تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     07-04-2017

کوئی نئی بات نہیں

ریاست جموں کشمیر کے عوام نے نصف صدی سے زیادہ عرصے تک اپنی آزادی کے لئے جو لامحدود خون بہایا اور قربانیاں دی ہیں،بھارت کی سیاسی قیادت اپناایک ہی موقف دہراتی آ رہی ہے۔ بھارت کی کشمیر پالیسی کو بارہا دہرانے کے بعد نئی امریکی انتظامیہ جو موقف پیش کر رہی ہے درحقیقت یہ وہی موقف ہے، جسے وقت کے ساتھ ساتھ الفاظ بدل بدل کے دہرایا جاتا ہے اور اس کے عزائم کی تکمیل کے لئے پرانے الفاظ میںقدرے تبدیلی کرتے ہوئے کہا گیاہے کہ ''امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو پاکستان اور انڈیا کے درمیان بگڑتے ہوئے تعلقات پر تشویش ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو تصادم میں تبدیل ہونے سے پہلے سنبھال لیا جائے۔‘‘ 70 سال کے بعد نئی امریکی انتظامیہ کی سوچ آج بھی اگر یہی ہے، توپھر مسئلہ حل کرنے کا کوئی راستہ موجود نہیں۔ جو راستہ تینوںفریق یعنی پاکستان ، بھارت اور کشمیری عوام جو کچھ چاہتے ہیں، اس سے مسئلے کا کوئی حل ڈھونڈنا دشوار ہے۔تنازعہ کشمیر کا جو حل نکالنے پر بھارت ماضی کی طرح ہٹ دھرمی کے ساتھ مسلسل تکرار کرتا چلا آ رہا ہے اس کی روشنی میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ''بخشو !بی بلی، چوہا لنڈورا ہی بھلا۔‘‘ اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل مندوب نکی ہیلی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران پاکستانی صحافی کی جانب سے کشمیر کے مسئلے پر پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں جو تجویز پیش کی ہے،اس میں بھارت کی روایتی ہٹ دھرمی کے سوا کوئی نئی بات نہیں۔ 
پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان تصفیہ طلب مسائل کے حل کے لیے مصالحت کی امریکی پیشکش کا خیر مقدم کیا ہے جبکہ انڈیا نے ایک بار پھر اپنے موقف کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ دوطرفہ مذاکرات کے لئے دہشت گردی اور تشدد سے پاک ماحول ضروری ہے۔واضح رہے کہ پیر کے روز اقوامِ متحدہ میں امریکہ کی مستقل مندوب نکی ہیلی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک پاکستانی صحافی کی جانب سے کشمیر کے مسئلے پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ''امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو پاکستان اور انڈیا کے درمیان بگڑتے تعلقات پر تشویش ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو تصادم میں تبدیل ہونے سے پہلے سنبھال لیا جائے۔‘‘نکی ہیلی کایہ بھی کہنا تھا کہ اس سلسلے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور قومی سلامتی کونسل کے اراکین انڈیا اور پاکستان کے درمیان امن بحال کرنے کی کوششیں کر سکتے ہیں۔ امریکی سفیر کے اس بیان میں کے جواب میں انڈیا کی حکومت کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ''انڈیا اور پاکستان کے درمیان مسائل کے حل کے لئے دوطرفہ مذاکرات میں دہشت گردی اور تشدد سے پاک ماحول کے حکومتی موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ بلاشبہ ہم بین الاقوامی برادری اور تنظیموں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ پاکستان سے اٹھنے والی دہشت گردی کے تناظر میں بین الاقوامی میکینزم اور طریقہ کار کو یقینی بنائیں گی، جو خطے اور اس سے باہر امن اور استحکام کے لئے واحد اور سب سے بڑا خطرہ ہے۔‘‘
اِدھر پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان مسائل کے حل کے لئے ثالثی کا کردار ادا کرنے کے بیان کا خیر مقدم کیا ہے۔ وزارتِ خارجہ پاکستان کے ترجمان نفیس زکریا 
نے بی بی سی اردو کی شمائلہ خان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ''ہم اس طرح کی کسی بھی پیش کش کا ہمیشہ خیر مقدم کرتے ہیں کیونکہ ہم انڈیا کے ساتھ مسائل کو دوستانہ انداز میں حل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘انہوںنے بھی ایک بار پھر انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں جاری شورش کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ''مذاکرات کے لیے ہم کوئی شرائط نہیں رکھیں گے لیکن اس وقت ہمارا تقاضا ہے کہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں جو خونریزی جاری ہے اسے بند کیا جائے اور انڈیا کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایاجائے‘‘ نفیس زکریا کا کہنا تھا کہ ''ہمارا موقف ہے کہ کشمیر کا معاملہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے، جس میں ان سے وعدہ کیا گیا ہے کہ کشمیریوں کو ان کا حقِ خود ارادیت دیا جائے گا اور اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کرائی جائے گی۔‘‘
تجزیہ کاروں کے خیال میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان مصالحتی کردار ادا کرنے کے بیانات خطے کی جانب امریکی پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ ہیں، لیکن امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر شمشاد احمد سمجھتے ہیں کہ امریکہ ماضی کی پالیسی پر ہی عمل پیرا ہے۔''امریکہ کی مرضی تو ہے۔ نہ صرف امریکہ کی طرف سے بلکہ اقوامِ متحدہ کے موجودہ سیکریٹری جنرل کی طرف سے، اْس سے پہلے بان کی مون کی طرف سے اور اْس سے پہلے کوفی عنان کی طرف سے۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ فی الوقت انڈیا اپنے منفی انداز سے باہر نکلنے کے موڈ میں ہے۔‘‘
سابق سفیر نجم الدین شیخ کہتے ہیں کہ ''سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے بیان کے آخر میں ایک بار پھر کہا گیا ہے کہ ان مذاکرات میں امریکہ اپنا کردار مشورے تک محدود رکھنا چاہتا ہے لیکن اگر ڈونلڈ ٹرمپ ان مذاکرات میں کوئی ٹھوس کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو مسئلہ کشمیر پر انڈیا کے تحفظات اور دوطرفہ مذاکرات کے مؤقف کو ایک طرف رکھتے ہوئے ثالثی کا کردار ادا کریں۔‘‘شمشاد احمد نے کہا کہ ''پاکستان نے تو کہا ہے کہ اْس کے دروازے مذاکرات کے لئے کھلے ہیں لیکن نائن الیون کے بعد انڈیا نے ایک بڑا سوچا سمجھا فیصلہ کر رکھا ہے کہ پاکستان کے ساتھ کشمیر پہ کوئی بات نہیں کرنی، عالمی دہشت گرد جذبات استعمال کرتے ہوئے کشمیر کے مسئلے کو دہشت گردی کے مسئلے میں تبدیل کرنا ہے۔‘‘
مبصرین سمجھتے ہیں کہ کشمیر کے مسئلے کی طرف صدر ٹرمپ کی توجہ نکی ہیلی کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔شمشاد احمد نے کہا کہ ''وہاں تو ٹرمپ کے آنے کے بعد 'امریکہ فرسٹ‘ کا نعرہ لگا ہوا تھا۔ تو یہ نکی ہیلی کی سوچ لگتی ہے ، جنہوںنے اپنے صدر کو قائل کر لیا ہے کہ کچھ کرنا ہو گا، کیونکہ یہ صرف دو ملکوں نہیں بلکہ دنیا کے فائدے میں ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ''کشمیر کا معاملہ کوئی ریئل اسٹیٹ کا معاملہ یا جائیداد کی ملکیت کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ حقِ خود ارادیت کا مسئلہ ہے، جس کے لئے پاکستان اور انڈیا سمیت اقوامِ متحدہ، امریکہ اور دنیا کی بڑی طاقتوں کو ملک کر بیٹھنا ہو گا۔‘‘
امریکہ نے حال ہی میں مشرقِ وسطیٰ میں امن معاہدے کے حصے کے طور پر فلسطین اور اسرائیل کے درمیان ''دو ریاستی‘‘ تنازعے کے دو دہائیوں سے قائم اپنے موقف کو تبدیل کر کے ایک ریاستی حل پر زور دیا ہے۔ امریکی خارجہ پالیسی میں اسی سوچ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سابق سفیرنجم الدین شیخ نے کہا کہ ''صدر ٹرمپ جو ایک ڈیل کروانا چاہتے ہیں اور یہ اْسی اہمیت کا موقع ہے جیسا کہ فلسطین میں ہے۔‘‘مبصرین کا خیال ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی آرہی ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے بھی کوئی معاہدہ کرنے پر زور دیا جا سکتا ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved