تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     07-04-2017

شہرِاقتدار کے لطیفے

پارلیمانی لطیفے کے نام سے چھپنے والے وکالت نامہ نے فرمائشوں کے ڈھیر لگا دیے۔شکریے کے ساتھ ساتھ چند مہربانوںکی فرمائش پر شہرِاقتدار کے لطیفے جمع کیے۔جن میں 10 نمبری سرکاری لطیفے یوں ہیں۔
لوہے کالطیفہ''آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا‘‘
ای ۔سی۔ایل لطیفہ'ـ'اجازت نہیں دی جائے گی‘‘
قومی لطیفہ''ہم زندہ قوم ہیں‘‘
غیر قانونی لطیفہ'' قانون کی حکمرانی‘‘
کتر نے والا لطیفہ''قطری خط‘‘
لطیفے کا لطیفہ''خادم‘‘
زیرو لطیفہ''تلاش جاری ہے‘‘
سب سے بڑالطیفہ ''آرام سے نہیں بیٹھوں گا‘‘
شفاف لطیفہ''کرپشن ثابت ہوجائے توپھانسی پرچڑھ جائو ںگا‘‘
کاروکاری لطیفہ''ثابت کرو کالا دھن میرا ہے‘‘
غیرتی لطیفہ
''پولیو کے قطروں کے لیے پیسے بل گیٹس فاونڈیشن دے گی‘‘۔ 
''ٹی بی کے خاتمے کے لیے رقم گلوبل فنڈ سے لے لیں گے۔‘‘
'' تعلیم کیلئے ڈالر اور پائونڈ یو ایس ایڈ (USAID)اور یوکے ایڈ (UKAID) والے دیں گے‘‘۔
''کچرا چین اور ترکی کی کمپنیاں اور مَلک ریاض صاف کروائے گا۔ دھماکے کے بعد نعشیں ایدھی فاونڈیشن کا عملہ اٹھائے گا۔ ہاں باقی ملک ہم خود چلائیں گے ہمارا بھی تو کوئی فرض بنتا ہے۔ ہم ایک خوددار قوم بھی تو ہیں‘‘
اے طائرِ لاہوتی اُس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
معجزاتی لطیفہ
گاما رات بھر سو نہ سکا صبح اُس کے حلقے کا ایم۔این۔اے گائوں میں4 سال بعد واپس آ رہا تھا۔ 4 سال پہلے وہ گامے کی طرح تھڑیا تھا لیکن چُھری مار بھی۔ الیکشن مہم کے دوران ایم۔این۔ اے نے دعدہ کیا میں تمہیں غریبی ختم کر کے دکھا دوں گا ۔ آج گامے کو پولیس والوں نے بہت دھکے مارے مگر وہ اپنے ایم۔این۔اے کی شان و شوکت دیکھنے میں کامیاب ہو گیا ۔ وہ حیران ہوا کہ تھڑیا لینڈ کروزر سے سر باہر نکال کر اور سونے کی گھڑی اور طلائی انگو ٹھیوںوالا ہاتھ لہرا رہا تھا۔ گامے نے حیران ہو کر پھجے ّ سے کہا۔
'' مجھے آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ جو لیڈ ر غریبوں کے حق کے لیے لڑتے ہیں۔۔۔وہ لڑتے لڑتے امیر کیسے ہو جاتے ہیں۔۔۔؟؟‘‘
بدنام لطیفہ 
پھر مہینوں بعد ٹی وی پر اُسے دیکھا ''فراز‘‘
اپنے کھمبے سے گلے لگ کر میں روتا ہی رہا۔
'' مجھے اچھی طرح سے یاد ہے یہ وہی شخص تھا جس نے کہا تھا شیر کو ووٹ دو لوڈشیڈنگ ختم کر دوں گا ورنہ میرا نام بدل دینا‘‘۔
با عزت لطیفہ
وزارتِ سمدھی امور کا شکریہ جن کی ان تھک محنت اور چھوٹے خادم کی لگاتار کوشش سے ملک بھر میں مرغی کی کھوئی ہوئی عزت بحال ہو گئی۔المیہ یہ ہے کہ کسی کی زندگی کی قیمت کا اندازہ اُس کی موت کے بعد ہی ہوتا ہے۔ 
جیسے زندہ مرغی۔۔۔ 250 روپے فی کلو
اورچکن کڑاہی۔۔۔ 1100 روپے فی کلو
شریفانہ لطیفہ 
شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبال سوئی ہوئی قوم کو جگانا چاہتے تھے۔
لیڈر قوم کو جگانے کے زبانی وعدے کرتے رہے۔ مگر اقبال کے خواب کو واپڈاشریف نے خوب سنجیدگی سے لیا ۔ اس خواب کی تعبیر 20کروڑ عوام بُھگت رہے ہیں۔
شاعرانہ لطیفہ
گٹھ جوڑ ہے چور لُٹیروں کا
یہ ملک ہے "کھیت "وڈیروں کا
یہاں سیکڑ وں لوگ جلائے گئے
یہاں اربوں کھربوں کھائے گئے
کچھ اور میثاق بنائیں گے
خود کھائیں اور کھلائیں گے
جمہور کے نام پہ لوگوں کو، 
بس لالی پاپ دکھائیں گے
انور مقصو دی لطیفہ
آپ مجھے یہ بتائیں کہ پاکستان کب اور کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے؟
میرا تو ایک اِیڈیا ہے مگر تو مانے گا نہیں۔ ابے! میرا تو کہنا ہے یہ پاکستان جو ہے بِلڈرز کے حوالے کر دیں۔ ایسا اشتہار بنا کے دیں گے کہ آپ کی چیخ نکل جائے گی۔
شکریہ۔
سمجھے آپ؟
مگر پاکستان بِلڈرز کے حوالے کردیں ۔ کیا مطلب؟
ہاں دیکھو یہ سنڈے میگیزین کے اندر اشتہار دیں گے۔ لکھا ہوا ہو گا 4 صوبوں پر مشتمل خوبصورت ملک ہر صوبہ مشرقی مگر ویسٹ اوپن۔ قرضے کی آسان سہولت ائی۔ایم۔ایف سے۔ زندہ رہنے کے لیے چینی ریسٹورنٹ 24 گھنٹے کُھلا رہے گا۔ ایمیریکن کیچن کیبینٹ۔
میرا۔۔ سوال بہت ہی سنجیدہ تھا۔
ابے میرا جو جواب تھا وہ آپ کے سوال سے بھی زیادہ سنجیدہ تھا مگرتم نے اُس کو سمجھنے کی کو شش نہیں کی ،ابھی میرا اشتہار مکمل نہیں ہوا ہے۔ پراجیکٹ کے نیچے بیسمینٹ میں جنگجوئوں سے مذاکرات کے لیے دو بڑے بڑے ھال۔ تمام غُسل خانوں میں ا قتصادی ، بحران کی نکاسی کا بہتر ین انتظام ۔ وال ٹو وال افغان کارپِٹ اور وکیلوں کے آنے کے لیے اور جانے کے لیے معقول انتظام۔ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ اپنا اپنا جنریٹر لایئے۔ اب بتایئے کیسا لگا یہ پاکستان۔ کل اشتہار دو پرسوں سے اگر بکنگ نہ شروع ہو تو جس میں کُتا کھاتا ہے اُس میں میں کھائو ں گا۔
آپ سے بات کرنا فضول ہے جی۔
(شاک میں آ کر) ہاں؟
بہت فضول ہے آپ سے بات کرنا۔
تو ایک آدمی بتا ئو یہاں پر جس سے بات کرنا اچھا ہو۔سبھی سے بات کرنا فضول ہے۔
میگالطیفہ
حنیف کے پاس گیند ہے۔ حنیف فائیل کو لے کر آگے بڑھے۔ ناصر کی طرف ناصر نے گیند کو کلیم کی طرف کیا کلیم نے گیند کو آگے بڑھایا۔کلیم نے گیند کو آگے بڑھایا حنیف کی طرف دوبارہ۔ حنیف نے ڈاج کیا۔ بال ڈاج کے بعد آگے بڑھی۔ گیند شیناچے کے پاس۔ شیناچے نے گیند کو مزید آگے بڑھایا۔ رشید کے پاس رشید نے گیند کو اور آگے کیا۔ سردا ر گیند کو تھوڑی دیر رکھ کر گُھما رہے ہیں اُس کے بعد پھینکا۔ اوہو! یہاں کوئی کھلاڑی نہیں ہے۔ کھلاڑی کے بعد سینٹر فارورڈ کے بعد سینٹر فارورڈ۔ سینٹر فارورڈ کے بعد اب یہ گیند شیناچے کے پاس دوبارہ آ گئی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ شیناچے۔ شیناچے ڈی کے قریب ہے۔ ڈی میں داخل ہو گئے۔ جوش وخروش سے آگے(گیندمیرامطلب ہے،میگاٹھیکے کی فائیل) لے گئے اور یہ گول! پاکستان نے شاندار گول کر دیا ہے۔ ہر طرف جھنڈے بلند۔ جمہوریت زدہ شفافیت زندہ باد کے نعرے۔ 
لطیفا نہ وزارت 
ا ینکر بولاـ ، مِسٹر برٹل ڈنمارک کے وزیرِ داخلہ اور وزیرِ صحت ہیں۔ یہ ہمارے ناظرین کے لیے بہت دلچسپ بات ہے کہ آپ اپنے دفتر سائیکل پر جاتے ہیں۔ یہ بات بالکل بھی عام نہیں ہے ہمیں اس کی وجہ بتائیں۔
شہر میں بہت ٹریفک ہوتی ہے تاہم سائیکل پر جانے سے وقت بچتا ہے۔ یہ ایک وجہ ہے۔دوسری وجہ صحت ہے۔ یہ پورے جسم خاص طور پر کمر کے لیے بہت فائدے مند ہے۔ تازہ ہوا بھی ملتی ہے اور بہترین ورزش بھی ہو جاتی ہے۔ چاق چو بند، صحت یاب اور تندرست رہنے کے لیے سائیکل بہترین ایجاد ہے اور یہ لمبی عمر بھی دیتی ہے۔
آپ کی عمر کیا ہے؟
میں 66 سال کا ہوں۔
اور آپ کی سوچ میں یہ نہیں آتا کہ میں ایک وزیر ہوں گاڑیوں میں کیوں نہ پھرِوں؟
میں نے دیکھا ہے۔ جب میں غیر ملکی سفیر وں یا غیر ملکی کمپنیوں سے ملتا ہوں تو وہ مجھے سائیکل پر دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں۔
کیا آپ یہ ہمیشہ سے کرتے آ رہے ہیں؟ تب بھی جب آپ وزیرِ تعلیم تھے؟ یعنی یہ ایک عادت ہے۔
بالکل جب میں وزیرِ تعلیم تھا تو میری خواہش تھی سکول کے بچے بس کی بجائے سائیکل پر سکول جائیں۔ یہ اُن کی صحت کے لیے فائدے مند ہو گا۔ سکول بس پر خرچ کرنے سے بہتر ہے ۔ہمیں سائیکل وا لی سڑکیںبنانی چاہئیں۔
نوٹ:۔(کس لطیفے پر ہنسنا ہیـ ، کس پر رونا فیصلہ خو د کر لیں )

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved