تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     08-04-2017

سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان از سید انیس شاہ جیلانی

تمام تیاریاں مکمل تھیں۔ ہندوستان کے تمام احباب کو کہہ چکا تھا کہ پہلے کراچی سے کلکتے جائوں گا پھر دوسرے مقامات پر حاضری دوں گا۔ ترکِ وطن کیے ہوئے پینتیس سال ہو گئے ہیں۔ ان پینتیس سال میں صرف ایک بار 1961ء میں سفرِ ہند کا اتفاق ہوا تھا‘ اس بار دل میں کیا کیا ولولے تھے کیا کیا تمنائیں تھیں۔ چونکہ میرا تعلق صحافت کے ناتے سیاست سے بھی ہے‘ بنابریں عین وقت پر یہاں کچھ ایسے سیاسی حالات پیدا ہو گئے کہ تمام امکانی کوششوں کے باوصف پاکستان سے باہر جانا ممکن نہ ہوا‘ جی مسوس کر رہ گیا۔ آپ حضرات سے ملنے کی کیا کیا تمنائیں تھیں‘ سب خاک میں مل گئیں۔ انشاء اللہ جونہی حالات سازگار ہوئے سب سے پہلے عروس البلاد (ہند) کلکتے کا سفر اختیار کروں گا۔ میری کوششیں برابر جاری ہیں کہ راستے کی رکاوٹیں دور ہوں اور میں سب دوستوں سے ملنے اور پرانی یادیں تازہ کرنے کے لیے بھارت یاترا کر سکوں۔ میں احبابِ کلکتہ سے عدم حاضری پر معذرت خواہ ہوں‘ لیکن کیا کروں یکایک غیر متوقع طور پر ایسے پہاڑ راستے میں حائل ہو گئے کہ ان کا عبور کرنا امکان سے باہر تھا۔ ازراہِ کرم متفسرینِ حال تک میرا یہ عُذر پہونچا دیں۔ آخر میں دو شعر عرض ہیں ؎
کوئی ہم کو آ کے دیکھے کوئی ہم سے آکے پوچھے
ستمِ فراقِ یاراں المِ وداعِ خانہ
سرِ شاخِ گُل ہمیشہ جو رہا ہو نغمہ پیرا
اُسے کیا خبر کہ کیا ہے غمِ ترکِ آشیانہ
(مطبوعہ 25 اکتوبر 1981ء)
کرنا خدا کا یہ ہُورا کہ کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ پاکستان کی سیر کو آئے اور گھومتے گھامتے کراچی جا نکلے۔ کنور صاحب مہذب نستعلیق اور یار باش‘ پریمیوں نے خوب آئو بھگت کی۔ کنور حکام رس ہے‘ ایک شخصیت ہے‘ اچھا مُرغا ہے نکلنے نہ پائے۔ وہ خود ایک محفل طراز آدمی ہے‘ تیور دیکھ ہی لیے ہوں گے۔ کہہ دیا بھائی تم لوگ بھی تو آئو‘ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹے۔ یہی کہلوانے کے لیے تو کنور صاحب کو بانسوں پر چڑھایا جا رہا تھا۔ دن اسی دن ہی کے لیے تو گنے جا رہے تھے۔ کنور صاحب کے لیے کوئی مسئلہ ہی نہ تھا۔ یہیں کے یہیں کراچی ہی میں تاریخ طے کر دی۔ بھائی ٹھاٹ کا مشاعرہ ہو گا ہندوپاک مشاعرہ بارے چیمسفورڈ کلب میں۔ اپنے کارکن اور شاگرد رضا سحریؔ سے کہہ دیا‘ میاں لکھ لو ہمیں دلی جا کر انتظامات کرنا ہیں۔ رعنا صاحب دلی سے کراچی آ گئے۔ رئیس صاحب نے بتایا‘ ہمیں لانے لے جانے کے لیے بار بار آ جا رہے ہیں۔ اجازت نامۂ سفر (این او سی) کے لیے جنرل ضیاء الحق کے پیچھے پڑ گئے‘ وہاں سے بھی جنرل عارف نے یہی اعتراض کیا کہ آپ نے یہ کیا پریم سبھائوں کا چکر ڈال رکھا ہے۔ ہندی سفارتی حلقوں سے بھی آپ کا ربط ضبط بے جا ہے۔ وہ خط بھی تو نکالو بھائی‘ ہاں یہ رہا وہ فرماتے ہیں:
صورتِ حال یہ ہے کہ سنٹرل انٹیلی جنس بیورو کے چیف خواجہ مسرور حسن ہیں اور ان کی بھتیجی عذرا قزلباش میری شاگرد بلکہ میری مرید ہیں۔ میرے فائل پر نہ جانے پاک ہند پریم سبھا کے بانی کی حیثیت سے کیا لکھ دیا ہے کہ وزارت داخلہ مجھے سفر ہند کی اجازت نہیں دیتی۔ محمود ہارون صاحب سے صاحب سلامت ہے۔ کم از کم میر علی احمد تالپور نے کوشش ضرور کی مگر نہ سال گزشتہ(ستمبر 81ء کے مشاعرۂ کلکتہ کے موقع پر) این او سی ملا نہ اس سال۔ تار ٹیلیفون خطوط کا تانتا بندھا رہا مگر صدائے برخواست ۔ آخر میں نے تنگ آ کر براہِ راست صدرِ مملکت کو خط لکھا کہ ؎
وعدہ آنے کا وفا کیجیے یہ کیا انداز ہے
تم نے کیوں سونپی ہے میرے گھر کی دربانی مجھے
آخر چار روز قبل صدر صاحب کے افسر تعلقاتِ عامہ (میجر صدیق سالک) کا فون آیا‘ کہنے لگے رئیس صاحب کیا قصہ ہے۔ میں نے قصہ بیان کیا۔ کہنے لگے کہ آپ ہندوستان کب گئے تھے۔ میں نے کہا: 1941ء میں‘ کہا: بائیس سال ہو گئے۔ میں نے کہا: جی ہاں۔ کہنے لگے کہ آپ پر انٹیلی جنس بیورو کو شُبہ کیوں ہے۔ میں نے پاک ہند پریم سبھا کی پوزیشن واضح کی۔ فرمایا میں کوشش کروں گا۔ کل جنرل کے ایم عارف کا فون آیا‘ یہ صدر مملکت کے چیف آف دی سٹاف ہیں اور ان کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ صدر صاحب سے تعلق رکھنے والے تمام معاملات کا تصفیہ یہی بزرگ کرتے ہیں۔ کہنے لگے کہ اچھا اب جائیے‘ میں وزارت داخلہ کو کلیرنس دے رہا ہوں لیکن یہ خیال رکھیں کہ آپ کے ایک ایک لفظ کو ہندوستان والے بغور سُنیں گے۔ اب تک یہ کارروائی انجام پائی ہے (تحریر 22 اگست 1982ء)
این او سی مل گیا‘ باچھیں کھل گئیں۔ عید ہو گئی۔ محکمہ تعلیم کا اجازت نامہ میں بتا چکا ہوں نہیں مل رہا۔ کاغذ ہاتھ میں تھا یعنی بچہ بغل میں مگر بدحواس۔ کیا کیفیت ہوئی حضرت کی یہ سن کر کہ اجازت نامہ ملے گا تو جانا ممکن ہو گا۔ وہاں مشاعرہ طے ہو چکا تھا۔ بہرحال یہ بھی ہو گیا اور ہم دلی پہونچ گئے۔ تو میں کہہ رہا تھا‘ میں تو پیچ و تاب کھاتا رہا۔ تیسری صبح ہوتے ہی میں نے رئیس صاحب سے بالآخر کہہ ہی دیا یہ آپ نے کیا ہر جگہ پاک ہند پریم سبھا‘ پاک ہند پریم سبھا کی رٹ لگا رکھی ہے۔ ایسی پریم سبھائیں تو یہاں سے وہاں تک چپّے چپّے میں بکھری پڑی ہیں۔ دو چار حجام جمع کرکے یہ بڑا جہازی اشتہار لٹکا دیتے ہیں آل پاکستان باربر ایسوسی ایشن...
آج کا مقطع
میں نے اب تک تو بچایا ہے محبت کو ‘ ظفر
اور اب میں اسے محفوظ نہیں رہ سکتا

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved