ایک طویل اور پراسرار خاموشی کے بعد ممتاز ادبی جریدے کولاژکے اکٹھے دو شمار شائع ہوئے ہیں۔ دونوں کی ضخامت کوئی اڑھائی اڑھائی سو صفحات پر مشتمل ہے اور ہر شمارے کی قیمت 500 روپے ہے‘ ایڈیٹر اقبال نظر ہیں اور سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ ایک پرچے میں آرٹ پیپر پر رنگین اشتہارات بھی ہیں جو ادبی پرچوں کے لیے نیک فال کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مضامین‘ نظم و نثر کی عمدگی برقرار ہے اور اقبال نظر صاحب نے فون پر یہ خوشخبری سنائی ہے کہ اب پرچہ کم ضخامت میں اور باقاعدگی سے شائع ہوا کرے گا۔ افسانوں میں ابراہیم جلیس‘ جتندر بلّو‘ خالد فتح محمداور دیگران ہیں انگریزی اور پنجابی کہانی کا ترجمہ بھی شامل ہے۔ طویل افسانے طاہرہ اقبال اور اخلاق احمد نے لکھے ہیں۔حصہ مضامین میں ڈاکٹر محمد علی صدیقی‘ فخر زمان‘ ناصر بغدادی نمایاں ہیں جبکہ میورل کے نام سے سمیع آہو جا کی تحریر ہے۔ شعراء میں مرتضیٰ برلاس‘ انور شعور‘ صابر ظفر‘ امجد اسلام امجد‘ ڈاکٹر جواز جعفری‘ آفتاب اقبال شمیم‘ شاہین مفتی اور دیگران شامل ہیں۔
دوسرے شمارے کے حصہ مضامین میں شمس الرحمان فاروقی نے ایک غیر معروف شاعر مجذوبؔ کا تجزیہ پیش کیا ہے جن کا یہ شعر واقعی شہرت یا مقبولیت کا حامل ہے ؎
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
اب تو آ جا اب تو خلوت ہو گئی
اس کے بعد سبطِ حسن پر مسلم شمیم کا مضمون ہے اور طاہرہ اقبال نے بھی ''دیا روشن ہے‘‘ کے عنوان سے شمع کاظمی کے گلزار پر لکھے ہوئے مضمون پر روشنی ڈالی ہے۔ افسانوں میں ساقی فاروقی نے آپ بیتی پاپ کی ایک قسط پیش کی ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر سلیم اختر‘ مستنصر حسین تارڑ‘ نجم الحسن رضوی ،مشرف عالم ذوقی اور دیگران کے افسانے ہیں۔ اسد واحدی کا ناولٹ اور آرٹ کے عنوان سے مضامین ہیں۔ شعراء میں بہت سے معروف اور ممتاز نام ہیں۔ خصوصی مطالعہ میں سلیم کوثر ‘ حجاب عباسی اور محسن چنگیزی کا کلام پیش کیا گیا ہے۔ محسن چنگیزی کے چند اشعار دیکھیے:
سُنا رہا تھا کہانی سنانے والا کوئی
اور اس کہانی میں تھا سچ بنانے والا کوئی
یہ منحرف ہے پرندوں کی دوستی سے بہت
ہے اس شجر پہ بُرا وقت آنے والا کوئی
صرف ہم دو تھے اور بات کرتے رہے
تُم کسی اور سے‘ ہم کسی اور سے
برگد کی تصویر بنایا کرتا تھا
پھر اُس سائے میں سستایا کرتا تھا
وہ شخص چاند کے جیسا تھا بہتے پانی میں
کچھ اور ہو گیا نزدیک دور جانے سے
اب آتے ہیں مبین مرزا کے ''مکالمہ‘‘ کی طرف جس کے تین شمارے میرے پاس اکٹھے ہو گئے ہیں یعنی 24,23اور 28شروع میں اسد محمد خاں کی تحریر بعنوان''ٹکڑوں میں بٹی ہوئی
کہانی‘‘ ہے۔ اس کے بعد خاکسار کی خود نوشت ''درگزشت‘‘ کی ایک قسط ‘واضح رہے کہ کالم میں نگارشات کا مختصر تذکرہ ہی پیش کیا جا سکتا ہے سلسۂ نظر میں ڈاکٹر اسلم انصاری پروفیسر سحر انصاری‘ ڈاکٹر ابو الکلام قاسمی‘ باقر نقوی ‘ سید مظہر جمیل‘ اصغر ندیم سید‘ خواجہ رضی حیدر‘ علی تنہا‘ ڈاکٹر رئوف پاریکھ‘ نجیب عارف‘ حسن عباس رضا‘ طاہر مسعود و دیگران ہیں اور شاعری میں احفاظ الرحمن کی کوئی درجن بھر نظمیں۔ اس کی قیمت300روپے ہے۔ شمارہ 24میں نجم الحسن رضوی کے قلم سے صرف آغاز ہے جبکہ دیگر نثر نگاروں میں مشتاق اعظمی‘ نجیب عارف‘ ڈاکٹر ناصر عباس نیّر‘ سلمیٰ اعوان‘ رضی مجتبیٰ‘ میر ظفر حسن کی 11نظمیں کئی چاند تھے سرِ آسماں ‘ صغیرافراہیم کا تجزیہ درگزشت3‘ محمد حمزہ فاروقی اور اسد محمد خان اس کی قیمت250روپے ہے‘ ٹائٹل تینوں کے عمدہ۔
مکالمہ 28کے آغاز میں درگزشت کی قسط 7جبکہ مضامین میں سید مظہرجمیل‘ نجم الحسن رضوی‘ رشید امجد‘ ڈاکٹر ناصر عباس نیّر‘ نجیب عارف‘ باقر نقوی‘ فراست رضوی نے جمال پانی پتی کو یاد کیا ہے۔ اس کے بعد ولی عالم شاہین کی نو غزلیں‘ نظمیں ہیںاور قاسم یعقوب کا مضمون بعنوان'' ظفر اقبال کے لسانی تشکیلی تجربات‘‘۔ خالد فیاض نے زاہدہ حنا کے'' افسانے نیند کا زرد لباس‘‘ پر خیال آرائی کی ہے۔ سیمیں کرن کا مضمون بعنوان ''مردہ آنکھوں کا شہر‘‘اور'' پھول کے سارے دکھ ‘‘کے عنوان سے پروین شاکر پر حسن سجاد کا مضمون اور آخر میں مرزا حامد بیگ کا خط اس پرچے کی قیمت بھی 250روپے ہے اور ‘ اب آخر میں ولی عالم شاہین کی غزلوں میں سے چند شعر ...
زندگی کی زبان بولتا ہوں
دھوپ کو سائبان بولتا ہوں
سنکھ ہو یا اذان بولتا ہوں
خاک ہوں آسمان بولتا ہوں
آنکھ ڈالے بھنور کی آنکھوں میں
مستقل بادبان بولتا ہوں
شمع جیسی زبان ہے مُنہ میں
آگ کے درمیان بولتا ہوں
لامکاں راستے میں آتا ہے
اور اسی کو مکان بولتا ہوں
ہے وہ شاہینؔ بے نیاز جسے
عادتاً مہربان بولتا ہوں
اس پار سے سواگُھٹن اس پار کس کی ہے
گھر سے مرے لگی ہوئی دیوار کس کی ہے
آج کا مطلع
ہوا کو روکنے والو ہوا تو آئے گی
نظر نہ آئے گی صورت‘ صدا تو آئے گی