''رفیع یہ کیا ڈرامہ کھیلا جا رہا ہے؟‘‘ میں نے جواب دیا، ''جناب آخری حکم مل گیا ہے، آج آپ کو پھانسی دی جا رہی ہے‘‘۔
مسٹر بھٹو میں پہلی مرتبہ میں نے وحشت کے آثار دیکھے۔ انہوں نے اونچی آواز میں اپنے ہاتھ کو ہلاتے ہوئے کہا، بس ختم؟ بس ختم۔
میں جواب دیا، جی جناب۔ بھٹو صاحب کی آنکھیں وحشت اور اندرونی گھبراہٹ سے جیسے پھٹ گئی ہوں۔ ان کے چہرے پر پیلاہٹ آ گئی جو میں نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ میں اس حالت کو صحیح بیان نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا، 'کس وقت‘؟ پھر کہا، 'کس وقت‘ اور پھر کہا، 'آج‘؟ میں نے اپنے ہاتھوں کی سات انگلیاں ان کے سامنے کیں جیسے ایک جمپ ماسٹر پیرا جمپ سے پہلے ہاتھوں سے وقت بتاتا ہے۔
انہوں نے پوچھا، 'سات دن بعد‘؟
میں نے ان کے نزدیک ہوکر سرگوشی میں بتایا، 'جناب، گھنٹے‘۔
انہوں نے کہا، 'آج رات سات گھنٹوں بعد‘۔ میں نے اپنا سر ہلاتے ہوئے ہاں میں جواب دیا۔
بھٹو صاحب جب سے پنڈی جیل میں لائے گئے اس وقت سے وہ ایک مضبوط اور سخت چٹان بنے ہوئے تھے، لیکن اس موقع پر وہ بالکل تحلیل ہوتے دکھائی دے رہے تھے، جس نے مجھے زندگی کی حقیقیت سے روشناس کر دیا۔ چند لمحوں کے بعد انہوں نے پھر کہا، 'رفیع بس‘؟ میں نے دوبارہ اپنے سر کو ہلاتے ہوئے ہاں کا اشارہ کیا۔ تھوڑے وقفے کے بعد انہوں نے خود کلامی کے انداز میں کہا،' میرے وکلا نے اس کیس کو خراب کیا ہے، یحییٰ (بختیار) میری پھانسی کا ذمہ دار ہے، وہ مجھے غلط بتاتا رہا۔ اس نے کیس کا ستیاناس کیا ہے۔ اس نے ہمیشہ سبز باغ دیکھائے‘۔ پھر کہنے لگے، 'میری پارٹی کو مردہ بھٹو کی ضرورت تھی، زندہ بھٹو کی نہیں‘۔
میرے سیل سے باہر جانے کے بعد انہوں نے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ خواجہ غلام رسول کی نگرانی میں سات بج کر پانچ منٹ پر شیو بنائی۔ شیو کے دوران انہوں نے ڈپٹی سے مندرجہ ذیل بات چیت کی:
ڈپٹی صاحب آپ لوگوں کو ایسا لیڈر کہاں سے ملے گا، مگر آپ کو ضرورت ہی کیا ہے، ضرورت تو غریبوں کو تھی۔ میں موچی دروازے میں موچیوں کے سامنے تقریریں کیا کرتا تھا کیونکہ میں خود موچی ہوں۔ تم لوگ غریبوں کا لیڈر چھین رہے ہو۔ میں انقلابی آدمی ہوں، غربیوں کا حامی۔ یار مجھے مارنا ہی تھا تو دو سال خراب کیوں گیا۔ میری عزت کیوں نہیں کی جو ساری دنیا میں ہے۔ مجھے کسی ریسٹ ہاؤس یا کسی کوٹھی میں رکھتے اور عزت سے مار دیتے۔ آج اسلامی کانفرنس کے چیئرمین کو، جسے ساری دنیا کے مسلمانوں نے منتخب کیا ہے، شیو کرنے کی بھی اجازت نہیں۔ ساتھ کھڑے ہو تاکہ بلیڈ سے خود کو ضرب نہ لگا لوں۔ دوسرے مجرموں سے جھوٹ بکواس کرا کر مجھے پھانسی کے پھندے پر چڑھا کر انہیں چھوڑنا چاہتے ہو۔ دوسری بات، ہاں تجھے یار میں بہت تنگ کیا ہے، مجھے معاف کر دینا۔
پھر انہوں نے باہر والے سنتری کو بلایا اور ڈپٹی صاحب سے کہا: میرے مرنے کے بعد یہ گھڑی اس سپاہی کو دے دینا۔
شام آٹھ بج کر پانچ منٹ پر جب مشقتی عبدالرحمٰن نے بھٹو صاحب کے کہنے پر کافی کا کپ بنا کر دیا تو بھٹو صاحب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور نہوں نے اس سے کہا،'' رحمٰن مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہو تو مجھے معاف کر دینا۔ پھانسی تو لگ ہی جانا ہے آج میری آخری رات تیرے ساتھ ہے۔ میں صرف چند گھنٹوں کے لیے تیرا مہمان ہوں‘‘۔
بھٹو صاحب آٹھ بج کر پندرہ منٹ سے نو بج کر چالیس منٹ تک اپنی وصیت لکھتے رہے۔ اس کے بعد تقریباً دس منٹ وہ ٹیبل پر شیشہ، کنگھی، بالوں کا برش، تیل کی بوتل اور جائے نماز، تولیہ بچھا کر اس کے اوپر رکھتے اور ہٹاتے رہے۔ پھر نو بج کر پچپن منٹ اپنے دانت صاف کیے، منہ ہاتھ دھویا اور بالوں کو کنگھی سے سنوارا۔ پھر تقریباً پانچ منٹ کے لیے سگار کی راکھ اور چند جلے ہوئے کاغذوں کی راکھ ایک کاغذ کی مدد سے صاف کرتے رہے۔ دوبارہ رات دس بج کر دس منٹ سے گیارہ بج کر پانچ منٹ تک لکھتے رہے۔ اس کے بعد انہوں نے تمام کاغذات جو انہوں نے لکھے تھے جلا ڈالے۔ جلے ہوئے کاغذات کی راکھ سارے سیل میں پھیل گئی۔ انہوں نے مشقتی عبدالرحمٰن کو بلایا اور سیل صاف کرنے کو کہا۔ انہوں نے سنتری سے پوچھا: کتنا وقت رہ گیا ہے، سنتری نے جواب دیا کہ جناب کافی وقت ہے۔ کہنے لگے کتنا، ایک گھنٹہ، دو گھنٹے، مگر سنتری خاموش رہا۔ پھر خود ہی کہا کہ ایک دو گھنٹے سو سکتا ہوں۔ سنتری نے جواباًَ کہا 'جی جناب‘۔ گیارہ بج کر دس منٹ پر سیل کھولا گیا، مشقتی اندر گیا اور برش سے فرش صاف کیا اور ساری راکھ باہر نکال دی۔ پھر سیل بند ہوا اور بھٹو صاحب لیٹ گئے۔ گیارہ بج کر پچیس منٹ پر کہا 'میں کوشش کرتا ہوں کہ تھوڑی دیر سو لوں کیونکہ میں کل رات سے نہیں سویا۔ ویسے مجھے پتا ہے کہ آپ لوگ مجھے بارہ بجے جگا دیں گے‘۔ کچھ دیر بعد لیٹے ہوئے انہوں نے صنم، صنم پکارا۔ رات ایک بج کر دس منٹ پر بھٹو صاحب خود اٹھ بیٹھے۔ انہیں بتایا گیا کہ نہانے کے لیے گرم پانی موجود ہے مگر بھٹو صاحب نے نہانے سے انکار کر دیا۔
رات دو بجے ان کا سیل کھولا گیا اور مجسٹریٹ بشیر احمد خان نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ کوئی وصیت چھوڑنا چاہتے ہیں؟ بھٹو صاحب خاموش رہے، ان کا رنگ بالکل پھیکا اور زرد پڑ چکا تھا اور وہ جسمانی لحاظ سے نقاہت کی حالت میں تھے۔ ان کی آواز خفیف، بے حد کمزور تھی اور صاف سنائی نہ دے رہی تھی۔ انہوں نے کوشش کر کے کہا ''میں۔۔ نے کوشش۔۔ کی۔۔ لیکن۔۔ میرے۔۔ خیالات۔۔ اتنے۔۔ درہم برہم۔۔ تھے ۔۔ کہ ۔۔ میں۔۔ نہ لکھ۔۔ سکا۔۔ میں۔۔ نے۔۔ اسے۔۔ جلا دیا‘‘۔ میجسٹریٹ نے دوبارہ آگے بڑھ کر ان سے پوچھا کہ آپ کچھ وصیت کرنا چاہتے ہیں۔ بھٹو صاحب خاموش رہے۔ میجسٹریٹ نے پھر پوچھا کہ کیا آپ وصیت لکھوانا چاہیں گے۔ انہوںنے جواب دیا، ہاں۔۔ میں۔۔ لکھوانا۔۔ چاہوں گا۔
اسی لمحے وقت ختم ہو چکا تھا اور جیل سپرنٹنڈنٹ نے ہیڈ وارڈر کو حکم دیا کہ وہ اپنے آدمی اندر لائے اور مسٹر بھٹو کو اٹھا لیں۔ چار وارڈر اندر داخل ہوئے اور دو نے بھٹو صاحب کے بازو اور دو نے ان کے پاؤں اور ٹانگیں پکڑ کر ان کو اوپر اٹھا لیا۔ جب ان کو اٹھایا جا رہا تھا تو انہوں نے کہا، ''مجھے چھوڑ دو‘‘۔ جب ان کو سیل سے باہر نکالا جا رہا تھا تو ان کی کمر تقریباًَ فرش کے ساتھ لگ رہی تھی، ان کی قمیض کا پچھلا حصہ ایک وارڈر کے پاؤںکے نیچے آیا اور قمیض پھٹنے کی آواز آئی، شاید وہ بازوؤں کے نیچے تک ادھڑ گئی ہو گی۔ دالان میں ان کو سٹریچر پر ڈال کر ان کے دونوں ہاتھ پیٹ پر رکھ کر ہتھکڑی لگا دی گئی۔ چاروں وارڈروں نے اسٹریچر کو اٹھا لیا اور دو سو پچاس گز دور پھانسی کی جگہ اسے زمیں پر رکھ دیا۔ دو نے بھٹو صاحب کو بغلوں کے نیچے ہاتھ ڈال کر ان کی مدد کی اور وہ پھانسی کے تختے پر کھڑے ہو گئے۔ ان کے ہاتھوں سے ہتھکڑی نکال کر ان کے بازو اور ہاتھ ان کی کمر کے پیچھے ایک جھٹکے سے لے جائے گئے اور پھر ہتھکڑی لگا دی گئی۔ اسی دوران تارا مسیح نے ان کے سر اور چہرے پر ماسک چڑھا دیا۔ اس وقت بھٹو صاحب نے کہا ''یہ مجھے‘‘۔ شاید وہ کہنا چاہتے ہوں کہ یہ مجھے تکلیف دے رہے ہیں۔ ٹھیک دو بج کر چار منٹ پر جلاد نے لیور دبایا۔
آدھ گھنٹا پھانسی پر لٹکائے جانے کے بعد اور جیل ڈاکٹر کے سرٹیفکیٹ دیا کہ ان کی موت واقع ہو چکی ہے۔ بھٹو صاحب کی لاش کو رات دو بج کر پینتیس منٹ پر پھانسی کے پھندے سے جدا کیا گیا۔ ان کی میت کو غسل دیا گیا جس کا بندوبست وہیں کر لیا گیا تھا۔ ایک فوٹو گرافر نے، جسے ایک انٹیلیجنس اجینسی نے بھیجا تھا، ضرورت کے مطابق بھٹو صاحب کے چند فوٹو اتارے۔
(کرنل رفیع الدین کی کتاب ''بھٹو کے آخری ۳۲۳ دن‘‘ کے آخری باب سے اقتباسات)