ایسا لگتا ہے کہ آر ایس ایس ملک گیری کے مختلف مقامات پر اپنے نامزاد افراد کو مقرر کرنے کے لئے کھل کر میدان میں آ گیا ہے۔ ملک کی صورتحال پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آر ایس ایس کا سیاسی بازو، بی جے پی پہلے ہی بیشتر ملک پر قابض ہو چکی ہے۔ صدارتی انتخابات چند ماہ بعد ہونے والے ہیں۔
آج بی جے پی کے کچھ نہیں تو 9 وزرائے اعلیٰ ہیں اور وہ سب آر ایس ایس کے پرچارک ہیں۔ ہریانہ میں منوہر لال کھٹر، اتراکھنڈ میں تروندر سنگھ راوت، منی پور میں بہرین سنگھ، مہاراشٹر میں دیوندر فٹرنویس، مدھیہ پردیش میں شیوراج سنگھ چوہان،چھتیس گڑھ میں رمن سنگھ، گوا میں منوہر پاریکر، جھاڑ کھنڈ میں رگھو ویر داس اور آر ایس ایس پریوار میں سب سے بعد میں شامل ہونے والے اترپردیش میں آدتیہ ناتھ یوگی۔ یہ ہندوستان کا سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے جس کی لوک سبھا میں 80 نشستیں ہیں۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ وزیراعظم نریندر مودی آر ایس ایس کے سچے پرچارک ہیں۔ وہ گجرات میں فساد بھڑکنے کے بعد منظر عام پر آئے، جہاں حکومت کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں تھی۔ 2014ء میں وزیراعظم بننے پر انہوں نے اس کا خیال رکھا کہ آر ایس ایس کے وفادار افراد ملک کے اہم انتظامی منصبوں پر بٹھائے جائیں، چاہے وہ مرکز میں ہوں یا صوبوں میں۔
جب انہوں نے اس کا آغاز مرکز میں کیا تو یہ تاثر کہیں سے بھی نہیں دیا کہ وہ آر ایس ایس کے خطوط پر چل رہے ہیں۔ لیکن جوجوں وقت گزرتا گیا، وہ رفتہ رفتہ اپنا اصل رنگ دکھانے لگے۔ وہ اپنے دست راست امت شاہ کو سامنے لائے اور انہیں پارٹی کا صدر بنا دیا۔ لیکن اس کے لئے وہ قابل تعریف ہیں کہ بی جے پی پھر اکیلے یوپی سے لوکھ سبھا کی 72 نشستوں پر کامیاب ہو کر ملک کے اقتدار پر قابض ہو گئی۔ بی جے پی اور حلیفوں کی مدد کرنے میں اور ریاست میں 403 میں 325نشستیں حاصل کرنے میں امت شاہ کابڑا ہاتھ ہے۔
بھاری اکثریت سے جیت سے راجیہ سبھا میں بری تعداد میں نشستیں حاصل کرنے میں اور لوک سبھا میں پارٹی کی دو تہائی اکثریت ملنے سے بی جے پی کو مدد ملی ہے۔ واقعی اس سے بی جے پی اور آر ایس ایس دونوں میں یہ اعتماد پیدا ہوا ہے کہ وہ اپنے امیدوار کے طور پر جہاں بھی بٹھا دیں گے، وہاں شاید ہی کسی طرح کی مخالفت ہو گی۔ یہاں تک کہ اگر غیر بی جے پی پارٹیوں کی طرف سے ذرہ برابر مزاحمت ہوئی تو وہ برائے نام ہی ہو گی۔
منصب صدارت کے لئے جو نام گردش کر رہے ہیں وہ ہیں ایل کے ایڈوانی اور سابق وزیر ماحولیات یشونت سنہا کے۔ ایڈوانی ایک بھاری بھرکم نام ہے کیوں کہ انہوں نے ہی مسز اندراگاندھی کے اقتدار میں واپس آنے پر 1980ء میں جنتا پارٹی کے ٹوٹنے پر بی جے پی کی بنیاد ڈالی تھی۔ موصوفہ نے بی جے پی ممبروں کو انتقام کے جذبے کے تحت سزا دی تھی۔ سابق بیورو کریٹ سنہا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ دونوں ہی شاید عوام میں ہردل عزیز ہیں۔ پارٹی کے اندر ایسے ہمدرد بھی ہیں جو ان کی امیدواری کے حق میں ہیں، کیونکہ مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ان دونوں کو کنارے کر دیا گیا تھا۔ تاہم صدارتی منصب کے امیدوار کے ضمنی انتخاب کا انحصار وزیر اعظم پر ہو گا۔ یہ راز وہ اپنے سینہ میں چھپائے ہوئے ہیں اور پارٹی کو مختلف ناموں پر بحث و گفتگو کرنے کے لئے کہہ رہے ہیں۔ مودی یقینا ایسے شخص کو صدر جمہوریہ کی کرسی پر دیکھنا چاہیں گے جو ان کے قابو میں رہے۔ ابھی تک سامنے آنے والے دو نام شاید اس منصوبہ کے لئے موزوںنظر نہیں آتے جو ابھی ان کے ذہن میں محفوظ ہے۔
وزیرمالیات ارون جیٹلی بہت کم عمر ہیں اور وزیراعظم کو ان کی ضرورت کابینہ میں ہے اور دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ وہ دونوں ایوانوں کے بہت اچھے اسپیکر ہیں۔ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ یوپی کے وزیر اعلیٰ بننا چاہتے تھے لیکن اب جب کہ یوگی نے صوبہ کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے اپنے پیر جما لئے ہیں، راج ناتھ سنگھ شاید اس باوقار منصب کی طرف دیکھ رہے ہوں۔ لوک سبھا اسپیکر سمترا مہاجن کے بارے میں جنہوں نے ایوان کو منظم انداز میں چلایا ہے کہا جاتا ہے کہ وہ ایک موزوںامیدوار ثابت ہوں گی۔
بہترین انتخاب اس امیدوار کا ہو گا، جو غیر سیاسی، مقبول اور تجربہ کار ہو۔ پرناب مکھر جی کا انتخاب صدر جمہوریہ کے منصب پر اس لئے ہوا تھا کہ وہ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کے معتمد تھے۔ ان کے اس منصب پر فائز ہونے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ انہیں راہل گاندھی کے وزیراعلیٰ بننے کی راہ میں رکاوٹ سمجھا جا رہا تھا۔ تاہم مکھرجی تنازعات سے بالاتر نہیں تھے۔ سربراہ مملکت کی حیثیت سے منصب پر قائم رہتے ہوئے انہیں اپنی یادداشتیں شائع نہیں کرنی چاہئیں تھیں۔
سیاسی پارٹیوں نے ان پر تنقید کرنے سے اس لئے تکلف کیا کہ وہ ملک کے آئینی سربراہ جتنے انہیں منتخب کرنے والوں کے لئے ہیں، اتنے ہی سیاسی پارٹیوں کے لئے ہیں۔ پرناب مکھر جی نے صدر جمہوریہ کے منصب پر رہتے ہوئے اپنی یادداشتیں شائع کرا کے اس منصب کے وقار کو پامال کیا ہے۔ سابق صدر جمہوریہ گیانی ذیل سنگھ بے داغ تھے۔ کانگریس پارلیمانی پارٹی کے رہنما منتخب ہونے سے پہلے انہوں نے راجیو گاندھی کو وزیراعظم کی کرسی پر بٹھا دیا تھا۔
بدقسمتی سے کانگریس کے نائب صدر کی حیثیت سے دوسری پوزیشن پر ہوتے ہوئے راہول گاندھی کوئی اثر قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ سونیا گاندھی کی اطالوی شناخت ابھی قائم ہے اور اسی لئے اعلیٰ منصب کے لئے تجویز کردہ کسی دوسرے امیدوار کے لئے ان کی حمایت موثر نہیں ہے۔
کمیونسٹوں کو اس لئے سنجیدگی سے نہیں لیا گیا کہ ملک میں ان کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ ان ریاستوں میں بھی جہاں چند برس پہلے ان کی شاندار جیت ہوئی تھی ان کی گرفت بتدریج کمزور ہو رہی ہے۔ بہار میں نتیش کمار کے زیر قیادت اتحاد اور اے آئی اے ڈی ایم اے کو چھوڑ کر علاقائی پارٹیوں کی شاید ہی کوئی اہمیت ہو۔ ان تمام باتوں سے بی جے پی یا آر ایس ایس کیلئے اپنے پسندیدہ شخص کو راشٹرپتی بھون پہنچانے کے راستے ہر طرح کھلے ہوئے ہیں۔
اس سے انکار کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ اگلا صدر جمہوریہ بی جے پی یا آر ایس ایس کے حلقہ کا ہو گا۔ اس سے عوام کے حقیقی جذبات کی واقعی نمائندگی نہیں ہو پائے گی۔ عوام ایسے شخص کو چاہیں گے جو ان کی توقعات اور آرزوئوں پر پورا اترے۔ مختلف سیاسی پارٹیوں کے حکمرانوں کو اپنے اختلافات بھلا کر اصل مقصد کے حصول کے لئے بھرپور غوروفکر کرنا چاہیے۔ بدقسمتی سے فی الوقت سیاسی میدان میں ایسا کوئی فرد نظر نہیں آتا۔ کوئی ماہر تعلیم، سائنسدان، ماہر قانون یا سیاسی امور کے ہمراہ اپنے میدان میں کمال رکھنے والا کوئی شخص متبادل ہو سکتا ہے۔ لیکن شاید ایسا ہونے والا نہیں ہے۔