مریدوں کا مال اور آبروتو پہلے ہی جعلی پیروں کے قبضہ قدرت میں تھی‘ اب گویاجان بھی ان کے رحم و کرم پر ہے۔
خانقاہ اور مدرسہ ہمارے وہ سماجی ادارے ہیں جن پر ہم بجا طور پرناز کرسکتے ہیں۔ مدرسہ صدیوں اس علمی روایت کا امین رہا ہے، جس سے نہ صرف ہمارے علوم ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتے آئے ہیں بلکہ یہ نظامِ مملکت و حکومت چلانے کے لیے رجالِ کار بھی فراہم کرتا رہا ہے۔ دینی اور دنیاوی تعلیم کی تقسیم دورِ غلامی کی یادگار ہے۔ جب زمامِ کار ہمارے اپنے ہاتھ میں تھی، یہ دوئی نہیں تھی۔ مدرسہ محض نصابِ تعلیم ہی نہیں پڑھاتا تھا، یہ دراصل اقامتی درس گاہ تھی جو تعلیم اور تربیت دونوں کا اہتمام کرتی تھی۔
دورِغلامی میں وقت کے جبر سے جنم لینے والی یہ تقسیم، آزادی کے بعد بھی قائم رہی۔ ریاست دینی تعلیم سے لا تعلق ہوگئی اور سماج نے اپنے وسائل سے مدرسے کو زندہ رکھا۔ جہاں وسائل کا عمل دخل ہو، وہاں مفادات کا وجود میں آنا ناگزیر ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مدرسہ ذریعہ معاش بن گیا۔ اس سے'' انٹرسٹ گروپ‘‘ وجود میں آئے۔ مفادات کا تصادم اس کا ناگزیر نتیجہ تھا۔ اب مسلح دستوں کے ساتھ مدارس پر قبضے ہوتے ہیں۔ ایک مدرسہ ایک چھوٹی سی ریاست ہے اور مہتمم اس کا سربراہ۔ بلا شبہ نیک اور بے لوث افراد کی بھی کمی نہیں لیکن ایک مافیا بھی وجود میں آ چکا ہے۔ یہ بلا مبالغہ اب اربوں کا کاروبار ہے۔جدید اور عمومی تعلیم کا معاملہ بھی یہی ہے۔ ریاست اس باب میں بھی اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرسکی۔ مجبوراً عوام نجی تعلیمی اداروں کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ نجی ادارے جس طرح عوام کا استحصال کر رہے ہیں، اس کی ایک نہ ایک داستان ہر گھر میں موجود ہے۔
دوسرا سماجی ادارہ خانقاہ تھا۔ میں اسے فلسفۂ تصوف سے ہٹ کر، ایک سماجی ادارے کے طور پر دیکھ رہا ہوں۔ خانقاہ لوگوں کے اخلاقی اور نفسیاتی تزکیے کا ادارہ تھا۔ لوگ اپنے اپنے نفسیاتی عوارض کے ساتھ اس طرف کا رخ کرتے ، جن کو وہ روحانی خیال کرتے ۔ یہاں بیٹھا شخص در اصل ماہر نفسیات ہوتا اور ان کی تسکین قلب کااہتمام کرتا ۔ یہ بلاشبہ ایک بڑی سماجی خدمت تھی۔ یہ ماہرِ نفسیات کچھ وظائف و اورادکی تلقین کرتا ۔ یوں مذہب سے ایک تعلق قائم ہو جاتا۔ مریض اسے روحانی علاج سمجھ کر قبول کر لیتا اوربعض اچھی عادات وعبادات اس کے معمولات کا حصہ بن جاتیں۔
سماج نے خانقاہ کی اہمیت کو محسوس کیا اورمدرسے کی طرح اسے اپنے وسائل سے زندہ رکھا۔بستی بستی درگاہیں اور خانقاہیں آباد ہونے لگیں۔ لوگ محبت اور عقیدت کے پھول ہی نہیں، پیسے بھی نچھاور کرنے لگے۔ یوں اربوں روپے کی ایک معیشت وجود میں آگئی۔ یہاں بھی وہی کچھ ہوا جو مدرسے کے ساتھ ہوا۔ انٹرسٹ گروپ بنے۔ خانقاہوں پر قبضے ہونے لگے۔ مرید بھی گروہ در گروہ بکنے لگے۔ اب یہاں وہ مجاور آگئے ،جن کا روحانیت سے کوئی تعلق تھا نہ نفسیات سے۔ استحصال کے لیے عوام ہمہ وقت میسر ہیں۔ یوں خانقاہ کے معاملات بھی ایک مافیا کے پاس چلے گئے۔
گدی اب دکان ہے جہاںکاروبار ہوتا ہے۔ کاروبار بھی وہ جو صدا بہار ہے۔آج کے پیر صاحب سماج کی حقیقتوں کو سمجھتے ہیں۔ راولپنڈی میںایک پیر صاحب کے بیٹے کی شادی زیادہ پرانی بات نہیں۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر بہت دن چرچا رہا کہ کس طرح نوٹ نچھاور ہوئے اور برات کے لیے سڑکیں بند رہیں۔سندھ اور پنجاب میں پیر بڑے جاگیردار ہیں۔یوں یہ سیاست پر بھی قابض ہیں۔ان کے اثر رسوخ کایہ عالم ہے کہ تحریک انصاف جو 'سٹیٹس کو‘ کو چیلنج کرنے کے لیے بنی تھی،اس کا وائس چیرمین بیک وقت پیر بھی ہے اور جاگیردار بھی۔ ان پیروں نے طبقاتی تقسیم کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مریدوں کے حلقے بنا رکھے ہیں۔ کسی سے اسلام آباد کے علاقے کی کوٹھی میں ملتے ہیں اور کسی سے خانقاہ پر۔
سرگودھا کی نواحی بستی میں جو کچھ ہوا، یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ ہے نہ آخری۔ لوگوں کو یاد ہو گا ، کیسے چکوال کی ایک خاتون نسیم اختر کے کہنے پر بہت سے لوگ سمندر میں کود گئے تھے۔ اس کاروبار میں انسانوںکے ایمان ، ناموس اور جان ، وہ اجناس ہیں جو بطور کرنسی استعمال ہوتے ہیں۔ '' جہالت ‘‘وہ بینک ہے جہاں سے یہ کرنسی جاری ہوتی ہے۔ یہاں پیر گالی بھی دے تو اسے سوغات سمجھ کر قبول کیا جاتا ہے۔ عوام توشۂ جان و مال پیش کرتے ہیں اور ریاست کوئی ٹیکس عائد نہیں کرتی۔ ایسا کاروبار کیا کوئی دوسرا ہو سکتا ہے؟
مدرسہ تعلیم کے لیے تھا۔ خانقاہ تزکیۂ نفس کے لیے۔ جب یہ دونوں کاروبار اور متاع دنیا کے حصول کا ذریعہ بن گئے تو پھر تعلیم باقی رہی نہ تزکیہ۔ اب جو باقی ہے اس کے مظاہر ہمارے ارد گرد بکھرے ہوئے ہیں۔ یہ ایک آدھ مدرسے یا ایک آدھ خانقاہ کا معاملہ نہیں۔ یہ ایک وبا ہے جو پھیل چکی ہے۔بلاشبہ آج یہ اربوں روپے کی معیشت ہے۔اس پر عالمی وعلاقائی سیاست کے اثرات ہیں اور مقامی سیاست کے بھی۔ایک حلقہ انتخاب میں ہر امیدوار ووٹوں کے لیے پیروں کو خوش کرتا ہے۔
اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ریاست اس مدرسہ و خانقاہ کو کسی نظام کے تابع کرے ۔ مدرسہ کو کسی نظم کا پابند کرنا آسان ہے۔اس کاایک نصاب ہے، ایک نظام ہے۔یہ ایک علانیہ کام ہے جس پر بات ہو سکتی ہے۔اس موضوع پہ بہت سی تجاویز بھی پیش کی جا چکی ہیں۔ خانقاہ کا معاملہ البتہ پیچیدہ ہے۔'' روحانیت‘‘ کا کوئی پیمانہ نہیں، جس سے اسے ناپا جا سکے۔اس پہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس معاملے سے کیسے نمٹا جائے۔اب یہاں بھی مدرسے کی طرح باپ کے بعدبیٹا گدی پر بیٹھتا ہے۔کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں۔ پرانے دور میں اولیائے کرام اپنے کسی مرید کو اپنا خلیفہ مجاز مقرر کیا کرتے تھے ۔ایک روایت میں رہنے والا ہی پیر بنتا تھا۔ اگر اسی روایت ہی کو بحال کر دیا جائے تو شاید کچھ بہتری آ جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ریاست ان خانقاہوں کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے اور وہی سجادہ نشین ہو جو شریعت مطاہرہ کا پابند اور کسی مستند سلسلے میں بیعت ہو۔ اس سے خانقاہ کی روایت سے وابستہ سب قباحتیں تو ختم نہیں ہوں گی لیکن امید ہے کہ بہت حد تک کم ضرور ہو جائیں گی۔
یہ ان سماجی اداروں کی اصلاح کی طرف پہلا قدم ہو گا۔ اصل تبدیلی البتہ اسی وقت آئے گی جب سماج اور دین کا باہمی تعلق حقیقی اور فطری بنیادوں پر استوار ہو گا۔ وہی بنیادیں جو اسلام کے دور اوّل میں رکھی گئیں۔خانقاہ کی روایت بھی اس دین کے تابع ہو جو اللہ کے پیغمبر لے کر آئے۔اگر اس کی اصلاح نہ ہو سکی تو سرگودھا جیسے واقعات ہوتے رہیں گے۔