تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     06-04-2017

فلسفوں کی دُھول

مشرق کی دلھن کہلانے والا شہر کہاں کھڑا ہے؟ 
کچرے کے ڈھیر پر! 
دنیا چاند کے بعد اب مِرّیخ کو زیر دام کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے یعنی اُس کی سطح پر انسان کو اُتارنے کی تیاری کی جارہی ہے مگر ہم اب تک وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔ اور حق تو یہ ہے کہ جہاں تھے وہاں سے بھی کئی قدم پیچھے آگئے ہیں! 
ملک کا سب سے بڑا ہی نہیں بلکہ معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی گردانا جانے والا شہر اختیارات کی رسّا کشی کے دام میں پھنسا ہوا ہے۔ ''اسٹیک ہولڈرز‘‘ آپس کی لڑائی میں شہر کا تیا پانچا کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ رسّا کشی کے نام پر اُنہوں نے جو رسّی تھام رکھی ہے وہ شہرِ قائد کے گلے کا پھندا بن چکی ہے! 
بلدیاتی انتخابات کے موقع پر اہل کراچی نے ایک بار پھر اپنی آنکھوں میں بہتر دنوں کے سپنے سجائے تھے۔ اُنہیں یقین تھا کہ منتخب قیادت آئے گی تو شہر کا حال بہتر بنانے پر کچھ توجہ دے گی۔ مگر اُن کے خواب محض خواب ہی رہے، شرمندۂ تعبیر نہ ہونے پائے۔ یقین دھول چاٹتا ہوگیا۔ بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں جس تبدیلی کی توقع تھی وہ واقع نہ ہوئی۔ ؎ 
اِسی اِک آس میں اب کے بھی فصلِ گل گزری 
وہ ہم سے بات کریں گے صبا کے لہجے میں 
کِھلے ہیں پُھول، بسی ہے فضاء میں خوشبو بھی 
مگر وہ بات نہیں ہے ہوا کے لہجے میں! 
پہلے تو کبھی کبھی یہ گمان گزرتا تھا کہ قائد کے شہر کو کسی کی نظر لگ گئی ہے۔ یہ گمان ختم تو نہیں ہوا، پختہ تر ضرور ہوگیا ہے۔ محض نظر لگ جانے سے تو اِتنا کچھ نہیں ہو جایا کرتا۔ اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ معاملہ بد نظری کا نہیں، بد دعا کا ہے! جو کچھ اِس شہر کے مقدر میں لکھا جاچکا ہے اور لکھا جارہا ہے وہ کسی بھی ایسے انسان کو سُکون سے سونے کی اجازت نہیں دے سکتا جو بہبودِ عامہ اور مجموعی قومی مفادات کے بارے میں سوچنے والا ذہن اور درد محسوس کرنے والا دل رکھتا ہو۔ 
بلدیاتی قیادت اور سندھ حکومت کے درمیان اختیارات کی سرد جنگ دن بہ دن گرم سے گرم تر ہوتی جارہی ہے۔ انتخابات اب محض آٹھ دس ماہ کی دوری پر ہیں۔ ایسے میں جس نوعیت کا سیاسی موسم ہمارے ہاں وارد ہوتا رہا ہے وہ بخوبی وارد ہو رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کو اچانک یاد آیا ہے کہ سندھ میں اُس کی حکومت کا وجود لوگوں کے دیئے ہوئے مینڈیٹ کی بنیاد پر ہے یعنی ووٹ ملے تھے تو اقتدار برقرار رکھنا ممکن ہوا تھا۔ اور اب ایک بار پھر ووٹ لینے ہیں۔ جب اِتنا یاد آ جائے تو ووٹرز کو رِجھانے کی بھرپور کوشش لازمہ ٹھہرتی ہے۔ مگر اِس معاملے میں بھی زمینی حقیقت کا درجہ رکھنے والی شہری و دیہی کی تقسیم سے بھرپور استفادہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے! پیپلز پارٹی اچھی طرح جانتی ہے کہ ووٹرز کو خوش کرنے کے بجائے خوفزدہ کرکے زیادہ ووٹ بٹورے جاسکتے ہیں۔ اس وقت ملک کی سیاست لسانیت اور صوبائیت پر مشتمل ہے۔ ہر صوبے میں مقامی سیاست اور علاقائی ترقی کی بات کرنے والی جماعتیں ہی کامیابی سے ہم کنار ہوتی ہیں۔ گزشتہ تین انتخابات کے اعداد و شمار دیکھ لیجیے تو اندازہ ہوجائے گا کہ کون سی پارٹی کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور ملک کہاں رہ گیا ہے! حق تو یہ ہے کہ وفاقی اکائیاں (صوبے) مضبوط سے مضبوط تر ہوتے گئے ہیں اور وفاق کی کمزوری نمایاں ہوتی جارہی ہے۔ 
مسندِ سیاست پر نسل پرستی، لسانیت اور صوبائیت پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ افروز ہے۔ خراب کارکردگی کے باوجود سندھ میں پیپلز پارٹی کی پوزیشن ایسی نہیں کہ دیگر جماعتیں اُسے پچھاڑنے کے بارے میں زیادہ سوچ سکیں۔ خیبر پختونخوا میں تحریکِ انصاف نے حکومت ضرور بنائی ہے مگر وہاں کی قیادت مجموعی طور پر مقامی سیاست دانوں ہی کی ہے۔ بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ ووٹنگ پیٹرن بہت حد تک ''اپنائیت‘‘ والا ہی ہے۔ 
بات کراچی سے شروع ہوئی تھی۔ شہر کو دیگر بنیادی سہولتیں تو خیر کیا میسر ہوں گی، کچرا ٹھکانے لگانے کا معاملہ بھی اختیارات کی کشمکش کی نذر ہوگیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے ترجیحات کا بہتر انداز سے تعین نہیں کیا۔ بلدیاتی نمائندوں کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے تو لیے مگر فرائض سے عہدہ برآ ہونے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ 
تھوڑی سی توجہ سے اہلِ کراچی کے دل جیتے جاسکتے تھے مگر شاید پیپلز پارٹی کی قیادت کو بخوبی اندازہ ہے کہ کراچی اور دیگر بڑے شہروں کے اردو بولنے والے ووٹر گھاس نہ بھی ڈالیں تو کوئی غم نہیں، دیہی سندھ کے اصل مکین یعنی ''سنز آف دی سوئل‘‘ تو اب بھی پیپلز پارٹی کو نجات دہندہ سمجھ کر اُس کی راہوں میں پلکیں بچھانے کے لیے تیار ہیں! پیپلز پارٹی کی قیادت اچھی طرح جانتی ہے کہ ملک بھر میں لسانیت اور صوبائیت پر مبنی سیاسی ڈھانچے کو پھلتا پُھولتا دیکھ کر اہلِ سندھ (یعنی دیہی سندھ کے لوگ) اپنی بقاء (!) کے لیے اُسی (پیپلز پارٹی) کی طرف دیکھتے رہیں گے! 
کراچی کے کچرے کے ڈھیر اِس وقت بحث کا موضوع بنے ہوئے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ہماری تو پوری سیاست ہی کچرے کے ڈھیر پر کھڑی ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ اِس سے اُٹھنے والے تعفّن کو خوشبو قرار دے کر بیچنے کی کوشش کی جارہی ہے! سندھ دیہی اور شہری کی غیر اعلانیہ درجہ بندی کا حامل ہے۔ پنجاب میں جنوبی و شمالی کا جھگڑا اب کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں رہا۔ بلوچستان بھی بلوچ اور پشتون اکثریتی علاقوں میں منقسم ہے۔ خیبر پختونخوا میں بظاہر ایسا کچھ نہیں مگر ووٹرز کو تقسیم کرنے والے دیگر عوامل ضرور کارفرما ہیں۔ تقسیم در تقسیم کا یہ عمل ملک کی سیاست کو چُوں چُوں کے مربّے کی سطح سے بلند نہیں ہونے دیتا۔ وہ سوچ اُبھرنے کا نام نہیں لے رہی جو حقیقی قومی مفادات کو دیگر تمام اُمور پر مقدم رکھے۔ 
کہنے کو پنجاب میں کسی حد تک ترقی ہو رہی ہے مگر عوام کو کیا مل رہا ہے؟ وہاں اُجرتوں کا ڈھانچا آج بھی افسوس ناک ہے۔ عام آدمی کو دن بھر کی مشقّت کا وہ صلہ نہیں مل رہا جو ملنا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کیا سبب ہے کہ وسطی پنجاب میں بنیادی ڈھانچے کو مستحکم کرنے اور صنعتی عمل کو تیز تر کرنے کی واضح اور کامیاب کوششوں کے باوجود آج بھی پنجاب کے پس ماندہ علاقوں کے لوگ کراچی کا رُخ کر رہے ہیں؟ 
ایک کراچی کو کیا روئیے کہ یاروں نے مل کر ذاتی مفادات کے استھان پر تمام قومی مفادات کا جھٹکا کردیا ہے۔ کچرے کے ڈھیر ملک بھر میں قدم قدم پر ہیں، صرف اُن کی نوعیت مختلف ہے۔ ناصرؔ کاظمی مرحوم نے کہا تھا ؎ 
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصرؔ 
اُداسی بال کھولے سو رہی ہے! 
اُداسی بھی برقرار ہے مگر اُس نے بال باندھ لیے ہیں۔ اب خیر سے ع 
''غلاظت‘‘ بال کھولے سو رہی ہے! 
عوام خواہ کہیں کے ہوں، اپنے مقدر میں شاید بے کسی اور بے نوائی لکھواکر لائے ہیں۔ اہلِ سیاست صرف اپنے مطلب کی ہانک رہے ہیں۔ عوام کے مفاد کی بات کوئی نہیں کر رہا۔ ان کی خدمت میں عرض ہے ؎ 
سو فلسفوں کی دُھول بصد شوق اُڑائیے 
لیکن کبھی کبھار سمجھ میں بھی آئیے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved