ہم نے اپنی تاریخ کو ہمیشہ مسخ کیا ہے۔ محمد بن قاسم کے حملے سے لے کر مغلیہ خاندان کی حکومت تک ہم نے حقائق کو لوگوں تک پہنچنے ہی نہیں دیا۔ اسی روایت کو ہم اب تک دوہرا رہے ہیں۔ ہم صرف مثبت نکات کو محفوظ کرتے اور منفی نکات کی پردہ پوشی کرتے اور ایک گمراہ کُن رویے کے مُرتکب ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹر مبارک احمد سے لے کر پروفیسر کے کے عزیز تک اس بات کا بہت رونا رویا گیا ہے اور اس کے نقصانات سے بھی آگاہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن ہم نے اسے کبھی اہمیت نہیں دی۔ اور ابھی تک اپنے پسندیدہ اشخاص کو ہیرو ہی بنا کر پیش کرتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ آخر وہ بھی بندہ بشر ہی تو تھے اور ان میں بشری خامیاں بھی موجود تھیں۔
یہی کچھ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ کیا جا رہا ہے حالانکہ جو کچھ اس دور میں ہوتا رہا ہے ہمارے سامنے کی باتیں ہیں اور ابھی انہیں تاریخ کا درجہ بھی حاصل نہیں ہوا ہے ۔یہ وضاحت ضروری ہے کہ میں خود پیپلز پارٹی کا اساسی رکن اور اس کے کئی عہدے بھگتا چکا ہوں اور ان نظریات پر اب تک قائم ہوں جو اس پارٹی کے منشور میں درج تھے‘ لیکن یہ بات ہمیشہ فراموش کر دی جاتی ہے کہ اس نعرے اور نظریات کے خالق بھٹونہیں بلکہ جے اے رحیم ‘ ڈاکٹر مبشر حسن‘ حنیف رامے ،شیخ رشید احمد اور دیگران تھے۔ یہ ترقی پسند نظریات دراصل بھٹو پر تھوپ دیے گئے تھے جن کی وجہ سے انہیں اور پارٹی کو عوام میں مقبولیت حاصل ہوئی ورنہ بھٹو بنیادی طور پر ایک جاگیردارانہ ذہنیت کا مالک تھا اور تکّبر شقی القلبی اور فسطائیت اس کے رگ و ریشے میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ چنانچہ جو بہیمانہ سلوک اس نے پارٹی کے معماروں کے ساتھ روا رکھا وہ بھی کسی کو بھولا نہیں ہے۔ چنانچہ جو ذلت آمیز سلوک جے اے رحیم کے ساتھ روا رکھا گیا اور حنیف رامے اور افتخار تاری وغیرہ پر شاہی قلعہ میں جو ظلم ڈھائے گئے۔ وہ سب کو یاد ہیں اور پھر اپنے ہی ایک جانثار ملک قاسم اور جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل احمد کے ساتھ جو ناقابل بیان ذلت روا رکھی گئی اس سے کون انکار کر سکتا ہے۔بھٹوکے خلاف قتل کا جو مقدمہ چلا اسے پارٹی کے لوگوں کی طرف سے عدالتی قتل قرار دیا جاتا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے یہ قتل بھٹو نے نہ کروایا ہو لیکن جماعت اسلامی کے ڈاکٹر نذیر کا قتل کس کھاتے میں ڈالا جائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ سزا یاب ہونے کا یہ شاخسانہ ڈاکٹر نذیر ہی کے قتل کا ہو کیونکہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے اور کسی بھی جرم کے بہانے برس سکتی ہے۔
یہ بھی آنکھوں دیکھی حقیقت ہے کہ پارٹی منشور کے طفیل اقتدار کے مزے لوٹ کر اس نے وہی جاگیردار اپنے اردگرد اکٹھے کر لیے جن نونوں‘ ٹوانوں اور قریشیوں کے خلاف یہ ساری کار گزاری روا رکھی گئی تھی اور شاعر کو یہ کہنا پڑا ؎
ہم نے جدوجہد کرنا تھی ظفرؔ جن کے خلاف
وہ سبھی آ کر ہماری صف میں شامل ہو گئے
اور‘یہ بھی سب نے دیکھا کہ اس کی پھانسی پر کئی پارٹی اکابرین مٹھائیاں تقسیم کرتے پائے گئے۔ عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو۔
پیپلز پارٹی شہیدوں کی جماعت کہلاتی ہے‘ بھٹو کے بعد بینظیر اور مرتضیٰ بھٹو جن میں شامل ہیں۔ بینظیر کی شہادت کا براہ راست فائدہ چونکہ زرداری کو پہنچ رہا تھا اسی لیے ایک تو اس نے اقوام متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم کو حقائق تک رسائی حاصل نہ کرنے دی اور اس کے اعلان کے باوجود کہ انہیں بینظیر کے قاتلوں کا پتہ ہے‘ حکومت میں ہونے کے باوجود ان کے خلاف کوئی ایکشن نہ لیا۔ تیسرے شہید مرتضیٰ کے بارے میں بھی شک و شبہ کا راستہ اور کُھرا زرداری ہی تک جاتا ہے جن کی تصویر مرتضیٰ بھٹو نے اپنے کموڈ پر لگا رکھی تھی اور بینظیر وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی اس قتل کا راز نہ کھول سکیں۔بھٹو کے یوم شہادت پر پیپلز پارٹی نے ہر زبان میں چھپنے والے ہر اخبار میں 16صفحے کا رنگین ضمیمہ شائع کرایا ہے۔ یہ اربوں روپیہ آخر کہاں سے آیا ہے۔ اس کا اندازہ لگانے کے لیے بھی سائنسدان ہونا ضروری نہیں۔
ظاہر ہے کہ یہ سب الیکشن کی تیاریاں ہیں جن کا پارٹی کو پورا پورا حق حاصل ہے لیکن یہ بات بڑی آسانی سے فراموش کر دی جاتی ہے کہ 78ء کا الیکشن جس میں بھٹو کو تاریخی کامیابی حاصل ہوئی‘ اس کے پیچھے وہ افراد تھے جو پارٹی بنانے والے تھے اور جن کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔ اس الیکشن کا جھنڈا زرداری نے اٹھایا ہوا ہے جس کا اپنا اور دیگر عمائدین کا ٹریک ریکارڈ کوئی خاص قابل رشک نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ مقابلے میں بھی کوئی صوفی نہیں ہیں اور ان کی حالت ان سے بھی بدتر ہے لیکن وہ اقتدار چرانا بلکہ چھیننا تک جانتے ہیں جبکہ پارٹی نے اپنے حالیہ دورِ اقتدار میں صرف ایک کام کیا ہے جو اظہر من الشمس ہے۔ پیسہ پیپلز پارٹی بھی بہت خرچ کر سکتی ہے لیکن اب یہ حربہ خاصی حد تک ناکارہ ہو چکا ہے۔ الیکشن جیتنے کے لیے پیپلز پارٹی کو سب سے پہلے عوام پر اپنا اعتبار قائم کرنا ہو گا اور اس منشور پر ہی بھروسا کرنا ہو گا جس کے طفیل بھٹو نے الیکشن جیتا تھا۔علاوہ ازیں ایسے زعماء جو بے شک اپنی سیٹ کے حصول پر مطمئن ہوں لیکن پارٹی کے لیے ایک بوجھ ہی ثابت ہوں گے۔
پارٹی کو سندھ کارڈ استعمال کرنے کی بجائے سندھ میں اپنی کارگزاری کو بہتر بنانا ہو گا اور کسی حد تک اپنا چہرہ بھی بدلنا ہو گا۔ ڈاکٹر عاصم اور شرجیل میمن جیسے لوگوں سے ملاقاتیں بے فائدہ ثابت ہوں گی۔ پارٹی کو اگر اپنے ترقی پسندانہ ورثے سے دوبارہ فیضاب ہونا ہے تو اس تبدیلی کو نظر بھی آنا چاہیے اور یہی ایک گیدڑ سنگھی ہے جس کی بناء پر پارٹی اپنا کھویا ہوا وقار اور چھنا ہوا تخت حاصل کر سکتی ہے ع
اور درویش کی صدا کیا ہے
آج کامقطع
اُن کا برتائو ہی برا ہے‘ ظفر
ویسے وہ آدمی تو اچھے ہیں