عین ناک کے نیچے
آپ ہی کے اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق سپیشل آڈٹ رپورٹ میں لیپ ٹاپ سکیم کے ذریعے سرکاری خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچانے کا انکشاف ہوا ہے اور جس میں 9 افسروں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے جبکہ اسی رپورٹ کے مصداق 2161 طلبا کو دو دو لیپ ٹاپ دی گئیں اور 2481 طلبہ کے شناختی کارڈ جعلی تھے۔ واضح رہے کہ یہ پروگرام وزیر اعلیٰ کے ذاتی منصوبوں میں سے ایک تھا‘ جس کا یہ حشر ہوا ہے۔ وزیر اعلیٰ جہاں ایک سخت گیر منتظم کے طور پر جانے جاتے ہیں وہاں وہ کم و پیش اپنی ہر تقریر میں کرپشن کی مذّمت کرنے اور کرپشن کرنے والوں کو نشانۂ عبرت بنانے کے عزم کا اعادہ کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ لیکن عملاً ان کے نیچے جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک تشویشناک صورت حال کی عکاسی کرتا ہے۔ اب یا تو وزیر اعلیٰ کے دعوے درست نہیں ہیں‘ یا ان افسروں کے خلاف یہ الزامات جھوٹے ہیں۔ ہماری صاحبِ موصوف سے اتنی گزارش ہے کہ وہ اپنا کام جاری رکھیں لیکن خدا کے لیے کرپشن اور کرپٹ لوگوں کے خلاف اس مسلسل بیان بازی سے احتراز فرمائیں‘ ہم خوش اور ہمارا خدا خوش۔
موسم کی واپسی
لاہور سمیت ادھر ادھر جو بارشیں اور ژالہ باری ہوئی ہے‘ ایسا لگتا ہے کہ موسم سرما جاتے جاتے پھر واپس آ گیا۔ خاص طور پر صبح ٹھنڈی ہوا نے خوب مزہ دیا۔ ہوا خوری کا صحیح مفہوم اب سمجھ میں آیا ہے۔ اگرچہ دوپہر میں گرمی پھر آنکھیں دکھاتی ہے لیکن اس چھوٹے سے وقفے کو بھی غنیمت سمجھنا چاہیے۔
جمیل یوسف کا ایمان
محبّی جمیل یوسف کا دارالخلافہ سے فون آیا ہے کہ آج بھٹو والے حقیقت افروز کالم نے ایمان تازہ کر دیا ہے۔ میں نے کہا: اگر میری شاعری نے آپ کا ایمان خراب کر رکھا تھا اور میرے کالم سے تازہ ہو گیا ہے تو اس سے زیادہ خوشی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔
وفیات
ہماری نامور فکشن رائٹر طاہرہ اقبال کے میاں اگلے روز انتقال کر گئے۔ یہ افسوسناک اطلاع انہوں نے مجھے فون پر دی ہے۔ مزید افسوس اس بات کا ہے کہ فیصل آباد میں کسی اخباری رپورٹر کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اس کی خبر ہی چھاپ دیتا۔
90ء کی دہائی کے اہم ترین افسانہ نگاروں میں شامل احمد جاوید کی اگلے روز اسلام آباد میں وفات ہو گئی۔ وہ پہلے اسلام آباد تھے اور اب آسٹریلیا میں مقیم۔ گزشتہ چند ماہ سے دوستوں سے ملنے کے لیے اسلام آباد آئے ہوئے تھے کہ برین ہیمریج سے انتقال کر گئے۔ کہانیوں کے متعدد مجموعوں کے خالق اور ''دستاویز‘‘ پارچے کے رشید امجد اور ابرار احمد کے ہمراہ ایڈیٹر بھی رہے۔ مرحومین کے ایصال ثواب کے لیے دعا کی درخواست ہے۔
رُستم نامی
آپ نے شنکیاری‘ مانسہرہ سے ہماری فرمائش پر اپنی شاعری ارسال کی ہے۔ کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
زندگی کے متاثرین میں ہیں
ہم نہ تیرہ میں ہیں نہ تین میں ہیں
کام آتے ہیں مشکلوں میں بہت
غم ہمارے معاونین میں ہیں
ہر کسی سے ملے ہوئے ہیں ہم
ہم جو شامل منافقین میں ہیں
اس لیے بولتے نہیں ہیں ہم
شہرِ بے دم کے ساکنین میں ہیں
لذتِ شوق سے ہیں عاری ہم
ہم محبت کے کم سنین میں ہیں
میں ہوں تکمیل کے مراحل میں
میرے پُرزے ابھی مشین میں ہیں
کام کرتے ہیں ہم تُمہارا ہی
ہم تمہارے ملازمین میں ہیں
ہم کو خطرۂ اُنہی سے ہے نامیؔ
جو ہمارے اکابرین میں ہیں
اور‘ اب جام پور سے شعیب زمان کی شاعری ؎
انتہائی خوشی کی آمد ہے
پتھروں میں نمی کی آمد ہے
جس قدر غار میں دراڑیں ہیں
اُس قدر روشنی کی آمد ہے
رستے گلدان ہوتے جاتے ہیں
آج گھر میں کسی کی آمد ہے
جس طرف دل کے پائوں چلتے ہیں
اس طرف زندگی کی آمد ہے
آج کامقطع
بازارِ بوسہ تیز سے ہے تیز تر‘ ظفر
اُمید تو نہیں کہ یہ مہنگائی ختم ہو