سورہ ذاریات کی آیت نمبر 56 کے مطابق اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں اور جنات کو فقط اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔ لیکن ہر دور میں انسانوں کا یہ المیہ رہا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو چھوڑ کر ایسی جاندار اور بے جان اشیاء کو پوجنا شروع کر دیتے ہیں جو ان کو نظر آتی ہیں۔ اگرچہ انسان اپنی آنکھوں سے اللہ تبارک و تعالیٰ کی زیارت نہیں کر سکتا لیکن کائنات میں اس کی نشانیاں ہر سو پھیلی ہوئی ہیں۔ ان نشانیوں پر غور و فکر کرنے کے بعد اپنے خالق و مالک کو پہچاننا کچھ مشکل نہیں۔ جدید سائنس اور انسانی مشاہدات بھی اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ ضروری نہیں جو اشیاء نظر نہیں آتیں وہ موجود نہ ہوں۔ انسان ہوا کو دیکھ تو نہیں سکتا لیکن اسے محسوس کر سکتا ہے۔ اسی طرح سرخ رنگ سے بالاتر اور جامنی رنگ سے کم تر درجے کی لہریں رکھنے والے رنگ گو انسان کو نظر نہیں آتے لیکن ان کا وجود بہرحال ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی بنائی ہوئی وسیع و عریض کائنات اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہستی کے ہونے پر دلالت کرتی ہے اور اس کی تخلیق کو دیکھ کر ہر ذی شعور انسان کے دل و دماغ میں ایک زندہ اور حکیم و دانا خالق کا تصور اُبھرتا ہے۔ لیکن انسانوں کی ایک بڑی تعداد اس حوالے سے افراط و تفریط کا شکار ہے۔ کئی لوگ تو یکسر اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات کا انکار کرکے دہریت کے راستے پر چل نکلتے ہیں جب کہ بہت سے لوگ گو زبان سے تو اللہ تبارک و تعالیٰ کا اقرار کرتے اور دل کے کسی گوشے میں بھی اس کو مانتے ہیں‘ لیکن عبادات اور دعاؤں کو کرتے ہوئے وہ اللہ کے ساتھ ساتھ غیر اللہ کو بھی شامل کر لیتے ہیں۔ اسلام میں غیر اللہ کی پرستش کے ہر انداز کی مذمت کی گئی ہے اور قرآن مجید کا سب سے اہم مضمون توحید باری تعالیٰ کا اثبات اور غیر اللہ کی پرستش کی تردید ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کے انبیا نے دعوت توحید کے ابلاغ کے لیے اپنی زندگیوں کو وقف کیے رکھا اور ہر اس انداز اور اسلوب کی مخالفت کی جس میں غیر اللہ کی پرستش کا شائبہ بھی موجود ہو؛ چنانچہ حضرت نوحؑ نے بت پرستی اور حضرت ابراہیم ؑ نے بت پرستی کے ساتھ ساتھ اجرام سماویہ کی پوجا کی بھی نفی کی۔ نبی کریمﷺ جس سماج میں مبعوث ہوئے اس میں شرک کی مختلف اقسام پائی جاتی تھیں۔ لوگوں کی اکثریت بت پرستی میں مشغول تھی۔ نبی کریمﷺ نے اپنی قوم کو سمجھایا کہ انسانوں کے بنائے ہوئے بت ان کے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہو سکتے۔ نبی کریمﷺ نے جب بت پرستی کے خلاف آواز کو اُٹھایا تو کفار مکہ آپﷺ کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ انہوں نے نبی کریمﷺ کو تکلیف دینے میں کسی قسم کی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ نبی کریمﷺ کو شعب ابی طالب کی گھاٹی میں محصور کیا گیا، آپﷺ کو سرزمین مکہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا، کفار مکہ اور مسلمانوں کے درمیان کئی جنگیں ہوئیں، اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو اپنی تائید اور نصرت سے فتح یاب کیا۔ فتح مکہ کے بعد آپﷺ نے بیت اللہ کو بتوں سے پاک کر دیا اور جزیرۃ العرب اور سرزمین حرم کو توحید باری تعالیٰ کا گہوارہ بنا دیا۔
نبی کریمﷺ ہی کے زمانے میں لوگ اجرام سماویہ کی پوجا کیا کرتے تھے۔ نبی کریمﷺ نے اپنی قوم کے لوگوں کو یہ بتلایا کہ ستارے اور بروج انسانوں کی زندگی پر کسی بھی طور پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ بخاری شریف اور مسلم شریف میں اس حوالے سے ایک اہم واقعہ مذکور ہے۔ سیّدنا زید بن خالد جہنی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک دن صبح کی نماز حدیبیہ میں پڑھائی اور رات کو بارش ہوئی تھی۔ جب آپﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے لوگوں کو متوجہ ہو کر فرمایا: کیا تم جانتے ہو تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ''میرے بندوں میں سے بعضوں کی صبح تو ایمان پر ہوئی اور بعضوں کی کفر پہ۔ تو جس نے یہ کہا کہ بارش اللہ کے فضل اور رحمت سے ہوئی تو وہ ستاروںکے بارش برسانے کا منکر ہوا اور مجھ پر ایمان لایا اور جس نے کہا کہ بارش ستاروں کی گردش کی وجہ سے ہوئی ہے تو اس نے میرے ساتھ کفر کیا اور ستاروں پر ایمان لایا۔‘‘
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ایک بارش کی نسبت ستاروں سے کی جائے تو انسان ایمان اور اسلام سے خارج ہو جاتا ہے تو وہ لوگ جو اپنی زندگی کا مکمل نظام الاوقات ستاروں کی روشنی میں مرتب کرتے ہیں ان کا انجام کار کیا ہو گا۔ نبی کریمﷺ نے بیت اللہ شریف کی عمارت میں حجر اسود نصب کیا اور آپﷺ نے مسلمانوں کو اس بات کا حکم دیا کہ وہ حجر اسود کا بوسہ لیں‘ اس کو چھوئیں یا اس کا استلام کریں۔ اپنے زمانہ خلافت میں ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق ؓنے حجر اسود کو مخاطب ہو کر کہا کہ اے حجر اسود! تو ایک پتھر ہے نہ نفع کا مالک ہے نہ نقصان کا۔ میں تجھے اس لیے چومتا ہوں کہ تجھے رسول اللہﷺ نے چوما ہے۔ حجر اسود جو کہ ایک مقدس پتھر ہے اگر وہ کسی نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہو سکتا تو لعل و یاقوت، زمرد اور دیگر پتھروں کے ساتھ اپنی قسمت کو جوڑنا یقینا تواہم پرستی ہی کی ایک قسم ہے۔
نبی کریمﷺ جس سماج میں مبعوث ہوئے وہاں اللہ کے دو جلیل القدر انبیا کی پوجا کا تصور بھی موجود تھا۔ یہود حضرت عزیر ؑ کو اللہ تبارک و تعالیٰ کا بیٹا کہتے جب کہ نصاریٰ حضرت عیسیٰ ؑ کو اللہ تبارک و تعالیٰ کا بیٹا کہا کرتے تھے۔ سورہ اخلاص میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس حقیقت کو واضح فرمایا کہ اللہ ایک ہے‘ اللہ بے نیاز ہے‘ نہ وہ کسی کا باپ ہے نہ وہ کسی کا بیٹا اور کوئی بھی اس کا ہمسر نہیں۔ نجران کے مسیحی پادریوں نے نبی کریمﷺ سے حضرت عیسیٰ ؑ کی ابنیت کے بارے میں استفسار کیا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے تو سورہ آل عمران کی آیت نمبر59 کا نزول فرمایا ''کہ بے شک عیسٰی علیہ السلام کی مثال اللہ کے نزدیک آدم ؑ کی مانند ہے‘ جنہیں اس نے مٹی سے بنا کر کہہ دیا ''ہو جا تو وہ ہو گئے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس حقیقت کو واضح کر دیا گیا کہ اگر وہ حضرت آدمؑ کو بغیر والدین کے پیدا کر سکتا ہے تو سیدنا عیسیٰ ؑ کو بن باپ کے کیوں پیدا نہیں کر سکتا۔ سیدنا مسیح ؑ اور سیدنا عزیرؑ کی الوہیت کی تردید میں کائنات کے لوگوں کے لیے یہ پیغام تھا کہ انبیا علیہم السلام یقینا کائنات کے ہادی، رہبر اور رہنما تو ہیں لیکن الہ العالمین اور پرستش اور عبادات کا حق دار تنہا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔
نبی کریمﷺ اور آپ سے پیشتر آنے والے تمام انبیا علیہم السلام نے ہر مشکل اور پریشانی کی گھڑی میں فقط اللہ تبارک و تعالیٰ ہی سے مدد کو طلب کی اور اسی کے سامنے اپنے سر کو جھکایا۔ انہوں نے اپنی اقوام کو غیر اللہ کی پرستش سے روکا۔ لیکن لوگ تواہم پرستی کا شکار ہو کر ہر دور میں کسی نہ کسی خود ساختہ ''الہ‘‘ کی پوجا میں مشغول رہے۔ اللہ کے جلیل القدر نبی حضرت موسیٰؑ کی قوم کے لوگوں نے بچھڑے کی پوجا پر اصرار کیا۔ حضرت موسیٰ ؑ ان کو اللہ تعالیٰ کے حکم پر بچھڑے کو ذبح کرنے کا حکم دیتے رہے اور وہ حیلے بہانے سے اس کے ذبح سے منحرف ہونے کی جستجو کرتے رہے۔ بالآخر حضرت موسیٰ ؑ کے اصرار کرنے پر وہ بچھڑے کو ذبح کرنے پر آمادہ و تیار ہوئے‘ گو وہ دل سے اس کام کے لیے تیار نہ تھے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں ثنویت کا بھی رد کیا۔ آتش پرست دو الٰہوںکی پوجا کیا کرتے تھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ انبیاء کی آیت نمبر 22 میں ارشاد فرمایا ''اگر آسمان و زمین میں سوائے اللہ کے اور بھی معبود ہوتے تو یہ دونوں درہم برہم ہو جاتے۔‘‘
مسلمان دعوت توحید کے پاسبان اور نبیء رحمتﷺ کی تعلیمات کے وارث ہیں۔ لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ بعض لاعلم اور نادان لوگ قرآن و سنت کی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر پیروں اور فقیروں کو اس حد تک بڑھا دیتے ہیں کہ ان کو اللہ تبارک و تعالیٰ کا ہم نشیں بنا دیا جاتا ہے۔ جعلی عاملین اور نام نہاد پیر ہر دور میں لوگوں کا استحصال کرنے میں مصروف رہے ہیں۔ ماضی میں اس طرح کی باتیں سامنے آئیں کہ بعض درندہ صفت جعلی عاملین نے بہت سی خواتین کی عزتوں کو پامال کیا۔ اسی طرح معصوم بچوں کو نامرد بنا دیا گیا۔ حال ہی میں ایک جعلی پیر نے 20 بے گناہ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم توحید پرست لوگ ہیں اور ہمارے پاس قرآن مجید اور حضرت رسول اللہﷺ کی تعلیمات کی شکل میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات اور صفات کا واضح تصور موجود ہے تو نجانے ہم اپنی مشکلات، دکھ اور تکالیف کے ازالے کے لیے مساجد اور اللہ کے گھروں کی طرف رجوع کرنے کی بجائے ان پیروں اور فقیروں کے آستانے پر کیوں جھکنا شروع ہو جاتے ہیں۔ حقیقی ولی اللہ اپنی پوجا کا سبق دینے کی بجائے اللہ کی بندگی کا درس دیتا ہے۔ جب کہ جادوگر، نجومی، کاہن اور جعلی عاملین لوگوں کی جان و مال اور عزت کو سلب کرکے ان کو سیدھے راستے سے بھٹکا دیتے ہیں۔ توہم پرستی جہاں پر انسان کی آخرت کو تباہ کرنے کا سبب ہے‘ وہیں پر دنیا میں بھی اس کے لیے نقصان اور اذیتوں کا باعث بن جاتی ہے۔ اس کے بالمقابل اللہ کی ذات کے سامنے سجدہ ریز ہونے والے لوگ جہاں پر آخرت میں سر بلند ہوں گے وہیں پر دنیا میں بھی ان کی تکالیف اور مشکلات دور ہو جائیں گی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہماری قوم کی اصلاح فرمائے اور انہیں توہم پرستی کے جال سے نکال کر صحیح عقیدہ توحید کی سمجھ بوجھ عطا فرمائے۔ آمین!