تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     07-04-2017

بیمار کون؟

ایک عجیب سی کشمکش جاری ہے جس کا کوئی انجام عوام کے حق میں نہیں جارہا ۔
ایک ٹی وی چینل پر پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے ایک عہدے دار کی گفتگو سن رہا تھا جس میں وہ میڈیا کو لتاڑ رہے تھے کہ وہ کون ہوتے ہیں انہیں بتانے والے کہ سندھ میں آئی جی کون لگے گا...ان کی مرضی جس کو بھی لگائیں۔ حیرانی سے انہیں دیکھتا رہا کہ جب یہ لوگ اقتدار میں نہیں آئے تھے تو ان کا لہجہ اورسٹائل کتنا مختلف تھا۔ اس وقت انہیں کیوں میڈیا کی یاد ستاتی ہے؟ اس وقت یہ کیوں میڈیا کے لوگوں کو بلا کر ان سے مشورے کر رہے ہوتے ہیں اور انہیں رات گئے کھانوں پر بلا بلا کر سر پر چڑھا رہے ہوتے ہیں۔ اس وقت وہ کیوں سمجھتے ہیں کہ میڈیا سے زیادہ ان ظالم جابر حکومتوں کے خلاف کوئی جدوجہد نہیں کر رہا۔ جب زرداری اکیلے پنڈی احتساب عدالت میں گرمیوں میں درخت کی چھائوں تلے بیٹھے راہ تک رہے ہوتے تھے کہ شاید کوئی پیپلز پارٹی کا بھولا بھٹکا ان سے ملنے نکلے گا تو بھی یہ میڈیا تھا جس نے انہیں زندہ رکھا ہوا تھا ۔ میڈیا ہی ان کی خبریں دے کر انہیں مردِ حر کا لقب دے رہا تھا اور بعد میں جنہوں نے وہ لقب دیا تھا وہ بھی پچھتائے ہوں گے کہ کیسا لقب کس کے سر پر رکھ دیا ۔
مجھے یاد ہے دو ہزار چار میں جب جنرل مشرف سے ڈیل ہونے کے بعد زرداری رہا ہو کر دبئی گئے تھے اور بینظیر بھٹو کو کہانی ڈالی تھی کہ بس اب وہ جنرل مشرف سے بات طے کرآئے ہیں اور جونہی وہ لاہور ایئرپورٹ پر اتر کر انقلاب کی قیادت کریں گے تو نئے انتخابات ہوجائیں گے تو بھی انہیں واپسی کے لیے پاکستان سے درجنوں صحافیوں کی ضرورت پڑگئی تھی ۔ پاکستان سے تھوک کے حساب سے صحافی منگوائے گئے تاکہ وہ ان کے انقلاب کے لاہور میں عینی شاہد ہوں گے۔ انہی صحافیوں نے پھر لاہور ایئرپورٹ پر دیکھا کہ موصوف خود جہاز سے اترے اور بھاگ کر امین فہیم کے ساتھ مرسڈیز پر بیٹھے اور یہ جا وہ جا‘ جب کہ صحافیوں کو پرویز الٰہی کی پولیس نے مار مار کر دنبہ بنا دیا کہ تم نے زرداری کے ساتھ آنے کی جرأت کیوں کی تھی۔ 
اسی پرویز الٰہی کو بعد میں جس کے خلاف وہ پنجاب میں انقلاب لانے کے لیے دبئی سے آئے تھے، اپنی حکومت میں دو ہزار دس میں ڈپٹی وزیراعظم بھی بنا دیا جنہوں نے ان کے ورکرز پرلاہور میں ایسا تشدد کیا ‘جب ایئرپورٹ پر ایک پرندہ بھی پر نہ مارسکا تھا ۔ زرداری کی اس ڈیل کی وہ درگت بنی اور بینظیر بھٹو نے خود مذاق اڑایا ،موصوف اس کے بعد چار سال تک پاکستان لوٹنے کی جرأت نہ کرسکے اور اس وقت لوٹے جب بینظیر بھٹو ماری جاچکی تھیں ۔ 
پیپلز پارٹی بھول گئی ہے‘ صحافیوں نے ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر کتنا سٹینڈ لیا اور ان کے لیے وقت کے جابر حکمرانوں سے لڑائیا ں تک لڑیں ۔ کسی دن وہ شاہین صہبائی کا وہ عالی شان نیوز پیس پڑھ لیں جو انہوں نے زرداری پر لکھا تھا کہ کیسے انہیں مشکل سے اسلام آباد سے کراچی جا کر ان سے جیل میں ملنے کی اجازت ملی تھی اور ان کا منہ بولا بھائی ٹپی بھی انہیں گھر ملا تھا اور ان کی والدہ سے بھی ملاقات ہوئی تھی۔ بینظیر بھٹو کو بھی صحافیوں کی ضرورت رہتی تھی ۔ صحافیوں نے ہی پیپلز پارٹی کو مشکل دور میں زندہ رکھا تھا اور انہیں تمام تر مشکلات کے باوجود کوریج دی اور ان لوگوں کی پارٹی کو مرنے نہیں دیا ۔ 
آج صحافی پیپلز پارٹی سے کیا چاہتے ہیں؟ کیا کسی صحافی نے پیپلز پارٹی کے کہنے پر وزیراعظم یا سندھ کا وزیراعلیٰ لگنا ہے یا پھر کسی صحافی نے آئی جی کی پوسٹ مانگ لی ہے ؟ اگر خواجہ کی جگہ کوئی اور آئی جی لگے تو بھی وہ پولیس سے ہوگا نہ کہ وہ کوئی صحافی ہوگا۔ صحافیوں کو لالچ دینے کا طریقہ بھی تو انہی سیاستدانوں کا ہے۔ کسی کو سرکاری ٹی وی کا ایم ڈی لگا دو تو کسی واجد شمس الحسن جیسے برطانوی شہری کو بیرون ملک سفیر لگا دو، یا کوئی اور بڑا عہدہ دے دو۔ایک مرتبہ ندیم افضل چن نے خود ایک ٹی وی شو میں میری موجودگی میں کہا تھا کہ پیپلز پارٹی حکومت نے صحافیوں کو بہت کھلایا تھا لیکن پھر بھی ان کے خلاف لکھتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے وہ صحافیوں کو کیوں کھلاتے رہے؟ کیا اپنی نااہلی، کرپشن اور بیڈ گورننس چھپانے کے لیے انہوں نے صحافیوں کو خریدا اور کرپٹ کیا؟ تو پھر کیا وہ پنجاب میں الیکشن جیت گئے؟ اس سے ثابت ہوا آپ صحافیوں اور میڈیا ٹائی کونز کو کتنا ہی مال کیوں نہ کھلا لیں‘ الیکشن آپ نے اپنی کارکردگی پر ہی جیتنے ہوتے ہیں۔ آپ اچھے افسران لگائیں گے تو وہ اچھی حکومت قائم کرنے میں مدد دیں گے اور الیکشن آپ ہی جیتیں گے۔ کوئی صحافی آپ کو الیکشن جتوا یا ہروا نہیں سکتا لیکن پھر بھی آپ ان پر پیسے اور عہدے خرچ کرتے رہتے ہیں اور وہ دنیا بھر کا جھوٹ آپ کی شان میں لکھ کر دراصل آپ کو بیوقوف بناتے ہیںا ور یقینا دل ہی دل میں ہنستے ہوں گے کہ کیسے بیوقوف مل گئے ہیں جن پر دو تین کالم تعریف کے لکھ دو اور وزارتوں، سرکاری عہدوں اور سفارتوں تک سب کچھ لے لو اور مزے کرو اور گالیاں سب صحافی کھائیں کہ یہ کرپٹ ہیں۔ 
اگر آپ اچھے لوگوں کو عہدوں پر لائیں گے تو یقینا عوام کو ریلیف ملے گا تو وہ آپ کو ہی ووٹ دیں گے۔ صحافی یہ چاہتے ہیں کہ آپ بہتر لوگوں کا انتخاب کریں۔ کراچی میں دس برسوں میں بارہ ہزار لوگ مارے گئے ہیں کیونکہ وہاں پولیس کو قدم نہیں جمانے دیے گئے۔ اس لیے سب اچھا پولیس نظام اور افسران چاہتے ہیں۔ ہم بھی اس معاشرے کے لوگ ہیں، ہم بھی اس معاشرے اور ملک کی بہتری چاہتے ہیں ۔ ہم میں سے کوئی آئی جی کے عہدے کا امیدوار نہیں۔ ادھر پنجاب کی سن لیں۔ آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا نے پچھلے دنوں ایک صحافی کے ساتھ انٹرویو میں فرمایا ہے کہ پنجاب کے لوگ بدتمیز ہیں اور یہاں کے سیاستدان پولیس کو استعمال کرتے ہیں ۔ اس کے بعد اس محکمے کی کیا عز ت رہ گئی ہے۔ ایک آئی جی نے بیٹھے بٹھائے پورے پنجاب کے لوگوں کو غیرمہذب اور بدتمیز قرار دے دیا ۔ اسی پنجاب کے لوگوں سے وہ تنخواہ بھی لیتے ہیں اور ریٹائر ہونے سے پہلے انہوں نے تاعمر مراعات اور چار لاکھ روپے تنخواہ بھی بڑھوا لی۔ ٹیکس بدتمیز عوام دے اور عیاشیاں مہذب آئی جی مشتاق سکھیرا کریں جو ساڑھے تین برس پنجاب کے آئی جی رہنے کے بعد فرماتے ہیں کہ پولیس کا اچھا نظام خیبر پختون خوا میں ہے۔ 
میں حیران ہوتا ہوں کہ ہم صحافی ان سیاستدانوں کو اس وقت کیوں اچھے لگتے ہی جب یہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں اور ہم ان کے ہیروز ہوتے ہیں اور پاورز میں آتے ہی انہیں کرپٹ اور دو نمبر بیوروکریٹس سے کیوں محبت ہوجاتی ہے؟ اپوزیشن میں انہیں ایماندار افسر اچھے لگتے ہیں اور اقتدار میںوہ آئی جی اچھا لگتا ہے جو سندھ میں آصف زرداری کی شوگر ملوں کو کسانوں سے زبردستی گنا لے کر دے اور کسانوں کو چھتر مارے...
پیپلز پارٹی کو مظلومیت کا پرچار کرنے کے لیے پھر انہی صحافیوں کی ضرورت پڑے گی جن پر آج یہ برس رہے ہیں کہ وہ کون ہوتے ہیں انہیں بتانے والے کہ آئی جی کون لگے گا۔جس صوبے میں نو برس میں چودہ آئی جی تبدیل ہوجائیں اس کے بعد یہ واضح ہوجاتا ہے یہ پارٹی کسی کام کے بندے کو کام نہیں کرنے دیتی۔
ان میں سے کوئی ایک تو بیمار ہے۔ سیاسی پارٹی یا پھر وہ چودہ آئی جی۔فیصلہ آپ کر لیں آپ میں سے کون بیمار ذہنیت کا شکار ہے؟ 
ہر ایماندار افسر سے نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کو چڑ ہے۔ہر کرپٹ ان کا ہیرو اور ڈارلنگ ہے۔ نواز شریف نے بہاولنگر کے ڈی پی او شارق کمال صدیقی کو صوبہ بدر کرنے کا حکم دیا تو زرداری نے اے ڈی خواجہ کو سندھ سے۔ہمارے دونوں لیڈرز ماشاء اللہ ایماندار افسروں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے! 
کیا ہم صحافی بیمار ہیں جو ان سیاستدانوں کو کہتے ہیں اچھے اور ایماندار افسران لگائیں یا یہ سیاستدان بیمار ہیں جو ہر اچھے افسر کو صوبہ بدر کردیتے ہیں ؟ 
ویسے میرا خیال ہے ہم عوام ہی بیمار ہیں جنہوںنے پاکستان سے مال کما کر پاناما، لندن اور دبئی میں جائیدادیں اور اولادیں رکھنے والوں کو سونے کے تاج پہنانے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے...! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved