہور سے حکم دیا گیا کہ وہ ایم این اے عالم داد لالیکا کے ڈیرے پر جا کر کھانا کھائیں کیونکہ انہوں نے چند روز قبل پولیس بھیج کر ان کے ڈیرے پر کچھ لوگ گرفتار کیے تھے۔شارق کمال کو کہا گیا اگروہ نہ گئے تو صوبہ بدر کر دیے جائیں گے۔ داد دیں اس بہادر سپوت کو جس نے وردی کی لاج رکھ لی، خود کو صوبہ بدر کرالیا لیکن جھکا نہیں۔ پتہ چلا یہ حکم وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے آیا تھا اور چھوٹے بھائی نے بھی دیر نہیں لگائی۔ آئی جی مشتاق سکھیرا تک نے بھی ایک لمحے کے لیے نہیں سوچا وہ کیا کرنے جارہے ہیں۔ پنجاب پولیس کے کسی آر پی او، سی پی او یا ڈی پی او کو بھی جرات نہ ہوئی کہ اپنے کولیگ کے ساتھ ہونیو الی اس ناانصافی کے خلاف ڈٹ جاتے ۔ اور کچھ نہیں تو ایک احتجاجی مراسلہ ہی آئی جی کے نام بھیج دیتے کہ آپ کیوں ہمیں برباد کر رہے ہیں؟ سب نے الٹا شارق کمال صدیقی سے عبرت پائی ۔ میں شرطیہ کہتا ہوں اب بھی شارق کمال کو ملتے ہوں گے تو اسے باتوں باتوں میں طعنہ دیتے ہوں گے ''کیا ملا؟‘‘
میرے ایک جاننے والے آر پی آو سے میں نے یہی گلہ کیا کہ آپ نے اسٹینڈ نہیں لیا۔ فرمایا میں نے شارق کمال کو فون کر کے سمجھایا تھا جا کر کھانا کھا آئو۔۔۔میں حیرانی سے فون پکڑے بیٹھا رہا ...جب انسان نوکری کرنے پر آئے تو وردی سمیت نیچے گرتا ہے۔
یہی کچھ اسلام آباد میں محمدعلی نیکوکارا اور آفتاب چیمہ کے ساتھ ہوا۔ انہیں سول سوسائٹی کی طرف سے ریلیف نہ ملا۔ سوال یہ پیداہوتا ہے جب میڈیا اور عوام ایسے افسران کے لیے کھڑے نہیں ہوں گے تو وہ کیوں اپنے بچوں اور نوکریوں کو خطرے میں ڈال کر اس معاشرے کے لیے کھڑے ہوں؟ ہارورڈ یونیورسٹی سے گریجویٹ نیکوکارا آج کل ایک عالمی ادارے میں کام کرتے ہیں، اس کی قابلیت اپنے معاشرے کے لوگوں کے کام نہ آسکی خصوصاً پولیس جہاں اس جیسے افسران کی سخت ضرورت ہے۔ اب حالت یہ ہوچکی ہے پنجاب میں نئے آئی جی کے لیے بندہ نہیں مل رہا جو اپنی تنخواہ پر کام کرے اپنے کام سے کام رکھے اورباقی حکمرانوں پر چھوڑ دے۔
پنجاب میں بھی پولیس تباہ ہوکر رہ گئی ہے۔ حکمرانوں نے پنجاب پولیس کو اس کے پائوںپر کھڑا کرنے کا حل یہ نکالا کہ انہیں نئی وردیاں سلوا دیں۔ یقینا کسی دن ان وردیوں کے پیچھے چھپے سکینڈل کی تفصیلا ت بھی سامنے آئیں گی۔ ان وردیوں پر ایک لطیفہ چل رہا ہے کہ نئی وردیوں میں دس جیبیں لگی ہوئی ہیں تاکہ مال بھرنے میں آسانی رہے ۔ جب کوئی آئی جی پولیس ریٹائرڈ ہونے سے پہلے چار لاکھ روپے تنخواہ بڑھوائے گا اور عمر بھر کی مراعات منظور کرائے گا توپھر اس طرح کے لطیفے ہی مارکیٹ میں مشہور ہوں گے۔
آپ لاکھ نئی وردیاں سلوا کر انہیں پہناتے رہیں جب تک ان کے اندر کی کچلی ہوئی عزت نفس اور ضمیر کو پالش نہیں کیا جائے گا کچھ نتیجہ نہیں نکلے گا ۔ اس مایوسی کے موسم میں یہی سوچ کر پھر بھی دل کو تسلی ہوتی ہے جہاں پاکستان کے زکوٹے جن محض چھوٹے چھوٹے فائدے، پوسٹنگ، ٹرانسفر اور ریٹائرمنٹ کے بعد چند مراعات کے لیے حکمرانوں کا ہرجائز وناجائز حکم تسلیم کرتے ہیں وہاں ابھی شارق کمال صدیقی، محمد علی نیکوکارا، آفتاب چیمہ، اے ڈی خواجہ جیسے پولیس افسران بھی موجود ہیں۔
ویسے محض یہ اتفاق ہے باغیوں کی اس نئی فہرست میں یہ چند نام صرف پولیس افسران کے ہیں جنہوں نے بغاوت کی۔ حیرانی کی بات ہے ان باغیوں کی فہرست میں کسی اور گروپ کا کوئی افسر شامل نہیں ۔ جو مراعات لینے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ انگریزوں کے یہ ڈارلنگ بابوز جو کبھی ڈپٹی کمشنر لگ کر ضلع میں اکبر بادشاہ سے بھی زیادہ دبدبے،خوف، دہشت اور ہٹو بچو کے لیے مشہور تھے، آج حکمرانوں کے ایک معمولی برخوردار کے ایک معمولی دبکے پر سہم اور دبک جاتے ہیں ۔
انگریز لوٹ آئے تو اپنے ان پیاروں کی حالت دیکھ کر صدمے سے مر جائے کہ اس کے تخلیق کردہ تاریخی بابوئوں نے انگریز ڈرامہ نگار کرسٹو مارلو کے مشہورزمانہ کردار ڈاکٹر فاسٹس سے متاثر ہو کر شیطان کو چند دنیاوی عیاشیاں اور قدیم یونان کی خوبصورت دوشیزہ ہیلن آف ٹرائے جس کے لیے سات سال تک جنگ لڑی گئی اور ہزاروں نوجوانوں نے اپنی زندگیاں گنوا دی تھیں ، کو محض ایک محبت بھرا بوسہ کرنے چکر میں اپنی روح کتنی سستی بیچ دی ہے!
اس مایوسی کے موسم میں یہی سوچ کر پھر بھی دل کو تسلی ہوتی ہے جہاں پاکستان کے زکوٹے جن محض چھوٹے چھوٹے فائدے، پوسٹنگ، ٹرانسفر اور ریٹائرمنٹ کے بعد چند مراعات کے لیے حکمرانوں کا ہرجائز وناجائز حکم تسلیم کرتے ہیں وہاں ابھی شارق کمال صدیقی، محمد علی نیکوکارا، آفتاب چیمہ، اے ڈی خواجہ جیسے پولیس افسران بھی موجود ہیں۔